... loading ...
دوستو، آج سن ڈے ہے یعنی چھٹی والا دن، آپ سب اپنے اپنے گھروں میں آرام سے سو کر اٹھیں گے، کچھ لوگوں نے آج کی چھٹی کے حوالے سے کچھ شیڈول بھی ترتیب دے رکھے ہوں گے، کچھ گھر کے کام نمٹائیں گے، خواتین کی اکثریت اس دن کو ’’یوم لانڈری‘‘ کے طور پر مناتی ہیں اور پورے ہفتے کے میلے کچیلے کپڑے واشنگ مشین کی نذر کردیتی ہیں۔۔ اگر حالات حاضرہ کا مشاہدہ کریں تو مولانا فضل الرحمان نے کپتان کو دو دن کا الٹی میٹم دیا تھا جو آج رات بارہ بجے پورا ہوجائے گا، ہم چونکہ غیر سیاسی کالم لکھتے ہیں اس لیے سیاست اور اس کے بدلتے انداز کے حوالے سے ہم کچھ نہیں بولیں گے، جن کا جو کام ہے وہ کریں، ہمیں جو کام آتا ہے ہم وہی کریں گے، ہمارے ملک کایہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ، جس کا جو کام نہیں وہی اس کے سپرد کردیاجاتا ہے۔۔وزیربہبود آبادی اکثر ایسے شخص کو بنایاجاتا ہے جس کے بچوں کی کوئی گنتی نہیں ہوتی، وزیرصحت ہمیشہ بیمار ہی نظر آتا ہے، وزیرتعلیم کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر اس سے پوچھیں کہ اے بی سی ڈی آتی ہے تو وہ فرفر سنادے گا، پھر آپ ان سے دوبارہ پوچھیں کہ اب چھوٹی اے بی سی ڈی سناؤ تو وہ بڑی معصومیت سے کہے گا، وہی تو نہیں آتی۔۔ وزیردفاع کا ’’حال‘‘ آپ کے سامنے ہے۔۔ جو بندہ اپنا دفاع نہ کرسکے وہ ملک و قوم کا دفاع کیا خاک کرے گا؟؟ خیر یہ سب ہمارے مسئلے نہیں، ہمیں تو صرف اوٹ پٹانگ باتیں ہی آتی ہیں تو چلیے وہی کرتے ہیں۔۔ ورنہ آپ ہی بولیں گے کہ ہفتے میں ایک ہی چھٹی ملتی ہے اس میں بھی موڈ چوپٹ کردیا۔۔
باباجی کہتے ہیں، سخت فیصلے لینے کا موسم آگیا ہے کہ ۔۔نہانا ہے یا نہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔۔زندگی میں محنت کرو۔۔اتنی محنت کرو کہ اچھی جاب ملے۔۔اتنی اچھی کہ ڈھیر سارا پیسہ جمع ہو جائے۔۔اتنا پیسہ جمع ہو جائے کہ آخرچلغوزے سستے لگنے لگیں۔۔۔ باباجی کا ہی فرمانا ہے۔۔زنانہ ’’پلیز‘‘ مردانہ ’’ پلیز‘‘ سے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔۔باباجی کے ساتھ ایسا ہی ایک ’’سین‘‘ ایک بس میں ہوا تھا، بس میں گنجائش سے زیادہ سواریاں گھسی ہوئی تھیں، باباجی بھی کسی نہ کسی طرح لیڈیز پورشن میں گھس گئے اور جلدی جلدی میں کسی دوشیزہ کے پیر پر چڑھ گئے، اس دوشیزہ نے باباجی کوخوب سنائی، باباجی نے بڑی خجالت کے ساتھ ’’سوری‘‘ بھی کہا لیکن خاتون نان اسٹاپ گرجتی برستی رہیں، اسی اثنا میں اگلا اسٹاپ آگیا ، مزید سواریاں بس میں چڑھی، ایک نوجوان بھی لیڈیز پورشن میں چڑھا اور اس نے بھی باباجی والی ’’غلطی‘‘ دھرا دی اور اسی دوشیزہ کے پیر پر چڑھ گیا، دوشیزہ نے نوجوان کو پیچھے کی طرف دھکیلا تو نوجوان کو غلطی کا احساس ہوگیا اس نے دوشیزہ سے فوری ’’سوری‘‘ کرلی، دوشیزہ نے مسکرا کر کہا، کوئی بات نہیں۔۔ یہ منظر دیکھ کر باباجی بری طرح تپ گئے، دوشیزہ کو مخاطب کرکے کہنے لگے۔۔کیوں بی بی، میری ’’سوری‘‘ کی اسپیلنگ غلط تھی کیا؟؟؟
