... loading ...
دوستو،آپ کبھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ ہمارے کالموں کے عنوان اکثر ٹکڑوں میں کیوں ہوتے ہیں۔۔ جیسا کہ آج ہم نے کامیاب کی جگہ ’’کامی یاب‘‘ لکھا ہے۔۔ اس کی اصل وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ کراچی والوں کا یہ اسٹائل ہے کہ وہ الفاظ چبا کر بولتے ہیں۔۔جیسا کہ کراچی کو۔۔’’کران چی‘‘۔۔ پیپسی کو ’’ پے پسی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔ شاید یہ لاشعوری حرکت ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی روایتی لفظ کو جب کسی نئے اسٹائل میں لکھا ہوادیکھا جائے تو اس کی تفصیل جاننے والا کیڑا تجسس کا شکارہوجاتا ہے۔۔پھر انسان معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔جب تک کسی بھی کام میں ’’نیاپن‘‘ نہ ہو، وہ کام انسانی توجہ حاصل نہیں کرسکتا۔۔ اس کی سب سے بڑی مثال آپ نئے پاکستان سے لے سکتے ہیں۔۔ پرانے پاکستان کے باسی بھی اب نئے پاکستان میں ’’گزارہ‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔۔خیر ہمیں کیا، ہمارا کالم تو غیرسیاسی ہوتا ہے، اس لیے ہم تو آج آپ کو کامیاب مرد کے بارے میں کچھ اوٹ پٹانگ ٹپس دیں گے۔۔ تو چلتے ہیں اپنی روایتی چاٹ کی جانب۔۔
کچھ خواتین کو کچھ یاد رہے نہ رہے یہ ضرور یاد رہتا ہے کہ ہماری ایک پلیٹ اس کے ہاں گئی تھی اور ابھی تک واپس نہیں آئی۔۔لڑکے نے جب کہا کہ، میں تمہیں بہت لائیک کرتا ہوں تو لڑکی نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا، بھائی ساتھ میں شیئر بھی کیا کرو۔۔ہمارے پیارے دوست نے ایک شادی کے دوران اپنی ’’کزنز‘‘ کی محفل میں دراندازی کرتے ہوئے اچانک پوچھ لیا،کوئی محترمہ بتا سکتی ہے کہ گجریلا آلوؤں کا اچھا بنتا ہے یا ٹماٹروں کا؟پرانے زمانے میں فلم کی ہیروئن شرما شرما کر آدھا دوپٹہ کھا جاتی تھی۔۔دوپٹہ لینے کا قانون بنانے کی بجائے اگر میک اپ کے سامان پر پابندی لگا دی جائے تو دوپٹہ تو دوپٹہ خواتین ایک دوسرے سے بھی پردہ کرنے لگ جائیں گی ۔باباجی فرماندے نے۔۔اپنی بیوی کے خرچوں سے زیادہ کمانے والے کو کامیاب مرد کہتے ہیں۔۔اور ایسے مرد ڈھونڈنے والی کو کامیاب عورت۔۔
ایک لڑکی کو نامعلوم نمبر سے فون آیا، ہیلو۔۔لڑکی نے پوچھا، کون؟؟ آواز آئی، میری بات سنو۔۔لڑکی نے کہا، مجھے کچھ نہیں سننا، میں شادی شدہ ہوں، میرا شوہر بہت اچھا ،شریف اور نیک انسان ہے۔۔پھر آوا ز آئی، وہ شریف،اچھا اور نیک انسان ہمارے پاس ہے، میں سٹی تھانے سے بات کررہا ہوں، اپنے شوہر کو آکر لے جاؤ، گرلز کالج کے باہر ’’بونڈی‘‘ کرتا پکڑا گیا ہے۔۔یہ بات اپنی جگہ سوفیصد حقیقت ہے کہ لڑکے ایمان کے پکے ہوتے ہیں لڑکیاں جتنا بھی بھائی بھائی کرتی رہیں وہ ذرا نہیں ڈگمگاتے۔۔بیوی مرد کی طاقت ہوتی ہے باقی خواتین مرد کی کمزوری۔۔
کہتے ہیں،جو بیوی اپنے شوہر کی ساری غلطیاں معاف کر دیتی ہے وہ بیوی صرف ڈرامے کی آخری قسط میں پائی جاتی ہے۔اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو غلطی کرنے پر شوہر کو معاف کر دیتی ہے۔اگر بیوی سے کوئی غلطی ہو جائے تو غلطی ہمیشہ غلطی کی ہی ہوتی ہے۔شادی کے بعد ہمیں سمجھ آئی کہ ہیرو ہیروئن کے ملتے ہی فلم ختم کیوں کر دیتے ہیں۔سیانے کہتے ہیں،اگر ساری بددعائیں قبول ہوتیں،تو آج پاکستان میں نہ تو کوئی ساس زندہ ہوتی اور نہ ہی کوئی بہو۔۔اپنی بیوی اگر زیادہ سوالات کرے تو مردوں کو فوری غصہ آ جاتا ہے مگر کسی دوسرے کی بیوی پوچھتی رہے تو علم اور فضل کے دریا بہاتے رہتے ہیں۔۔شادی شدہ مرد ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اسے دودھ، دہی، سبزیوں اور پیمپرز کے ریٹ کا پتہ ہوتا ہے۔شکر ہے شوہر عام طور پر خوبصورت ہوتے ہیں ورنہ سوچیں اس مہنگائی میں دو لوگوں کا بیوٹی پارلر کا خرچا کتنا بھاری پڑتا۔یہ بات بھی اپنی جگہ سو فیصد حقیقت ہے کہ دکھ ، حالات اور بیوٹی پارلر انسان کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ہمارے پیارے دوست کو صرف ایک ہی شکایت ہے کہ۔۔ لوگ پتہ نہیں کیسے پرفیکٹ لائف گزار لیتے ہیں ہمارے تو ناشتے میں کبھی پراٹھا پہلے ختم ہو جاتا ہے اور کبھی انڈا۔۔پیارے دوست ہمیشہ ہمیں ایک ہی بات سمجھاتے آئے ہیں کہ ، اپنا کریکٹر ایسا رکھو کہ شادی والے دن تایا جی آپ سے کہیں بیٹا جی لیڈیز میں جا کر کھانا شروع کرواؤ۔۔
آپ نے شاید کبھی نوٹ نہ کیا ہو لیکن یہ سوفیصد حقیقت ہے کہ آپ کی اپنی زندگی میں چاہے جتنی مرضی ٹینشن چل رہی ہوں،لیکن اپنے دوست کی ٹینشن سْن کر ماہرِ نفسیات بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔ہمارے پیارے دوست بہت افسردہ لگ رہے تھے، وجہ پوچھی تو کہنے لگے ۔۔۔یار مہنگی چیز خریدنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔آج میرے کزن نے دس روپے کی مولی کھاکر میرے چھ ہزار روپے والے پرفیوم کا بیڑہ غرق کرڈالا۔۔ایک شخص ماہر نفسیات کے پاس گیا اور کہنے لگا، احساس کمتری کا شکار ہوں ، خود کو گھٹیا لگتا ہوں۔۔ماہرنفسیات نے دو گھنٹے تک مسلسل اس کی بات سنی اور اس دوران وہ نوٹس بھی لکھتا رہا، جب مریض کی بات ختم ہوئی تو ماہرنفسیات نے رائٹنگ پیڈ ایک جانب رکھا اور مریض کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔ بات یہ ہے کہ تمہیں احساس کمتری وغیرہ کچھ نہیں ہے، تم واقعی ایک گھٹیا انسان ہو۔۔۔ایک تلخ سچائی اور سنتے جائیں۔۔یورپی دوست کہنے لگا۔۔ہم صرف غیرملکی سیاحوں کی آمد سے سالانہ اربوں ڈالر کا ریونیو جنریٹ کر لیتے ہیں،تم لوگ سیاحت کو پروموٹ کیوں نہیں کرتے؟ پاکستانی دوست کہنے لگا۔۔ہم کھوتے کی قبر پہ ہرا کپڑا اور جھنڈا لگا کراپنے ہی لوگوں سے سالانہ اربوں روپے نکلوا لیتے ہیں،سیاحت گئی تیل لینے۔۔۔
اب کچھ حالات حاضرہ پر دوچار باتیں ہوجائیں ۔۔۔باباجی کو تو آپ جانتے ہی ہیں، گزشتہ رات ان کے ڈرائنگ روم میں چائے کی چسکیوں کے درمیان اچانک باباجی نے سوال پوچھ ہی لیا۔۔بولے۔۔کیا مولانا کا دماغ خراب ہوگیا ہے ،اکتوبر میں’’ مارچ ‘‘کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔کرکٹ جب تک کراچی میں رہی پاکستانی ٹیم خوب جیتی، لیکن ٹی ٹوئنٹی کے لیے جیسے ہی لاہور گئے تو بری طرح ہار گئے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا تھا کہ کھلاڑی بھوکے پیٹ کیسے کھیل سکتے تھے، ’’ڈڈو‘‘ کے خوف سے کسی نے وہاں کچھ کھایا ہی نہیں۔۔ویسے سچ پوچھئے تو موجیں تو لاہوریوں کی ہیں جہاں گھر آیا مہمان بھی خود کہہ دیتا ہے کہ ۔ ۔گوشت چھڈو دال شال پکا لو۔۔ باباجی کہہ رہے تھے کہ ۔۔جب پاکستان میچ ہارتا ہے تو دْکھ ہوتا ہے،اور جب زیادہ ہارتا ہے تو زیادہ دْکھ ہوتا ہے۔۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کے بعد سنا ہے کہ پولیس نے سری لنکا کے کھلاڑیوں کی سیکورٹی چھوڑ کر پاکستانی کھلاڑیوں کی سیکیورٹی سخت کر دی ۔۔۔بزرگ کہتے تھے ، تندرستی ہزارنعمت ہے لیکن نیب کے شکنجے میں آئے سیاست دان ثابت کررہے ہیں کہ بیماری لاکھ نعمت ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہونٹوں کی مسکراہٹ دل کی ترجمانی نہیں کر سکتی لیکن آنکھ کے آنسو دل کی ترجمانی ضرور ہوتے ہیں انسان چاہے کسی بھی نسل کا ہو کسی بھی رنگ کا ہو لیکن اْس کے آنسووں کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