وجود

... loading ...

وجود

ڈکیتی!!!... (شعیب واجد)

پیر 28 اکتوبر 2019 ڈکیتی!!!... (شعیب واجد)

<p style=”text-align: right;”>وہ ڈکیتی تھی۔۔سوفیصد ڈکیتی۔۔میرا مال لٹ چکا تھا۔میں بیٹھے بیٹھے اپنی پونجی کھو چکا تھا۔۔وہ ڈکیت میرا پیسہ لے گئے سات سمندر پار۔۔
آخری جملے نے ہوسکتا ہے آپ کو حیران کردیا ہو۔۔کہ ڈاکو مجھے لوٹ کرمیرا پیسہ سات سمندر پار کیسے لے گئے ؟ اور وہ ڈاکو تھے کون؟
وہ ڈاکو، عالمی ساہو کار بھی ہیں آور ان کے مقامی پتھارے دار بھی۔۔ان کا طریقہ واردات نہایت سادہ لیکن تیر بہ ہدف ہے ۔۔عالمی ساہوکاروں سے مراد سپر پاؤر ممالک یعنی سرمایہ دار طاقتیں اور ان کے مفادات کے نگران عالمی مالیاتی ادارے ہیں۔جبکہ ان کے پتھارے دار چھوٹے ممالک کے وہ سیاستدان ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو ہی واحد نظام معیشت سمجھ بیٹھے ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی حکومت نے یہ اعلان کیا ہو کہ ملک کے تمام سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین کی آدھی تنخواہیں وہ اپنے پاس رکھے گی؟سوچئے اگر ایسا ہو تو کیا ردعمل میں حکومت کا دھڑن تختہ نہ ہو جائے ؟اس ردعمل کی شدت کا اندازا خود حکمرانوں کو بھی ہے ۔اس لیے انھیں جب عوام کا پیسہ نکلوانا ہوتا ہے تو وہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی وہ ٹیکسز اور مہنگائی کا سہارا لیتے ہیں۔۔یعنی وار وہی ہوتا ہے ، لیکن اس پر ردعمل اتنا سخت نہیں آتا۔۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
مہنگائی اگر طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے ہو تو وہ ایک مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے ۔لیکن مہنگائی کو اگر خزانہ بھرنے کا ذریعہ بنالیا جائے تو وہ مستقل ہوجاتی ہے ۔۔ہوا کچھ یوں کہ 1988 سے پہلے پاکستان خاصی حد تک کنٹرولڈ اکانومی پر عمل پیرا تھا۔اشیا اور سروسز پر سبسڈیز پاکستان میں عام بات تھی جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ پاپ ہے ۔۔لیکن 1988کے بعد پاکستان میں آنے والے پالیسی سازوں نے ترقی کے حصول کیلئے ایک تباہ کن راستے کا انتخاب کرلیااور وہ راستا تھا عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے اور معیشت کو “آزاد “رستے پر ڈالنے کا۔یہ بیرونی امداد صرف سود کی ادائیگی کا سودا نہیں ہوتی۔بلکہ امداد دینے والوں کی کئی دیگرشرائط بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔جن کا تعلق آپ کی داخلی ،خارجہ اور معاشی خودمختاری سے ہوتا ہے ۔۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
1988 سے پاکستان میں نیا دور شروع ہو چکا تھا، مطلب یہ کہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام ،جسے کیپیٹل ازم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، کے بالکل نئے دور کا آغاز ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے روپیہ یعنی کرنسی کا کنٹرول ختم کیا گیا۔اور اسے ڈالر سے لنک کرکے آزاد کردیا گیا۔بس پھر کیا تھا حکومتی سہارے کے بغیرغریب ملک کی کرنسی پہلے ہی دن سے ڈی ویلیو ہونا شروع ہوگئی۔ڈالر کو بارہ تیرہ روپے کے برابر رکھنا اب ممکن نہ رہاتھا۔یوں ڈالر روزانہ مہنگا ہونے لگا۔یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستانیوں کی جیب سے پیسے نکلنا شروع ہوگئے ۔ڈکیتی کا آغاز ہوچکا تھا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے کے حصول کیلئے انکی وہ شرائط بھی مانی جانے لگیں۔جن کا تعلق ملک کی خود مختاری سے تھا۔مثال کے طور پرعالمی تجارت کیسے کرنی ہے ، درآمدات اور برآمدات پر کون سی ڈیوٹی لگانی ہے ،کون سی ختم کرنی ہے ۔کون سی اشیاء پرٹیکس لگانا ہے ۔کون سی یوٹیلٹی سروس مہنگی کرنی ہے ۔کون سا کارخانہ فوری پرائیویٹائزکرنا ہے ،کون سا بعد میں بیچنا ہے ۔یہ سب عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ڈکٹیٹ کرایا جانے لگا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
