... loading ...
<p style=”text-align: right;”>وہ ڈکیتی تھی۔۔سوفیصد ڈکیتی۔۔میرا مال لٹ چکا تھا۔میں بیٹھے بیٹھے اپنی پونجی کھو چکا تھا۔۔وہ ڈکیت میرا پیسہ لے گئے سات سمندر پار۔۔
آخری جملے نے ہوسکتا ہے آپ کو حیران کردیا ہو۔۔کہ ڈاکو مجھے لوٹ کرمیرا پیسہ سات سمندر پار کیسے لے گئے ؟ اور وہ ڈاکو تھے کون؟
وہ ڈاکو، عالمی ساہو کار بھی ہیں آور ان کے مقامی پتھارے دار بھی۔۔ان کا طریقہ واردات نہایت سادہ لیکن تیر بہ ہدف ہے ۔۔عالمی ساہوکاروں سے مراد سپر پاؤر ممالک یعنی سرمایہ دار طاقتیں اور ان کے مفادات کے نگران عالمی مالیاتی ادارے ہیں۔جبکہ ان کے پتھارے دار چھوٹے ممالک کے وہ سیاستدان ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو ہی واحد نظام معیشت سمجھ بیٹھے ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی حکومت نے یہ اعلان کیا ہو کہ ملک کے تمام سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین کی آدھی تنخواہیں وہ اپنے پاس رکھے گی؟سوچئے اگر ایسا ہو تو کیا ردعمل میں حکومت کا دھڑن تختہ نہ ہو جائے ؟اس ردعمل کی شدت کا اندازا خود حکمرانوں کو بھی ہے ۔اس لیے انھیں جب عوام کا پیسہ نکلوانا ہوتا ہے تو وہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی وہ ٹیکسز اور مہنگائی کا سہارا لیتے ہیں۔۔یعنی وار وہی ہوتا ہے ، لیکن اس پر ردعمل اتنا سخت نہیں آتا۔۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
مہنگائی اگر طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے ہو تو وہ ایک مخصوص مدت کیلئے ہوتی ہے ۔لیکن مہنگائی کو اگر خزانہ بھرنے کا ذریعہ بنالیا جائے تو وہ مستقل ہوجاتی ہے ۔۔ہوا کچھ یوں کہ 1988 سے پہلے پاکستان خاصی حد تک کنٹرولڈ اکانومی پر عمل پیرا تھا۔اشیا اور سروسز پر سبسڈیز پاکستان میں عام بات تھی جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ پاپ ہے ۔۔لیکن 1988کے بعد پاکستان میں آنے والے پالیسی سازوں نے ترقی کے حصول کیلئے ایک تباہ کن راستے کا انتخاب کرلیااور وہ راستا تھا عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے اور معیشت کو “آزاد “رستے پر ڈالنے کا۔یہ بیرونی امداد صرف سود کی ادائیگی کا سودا نہیں ہوتی۔بلکہ امداد دینے والوں کی کئی دیگرشرائط بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔جن کا تعلق آپ کی داخلی ،خارجہ اور معاشی خودمختاری سے ہوتا ہے ۔۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
1988 سے پاکستان میں نیا دور شروع ہو چکا تھا، مطلب یہ کہ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام ،جسے کیپیٹل ازم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، کے بالکل نئے دور کا آغاز ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے روپیہ یعنی کرنسی کا کنٹرول ختم کیا گیا۔اور اسے ڈالر سے لنک کرکے آزاد کردیا گیا۔بس پھر کیا تھا حکومتی سہارے کے بغیرغریب ملک کی کرنسی پہلے ہی دن سے ڈی ویلیو ہونا شروع ہوگئی۔ڈالر کو بارہ تیرہ روپے کے برابر رکھنا اب ممکن نہ رہاتھا۔یوں ڈالر روزانہ مہنگا ہونے لگا۔یعنی دوسرے لفظوں میں پاکستانیوں کی جیب سے پیسے نکلنا شروع ہوگئے ۔ڈکیتی کا آغاز ہوچکا تھا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے کے حصول کیلئے انکی وہ شرائط بھی مانی جانے لگیں۔جن کا تعلق ملک کی خود مختاری سے تھا۔مثال کے طور پرعالمی تجارت کیسے کرنی ہے ، درآمدات اور برآمدات پر کون سی ڈیوٹی لگانی ہے ،کون سی ختم کرنی ہے ۔کون سی اشیاء پرٹیکس لگانا ہے ۔کون سی یوٹیلٹی سروس مہنگی کرنی ہے ۔کون سا کارخانہ فوری پرائیویٹائزکرنا ہے ،کون سا بعد میں بیچنا ہے ۔یہ سب عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ڈکٹیٹ کرایا جانے لگا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
کتنی عجیب بات تھی کہ مشروط ترین بیرونی سرمایہ کاری اور قرضوں کے حصول کو حکمران ملک کی تباہی کے بجائے عالمی سطح پر ملک کی کامیابیاں قرار دینے لگے ۔جس سے ان کا وژن اور قائدانہ صلاحیتیں بھی آشکار ہونے لگیں۔اس دور میں بھی دو سیاسی جماعتیں باری باری حکومت میں آرہی تھیں۔دونوں جماعتوں کے سیاسی نام مختلف تھے ،لیکن معاشی نظریات میں کوئی فرق نہ تھا۔کسی جماعت کے پاس ایسی معاشی پالیسی وجود ہی نہ رکھتی تھی۔یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے ۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
ایک طرف قائدانہ صلاحیتوں کی کمی اور دوسری طرف بد عنوان رہنمائوں کی افراط۔ ملک کا نظام بگڑتا ہی بگڑتا چلا گیا۔عوام کی جیبوں سے پیسے تیزی سے نکل کر حکومت اور بدعنوان عناصر کی جیب میں بھی جانے لگے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ غربت میں مزید اضافہ۔ڈکیتی جاری تھی۔
دوستو !نوے کی دہائی گزری، پھر اس کے بعد ایک دہائی اور گزر گئی، اور اب تیسری دہائی بھی ختم ہونے کو ہے ۔ لیکن کچھ نہیں بدلا۔بدلا ہے تو انسان کا مزاج ۔کیونکہ مہنگائی اب آسمان کو چھو رہی ہے ۔اور لوگوں کے مزاج پر مستقبل کی فکرات کے اثرات نمایاں ہیں ۔
یہ ثمرات ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے ۔جس کے جال میں ہم جیسے ترقی پزیر ملک اکثر پھنس جاتے ہیں یہ جال ترقی کے خواب دکھا کر ملکوں کو پرندوں کی طرح جکڑ لیتا ہے ۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
جنگ عظیم دوم کے بعد گورے جب دنیا میں اپنے مقبوضہ علاقے خالی کررہے تھے تو انھیں ان علاقوں کے وسائل پر عیش کرنے کی عادت پڑچکی تھی۔ زمین تو وہ چھوڑ کر جارہے تھے ، لیکن وسائل اپنے قابو میں رکھنے کیلئے انھیں ایک سسٹم درکار تھا۔یہی وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے پوری دنیا کے وسائل اب تک ان کی دسترس میں رکھے ہوئے ہیں۔اسی نظام کی بقا کیلئے وہ آدھی صدی تک اس نظام کے مخالف سوویت یونین سے لڑتے رہے ۔اور بالآخر اس کے ٹکڑے کردیے ۔ جبکہ شمالی کوریا ، کیوبا اور شام جیسے چھوٹے ملک آج بھی ان کے نشانے پر ہیں، کیونکہ ان چھوٹے ملکوں نے آج بھی کنٹرولڈ اکانومی کا فلسفہ ترک نہیں کیا ہے ۔اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ غریب ممالک اپنے کم وسائل میں بھی اپنی اندرونی خودمختار اکانومی بنا چکے ہیں اور لوگوں کو عالمی پابندیوں کے باوجود روٹی، کپڑا اور حتی کہ مکان تک فراہم کررہے ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>
دوستو!کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کے بُرے حالات میں سرمایہ دارانہ نظام کا بڑا ہاتھ ہے ، ساتھ ہی کرپشن سونے پر سہاگے کا کام کررہی ہے ۔سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا بھی کوئی اچھی نوید نہیں لارہا۔ہر آنے والی صبح لوگوں کو غریب سے غریب تر بنا رہی ہے ۔ ڈکیتی جاری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p>