کہتے ہیں کہ بعض لوگ کسی کی بات سے اس لیئے خوش ہو کر نہیں ہنستے کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے بلکہ وہ اس لیئے بھی ہنس دیتے ہیں کہ لوگ انہیں بیوقوف نہ سمجھنے لگیں۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔ ۔کبھی سوچا ہے انگریزی کا حرف’’ایم‘‘ سیدھا اور ’’ڈبلیو‘‘ کو الٹا کیوں لکھاجاتا ہے، کیوں کہ ایم فار مین (آدمی) سیدھا سوچتے ہیں اور ۔۔ڈبلیو فار ویمن (خواتین) ہمیشہ الٹا سوچتی ہیں۔۔ میں لفٹ سے اوپر جارہا تھا اتنے میں ایک عورت چھوٹے بچے کو گود میں لیے لفٹ میں داخل ہوئی، میں نے لفٹ کا بٹن دباتے ہوئے پوچھا،پہلا یا دوسرا۔۔۔عورت منہ پھلاتے ہوئے غصے سے بولی میرا نہیں ہے ، پھوپھو ہوں اس کی۔۔۔تاریخ گواہ ہے ، عورت جب بھی گھر کے کام کرتے تھک جائے تو شوہر اور بچوں میں سے ایک کی شامت ضرور آتی ہے۔۔ باباجی اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے اپنی بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ کیڑے مار دوا کہاں گئی تو جواب ملا۔۔ جی وہ دوا تو کیڑے کھاگئے۔۔باباجی کہتے ہیں، پریشانیوںکو اس طرح نظرانداز کرو جیسے نہاتے ہوئے کمر کو کرتے ہو۔۔باباجی کہتے ہیں مجھے پہلے نومبر کا مہینہ بہت اچھا لگتا تھا پھر اسی مہینے میں شادی ہوگئی۔۔معروف لکھاری مستنصر حسین تارڑ نے ایک جگہ بہت خوب صورت جملہ تحریر کیا تھا۔۔ کہتے ہیں۔۔دنیا کی ننانوے فیصد شکی عورتوں کی وجہ سے ساری عورتیں بدنام ہو چکی ہیں۔۔اور دنیا کے ننانوے فیصد زن مرید شوہروں کی وجہ سے دنیاکے باقی سارے مرد بدنام ہیں۔۔
ایک شخص کو بادشاہ نے موت کی سزا دی۔آخری خواہش پوچھی تو اس نے کہا کہ میںآپ کے گھوڑے کو اڑنا سکھا سکتاہوں۔بادشاہ حیرا ن ہوا مگر دو سال کی زندگی اسے بخش دی۔اس کے دوستوں نے پوچھا کہ یہ کیااحمقانہ شرط ہے۔اس نے جواب دیا کہ دیکھو، پہلی بات یہ کہ مجھے اب دو سال مل گئے ہیں۔دو سال میںہو سکتا ہے میں طبعی موت مر جاؤں۔۔ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے ،ہو سکتا ہے کہ گھوڑا مر جائے۔۔اور آخر میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ۔۔۔کیا پتہ دو سال میں گھوڑا اڑنا ہی سیکھ جائے۔۔اسی لیے ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔ ۔خیالی پلاؤ دنیا کی واحد ڈش ہے جو ہر لحاظ بہترین ہوتی ہے اس میں سوائے آپ کے کوئی مائی کا لال نقص نہیںنکال سکتا۔باباجی شدید غصے کے عالم میں ہمارے گھر آگئے، غصے کی وجہ پوچھی تو بتانے لگے۔۔ٹی وی پر پرانا کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا، زوجہ ماجدہ نے پوچھا، پرانا میچ کیوں دیکھ رہے ہو، میں نے کہا، تمہیں بھی تو دیکھتا ہوں اور پھر لڑائی شروع ہوگئی۔۔باباجی کے ڈرائنگ روم میں محفل جمی ہوئی تھی، جہاں باباجی کے ساتھ ہم اور ہمارے پیارے دوست بھی تھے۔۔ہمارے پیارے دوست موبائل میں مصروف تھے جب کہ باباجی ہمیں زندگی کے طور طریقے سمجھا رہے تھے اسی اثنا میں ہمارے پیارے دوست کہنے لگے، یار کچھ دیر پہلے ایک لڑکی نے انباکس میں کہا، آپ بہت خوب صورت ہیں۔۔باباجی نے برجستہ کہا۔۔چھڈ یار، اے کڑی لوڈ دے چکر اچ اے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ عقل مند انسان تین سوال کبھی نہیں پوچھتا۔۔ نمبر ایک کیا تم سوگئے ؟ نمبر دو، باتھ روم کا دروازہ بجاتے ہوئے پوچھنا کہ اندر کوئی ہے۔۔اور تیسرا۔ ۔اور سناؤ ۔۔ان تین سوالوں سے پرہیز کریں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