کتنی عجیب بات تھی کہ مشروط ترین بیرونی سرمایہ کاری اور قرضوں کے حصول کو حکمران ملک کی تباہی کے بجائے عالمی سطح پر ملک کی کامیابیاں قرار دینے لگے ۔جس سے ان کا وژن اور قائدانہ صلاحیتیں بھی آشکار ہونے لگیں۔اس دور میں بھی دو سیاسی جماعتیں باری باری حکومت میں آرہی تھیں۔دونوں جماعتوں کے سیاسی نام مختلف تھے ،لیکن معاشی نظریات میں کوئی فرق نہ تھا۔کسی جماعت کے پاس ایسی معاشی پالیسی وجود ہی نہ رکھتی تھی۔یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے ۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
ایک طرف قائدانہ صلاحیتوں کی کمی اور دوسری طرف بد عنوان رہنمائوں کی افراط۔ ملک کا نظام بگڑتا ہی بگڑتا چلا گیا۔عوام کی جیبوں سے پیسے تیزی سے نکل کر حکومت اور بدعنوان عناصر کی جیب میں بھی جانے لگے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ غربت میں مزید اضافہ۔ڈکیتی جاری تھی۔
دوستو !نوے کی دہائی گزری، پھر اس کے بعد ایک دہائی اور گزر گئی، اور اب تیسری دہائی بھی ختم ہونے کو ہے ۔ لیکن کچھ نہیں بدلا۔بدلا ہے تو انسان کا مزاج ۔کیونکہ مہنگائی اب آسمان کو چھو رہی ہے ۔اور لوگوں کے مزاج پر مستقبل کی فکرات کے اثرات نمایاں ہیں ۔
یہ ثمرات ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے ۔جس کے جال میں ہم جیسے ترقی پزیر ملک اکثر پھنس جاتے ہیں یہ جال ترقی کے خواب دکھا کر ملکوں کو پرندوں کی طرح جکڑ لیتا ہے ۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
جنگ عظیم دوم کے بعد گورے جب دنیا میں اپنے مقبوضہ علاقے خالی کررہے تھے تو انھیں ان علاقوں کے وسائل پر عیش کرنے کی عادت پڑچکی تھی۔ زمین تو وہ چھوڑ کر جارہے تھے ، لیکن وسائل اپنے قابو میں رکھنے کیلئے انھیں ایک سسٹم درکار تھا۔یہی وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے پوری دنیا کے وسائل اب تک ان کی دسترس میں رکھے ہوئے ہیں۔اسی نظام کی بقا کیلئے وہ آدھی صدی تک اس نظام کے مخالف سوویت یونین سے لڑتے رہے ۔اور بالآخر اس کے ٹکڑے کردیے ۔ جبکہ شمالی کوریا ، کیوبا اور شام جیسے چھوٹے ملک آج بھی ان کے نشانے پر ہیں، کیونکہ ان چھوٹے ملکوں نے آج بھی کنٹرولڈ اکانومی کا فلسفہ ترک نہیں کیا ہے ۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ غریب ممالک اپنے کم وسائل میں بھی اپنی اندرونی خودمختار اکانومی بنا چکے ہیں اور لوگوں کو عالمی پابندیوں کے باوجود روٹی، کپڑا اور حتی کہ مکان تک فراہم کررہے ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
دوستو!کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کے بُرے حالات میں سرمایہ دارانہ نظام کا بڑا ہاتھ ہے ، ساتھ ہی کرپشن سونے پر سہاگے کا کام کررہی ہے ۔سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا بھی کوئی اچھی نوید نہیں لارہا۔ہر آنے والی صبح لوگوں کو غریب سے غریب تر بنا رہی ہے ۔ ڈکیتی جاری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p>


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر