وجود

... loading ...

وجود

سیاسی اختلاف اور شہریت کی منسوخی
(جلال نُورزئی)

بدھ 30 اکتوبر 2019 سیاسی اختلاف اور شہریت کی منسوخی<br>(جلال نُورزئی)

26 مئی 2016ء کو کوئٹہ کے سول سیکریٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹورم میں ذرائع ابلاغ کے ساتھ انتہائی اہم نشست رکھی گئی تھی۔ ٹی وی اور اخبارات کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام موجود تھے۔ چھ دہشت گرد پکڑے گئے تھے ان سے تفتیش مکمل ہوچکی تھی۔ گرفتاردہشت گردوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا تھا ۔ یہ سب افغان انٹیلی جنس کے اہلکار تھے ،جو کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں بم دھماکے اور ہدفی قتل کرتے تھے۔ ان کی اعترافی ویڈیو دکھائی گئی۔پریس کانفرنس ختم ہوئی تو حکومتی نمائندے اور سیکورٹی حکام کے ساتھ مزید بھی گفتگو ہوئی۔ راقم اور شہزادہ ذوالفقار ( صحافی و کالم نگار) نے ایک وزیر صاحب سے چند ساعت الگ بات چیت بھی کر لی ۔ چوں کہ دہشت گردوں سے متعلق بتایا گیا کہ افغان جاسوسی کے ادارے سے وابستہ تھے۔ بات ہوئی کہ صوبے کے اندر بڑی تعداد میں مہاجرین یا افغان باشندے قیام رکھتے ہیں ۔اس بنا پر دہشت گردآسانی سے آجاتے ہیں۔چنانچہ اس تناظر میں اس شخصیت نے بتایا کہ جے یو آئی کا ایک سینیٹر بھی افغان باشندہ ہے ۔ آڈیٹوریم سے سب نکل کر چلے گئے ۔تاہم مجھے تشویش ہوئی کہ آخر یہ سینیٹر ہے کون ؟ اس طرح میں او ر شہزادہ ذوالفقار سول سیکریٹریٹ میں موصوف کے دفتر گئے،انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا جس پر ان صاحب نے بتایا کہ حافظ حمداللہ افغان باشندہ ہے اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔ سچ پوچھئے مجھے ان صاحب کی معلومات اور سورس پر انتہائی حیرانی اور تعجب ہو ا ۔چنانچہ خود کو کوسا کہ اتنی سطحی بات کے لیے اتنی دیر تشویش میں مبتلارہا۔ اب جب سرکاری تعطیل کے روز (ہ26اکتوبر2019ء ) پیمرا کی جانب سے برقی میڈیا کو بھیجا گیا مراسلہ ( مراسلہ نمبر13(87)/OPS/2016)) بابت حافظ حمداللہ کی شہریت کی منسوخی اور افغان باشندہ قرار دینے کا منظرعام پر آیاتو معلوم ہوا کہ اس طرح کی احمقانہ سوچ تنہا کسی فرد کی نہیں بلکہ ملک کے بڑے معتبر ادار وں اور اس سے وابستہ افراد نے بھی اپنا رکھی ہے۔

 

پیمرا نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ٹاک شوز میں نہ بلایا جائے۔حالا نکہ اتنی بڑی زحمت کی ضرورت ہر گز نہ تھی ۔ یعنی پیمرا کی جانب سے محض زبانی کہہ دیا جاتا تو یقینا کوئی میڈیا ہائوس انہیں اپنے پروگرام میں نہ بلاتا ۔ اتنے چھوٹے کام کے لیے ایک سابق صوبائی وزیر اور سابق سینیٹر کی شہریت کی منسوخی کا کیا تک بنتا ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ عقل سے عاری اقدام حکومت اور اداروں کے لیے انتہائی سبکی کا باعث بنا ہے۔ پیمرا اور نادرا ادارے کا وقار اوراعتماد مجروح ہوا ہے۔ اور ان کا بھی کہ جنہوں نے کسی خوشامدی کے کہنے پر نادرا اور پیمرا کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔اور مترشح یہ ہوا کہ نادرا اور پیمرا دونوں ادارے زیر اثر ہیں۔ نادرا کے بارے میںیہ کہنا کے اس کا اسٹینڈرڈ عالمی سطح کا ہے، بھی لغو اور بکواس ہے۔ اگر ایسا نہیں تو نادرا حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس خاندان کی شہریت کی تفصیلات کیا ہیں ؟ اور محض کسی کے کہنے پر اس خاندان کی تضحیک کی گئی۔ یقینا انہیں ٹھیس پہنچی ہے ۔ عوام خاص کر پشتون عوا م و قبائل کے اندر ان تمام اداروں کے بارے میں خفگی اور عدم اعتماد کا احساس پیدا ہوا۔ کم از کم نادرا کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ حافظ حمداللہ کا خاندان پاک افغان سرحدی علاقے چمن کا قدیمی گھرانہ ہے۔

 

یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان کے والد قاری ولی محمد جو پورے چمن میں قاری والئی کے نام سے معروف تھے نے1962ء میں کوئٹہ کے قدیم دینی مدرسہ تجوید القرآن سے قرأت پڑھی اور 1968ء میں چمن میں مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی۔اور اس مدرسہ کی رجسٹریشن بھی اتنی ہی قدیم ہے ۔ نادرا کو معلوم ہے کہ قاری ولی محمد مرحوم چمن میں سرکاری اسکول میں معلم القرآن رہے۔ اور یہ امر بھی ان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ قاری ولی محمدکے اس بیٹے حافظ حمداللہ نے1968ء میں چمن میں آنکھ کھولی ۔چمن کے محلہ حاجی حسن کی وہ رہائشگاہ اب بھی موجود ہے۔جس میں خاندان کے دوسرے افراد رہائش رکھتے ہیں۔ خود حافظ حمداللہ 14جولائی1986ء کو جونیئر عربک ٹیچر بھرتی ہوئے ۔والد کی وفات کے بعد اپنے مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب رہے۔ گورنمنٹ مڈل ا سکول مال روڈ چمن میں2002ء تک پڑھاتے رہے۔ عملی سیاست میں آئے تو ملازمت چھوڑ دی ۔2002ء کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر چمن سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ برابر تین سال صوبے کے وزیر صحت رہے۔ پھر مارچ2012ء میں بلوچستان سے ایوان بالا کی جنرل نشست پر منتخب ہوئے جہاں ان کی رکنیت کی مدت مارچ2018ء میں ختم ہوئی۔جولائی2018ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی کی ٹکٹ پر کو ئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا ۔2005ء میں البتہ انہیں سپریم کورٹ نے بلوچستان کے رکن اور صوبائی وزیر کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا وہ اس طرح کہ حافظ حمداللہ نے 2002ء میں انتخاب لڑتے وقت سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد دو سال تک عملی سیاست نہ کرنے کے قانون پر عمل عملدرآمد نہ کیا۔حافظ حمداللہ کے والد نے اپنے مدرسے کی رجسٹریشن1967ء میں کرائی ۔1974ء میں شناختی کارڈ اور 1975ء میں پاسپورٹ بنایا ۔ اس پاسپورٹ پر ویزہ لگا کر 1976ء میں افغانستان گئے۔ شنید میں ہے کہ حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ2018ء میں ہی بلاک کیا جاچکا ہے۔ ان کے والد قاری ولی محمد مرحوم ستر کی دہائی میں چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ میں جمعیت علماء اسلام کے دوسرے کارکنان اور رہنمائوںکے ساتھ گرفتار ہوئے تھے۔ تین ماہ تک سینٹرل جیل مچھ میں قید کاٹی۔ رہی بات عالمی اسٹینڈر ڈ کے حامل نادرا کی تو اس کے کرتوت اور کارکردگی سب پر عیاں ہیں۔ ان کے تماشوں اور اعمال کی داستانیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔

 

29 اکتوبر و کواسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔نیزعدالت نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شہریت منسوخی پر دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔گویا نادرا اب عدالت کے سامنے جوابدہ ہے۔ اور اس کے پاس اختیارات کے غلط استعمال کا جواب نہ ہوگا۔ سیاسی اختلاف ، رقم بٹورنے اور دیگر وجوہ کو بنیاد بنا کر کسی کو آن میں غیر ملکی بنا ئے جانے کا یہ معیارقابل گرفت ہے۔ پشتونخوامیپ کے مجید خان اچکزئی کو ایسے ہی انتقام کا سامنا ہے ۔ المیہ یہ ہے ایوانوں میں بیٹھے ان لوگوں کی دستایزات جانج پڑتال کی کسی نے زحمت نہیں کی ہے ، جنہوں نے کوئٹہ کے لوکل سرٹیفکیٹ بنا رکھے ہیں ۔نہ ان پر توجہ دی ہے جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں شریک ہیں اور پاکستانی بنے پھرتے ہیں ۔ جبکہ ایسے کئی معززین، عدم شہریت کی ذلت سے دو چار ہیں۔ان پر افغانی کا لیبل چسپاں ہے جو پاکستان کے سود زیاں میں پوری طرح شریک ہیں۔ اس ملک کے قومی ایام میں دامے درمے شریک ہوتے ہیں ۔ تجارت اور کاروبار میں نمایاں حصہ ہے۔ جن کے سبیل سینکڑوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں ۔ فلاحی و رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے سرکاری اسکولوں کے اندر بلاکس اورلیبارٹریاں قائم کی ہیں۔ لیکن شہریت دینے کی بجائے مختلف طریقوں اور حربوں سے لو ٹے جا تے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اختلاف و انتقام کے ان طریقوں سے گریز کرنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر