وجود

... loading ...

وجود

دنیا کے سامنے اتمام حجت کردی گئی!
(صحرا بہ صحرا..محمد انیس الرحمن)

پیر 07 اکتوبر 2019 دنیا کے سامنے اتمام حجت کردی گئی! <br>(صحرا بہ صحرا..محمد انیس الرحمن)

اقوام متحدہ کے چوہترویں اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریرکا قوم کو شدت سے انتظار تھا ،یہ انتظار اس لیے بھی ہونا تھا کہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اقوام متحدہ میں پہنچ کر کشمیریوں کا مقدمہ اس انداز میں پیش کروں گا کہ کشمیری اور پاکستانی قوم مایوس نہیں ہوں گے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ان کے اس بیان نے جہاں قوم کی توقعات کو بڑھا دیا تھا وہاں ملک میں بدقسمتی سے اپوزیشن کی جماعتیں طرح طرح کے الزامات حکومت پر لگا رہیں تھیں یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے۔

ہم یہاں حکومت کی کارکردگی کی زیادہ تعریف نہیں کررہے لیکن جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی تنہا شخصیت کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ اس وقت حکومت ون مین شو کے مصداق ہے کیونکہ عمران خان تو قوم کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں رائج نظام ہے جو چوروں کو فرار ہونے میں پوری پوری سہولت کاری کا کام کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت میں شامل خود ان کی جماعت کے ارکان اسی نظام سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور تاحال ہورہے ہیںاس لئے جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی ذات کا معاملہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ وہ قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں مخلص ہیں۔ یہی اخلاص اقوام متحدہ میں اس کی تقریر سے چھلکتا صاف محسوس ہوتا تھا۔ جس میں انہوں نے مجموعی طور پر چار نکات بیان کیے جس میں ملک میں پھیلی ہوئی کرپشن اور مغربی ممالک کا چوروں کی لوٹی رقم کو اپنے ملکوں کے مالیاتی اداروں میںتحفظ دینابیان کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک منی لانڈرنگ میں سہولت کار ہیںاور غریب ملکوں کے طبقہ اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت کوقانونی پیچیدگیوں کی آڑ میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے دنیا کو آگاہ کیا کہ اس سے جو دس ممالک سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اسلام کے حوالے سے مغرب کا اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا ہونا اور توہین رسالت کے حوالے سے مغرب کو آڑے ہاتھوں لیاآخر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور مودی کی دہشت گردی کے سامنے عالمی رائے عامہ کی خاموشی اور بے حسی بیان کیا گیا۔ بلا شبہ جہاں تک اس تقریر کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ میں کی جانے والی تاریخی تقریر کہا جاسکتا ہے جس میں تمام امت مسلمہ کی واضح نمائندگی موجود تھی۔ اس تقریرمیں انہوں نے اپنے مرکزی نکتہ نظر یعنی کشمیر کے حوالے سے واضح طور پر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اپنے دکانداری یا تجارتی مفادات کو کو ترجیح دی تو پھر دنیا میں کسی کا سودا نہیں بکنا کیونکہ دو جوہری صلاحیت کے حامل ملک آمنے سامنے ہوں گے۔پاکستان کے پاس اپنے سے سات گنا بڑے ملک سے جنگ کرنے کے سوا کوئی چارا باقی نہیں بچے گا اور اگر روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار چل گئے تو پھر معاملہ جنوبی ایشیا تک نہیں بلکہ یہاں کی حدود سے نکل کر مغرب تک دراز ہوگااسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر بیان کردیا کہ وہ یہ بات کہہ کر دنیا کو دھمکانے یا ڈرانے نہیں آئے بلکہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیںانہوں نے صاف طور پر بیان کردیا کہ اس مرحلے میں بڑی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسی کی قراردادوں کے تحت مودی کے دہشت گردانہ اقدام سے پہلے معاملات چل رہے تھیاور اقوام متحدہ کی ہی قرادادوں جس میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا گیا تھا کے تحت کشمیر ستر برس سے زائد عرصے سے حالت صبر میں تھے اب اگر مودی اور اس کی انتہاپسندانہ حکومت ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔ اس کے علاوہ عالمی برادری کے سامنے انہوں نے مودی اور اس کی مادر جماعت آر ایس ایس کی قلعی کھولتے ہوئے کہا کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے بھارت کے بانیان میں سے مہاتما گاندھی تک کو قتل کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سیکولرازم پر بھی یقین نہیں رکھتے بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور سیکھوں سمیت دیگر اقلیات کو دیس نکالا دے کر انتہا پسندانہ ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اس لئے جہاں تک دنیا میں اس عالمی ترین پلیٹ فارم یعنی اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر پاکستان اور مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے تقریر کرنا ہے تو اس میں شک نہیں کہ عمران خان سے پہلے کسی پاکستان رہنما نے اس مسئلے پر بات نہیں کی ہے۔ جبکہ بین الالقوامی سطح پر طیب اردگان کے بعد ان کا نمبر دوسرا بنتا ہے اس لئے طیب اردگان کے بعد اگر کسی نے امت کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے تو وہ وزیر اعظم عمران کان ہیں۔ اب اس تقریر کا عالمی رائے عامہ پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا پتا تو کچھ عرصے بعد ہی چل سکے گا لیکن جس قسم کی اقوام متحدہ کی تاریخ رہی ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک کبھی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں رہے۔ مسئلہ فلسطین کو دیکھا جائے تو اس عالمی فورم کی ناک تلے دنیا کی سب سے بڑی جغرافیائی خیانت کی گئی بلکہ اس ادارے کا وجود ہی اس خیانت کو قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ ایک ایسی قوم جس کا جغرافیائی اور نسلی تعلق ہی اس علاقے سے نہیں بنتا تھا اسے یہودیت کے نام پر یہاں لاکر بسا دیا گیا اور جو اس خطے کے اصل وارث یعنی فلسطینی مسلمان تھے انہیں یہاں سے بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی گئی یہ مسئلہ بھی ستر برسوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے لیکن ہزاروں بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود اس عالمی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، یہی حال مسئلہ کشمیر کا بھی ہے اس کے علاوہ جدید تاریخ میں مشرق وسطہ کے ممالک عراق، شام، لیبیا اور یمن کے ساتھ جو کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ افغانستان میں جو خونریزی امریکی جھنڈے تلے ہورہی ہے اس پر یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک زبان تک ہلانے کے روادار نہیں ۔ روہنگیا مسلمانوں پر قیام توڑ دی گئی کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اس لحاظ سے جہاں تک اتمام حجت کا تعلق ہے وہ وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی جامع انداز میں اس عالمی فورم پر کردی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں تک بھارت کی اس علاقائی جارحیت کا تعلق ہے اور جس دہشت گردی کو مودی عالمی سفارتی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا تھا اورمغرب کے ساتھ ساتھ اس نے بہت سے عرب مسلمان ملکوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھے ان سب کا تو بیڑا غرق عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر کر دیا ہے۔لیکن اب صورتحال کیا شکل اختیار کرے گی اس کے خدوخال چند دنوں میں واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بابنگ دھل اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر کہہ دیا ہے کہ اگر دنیا نے اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر اللہ مالک ہے پاکستان اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔

اطلاعات یہ ہیں کہ اسلام آباد میں مغربی سفارتکاروں کی سرگرمیان تیز ہوگئی ہیں اور وہ پاکستانی اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف احتجاجی تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ بطور شخص عالمی مغربی لیڈر اور ان کی آقا ڈیپ اسٹیٹ عمران خان کو پسند نہیں کرتے ۔ انہوں نے این آر او، میثاق جمہوریت اسی لیے کرایا تھا کہ دو لگی بھگی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کی گیند باری باری ایک دوسرے کی جانب اچھالتی رہیں اور ان دونوں جماعتوں کے لیڈر اپنی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار سے پاکستان کو اس قدر مالیاتی طور پر کمزور کردیں کہ پاکستان کے سامنے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے کھڑے رہنے کا حق چھین لیا جائے۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کا بھارتی اقدامات کے خلاف عزم دیکھتے ہوئے اب شاطر بنیا انہیں معاشی ترقی کا لالی پاپ دینا چاہتا ہے کشمیریوں کو رام کرنے کے لیے پچاس سے ستر ہزار نوکریوں کی پیشکش کی جارہی ہے کئی ارب روپے کی لاگت سے فلم سٹی ، ہوٹل اور دیگر سیاحت سے متعلق ادارے تشکیل دینے کا اعلان کیا جانے والا ہے اسی منصوبے کے پس منظر میں مودی نے بھارت کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ــکشمیر کو دوبارہ جنت نظیر بنائیں گے، ہر کشمیری کو گلے سے لگائیں گے ــ‘‘ گلے کاٹنے والا مودی اب کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کرکے انہیں دوبارہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتا ہے لیکن یہ اس کی بھول ہے کہ ستر برس سے زائد عرصے پر محیظ ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے کشمیری مسلمان اس کے اس دھوکے میں آجائیں گے۔اس بات کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی وجہ سے نہ صرف بھارت کی بنیادیں ہل گئی ہیں بلکہ وہ ایک دو عرب اور مغربی ممالک جو کشمیر میں سرمایہ کاری کے ذریعے دولت کمانے چاہتے تھے ان کے منصوبوں پر بھی پانی پھیر چکا ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی کشمیری مسلمانوں نے اس طرح کے اقتصادی منصوبوں کو ٹھکرا دیا تھا اور اب بھی وہ یہی کریں گے۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کے ختم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مودی سرکار کے ہاتھوں سے مزید نکل جائے گی اب یہی ہڈی مودی کے گلے میں پھنس چکی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جس نے بیان دیا تھا کہ اب بھارتی کشمیر نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے حوالے سے بات ہوگی اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ان شاء جلد کشمیری مسلمانوں کے امیدوں کے مطابق حل ہوگا لیکن بھارت کو اب اپنی دیگر ریاستوں کی خیر منانی چاہئے، جنوبی پھارت میں ناگا لینڈ اور آسام میں آزادی کی تحریکیں پہلے ہی زور پکڑ چکی ہے اب مزید اس کی صورتحال دیگر ریاستوں میں ابھر کر سامنے آنے والی ہے۔ اب نہ صرف کشمیری مسلمان بلکہ بھارت میں بسنے والے تیس کروڑ سے زائد مسلمان بھی پاکستان کی جانب دیکھنا شروع ہوگئے ہیں ۔ سکھ اور دیگر ذاتوں کے ہندو بھی اب برہمن اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے چھٹکارے کے لئے کشمیر جیسے حل کے لئے جدوجہد کرنا شروع ہوچکے ہیں۔ مودی اور آر ایس ایس کے دہشت گرد قیادت نے ہندووتا کی جوت جگا کر اصل میں بھارت کے ٹکڑے کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک خصوصا چین میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں معاشی ترقی کے لئے بھارتی ہندوتا کے نظریے کو دفن کرنا لازمی ہے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بھارت کے پانچ سے سات ٹکڑے کردیئے جائیںیہ خود بھارت کی نام نہاد ریاست کے باشندوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو مصنوعی اتحاد میں جکڑ کر وہاں انسانوں کا استحصال کیا جارہا ہے انتظامی امورکی کمزوری اس کا بڑا سبب ہے۔ مودی نے اپنے دہشتگردانہ اقدامات سے ثابت کردیا ہے کہ ’’اکھنڈ بھارتے‘‘ کا نظریہ درحقیقت برہمن اشرافیہ کی حکومتی سیادت کے لئے گھڑا گیا تھا حقیقت میں اس کا کوئی وجود ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا۔عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہوکر خطے میں آزادی کا جو نعرہ مستانہ لگایا ہے اس پر عمل پیرا ہوکر ہی نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت میں بسنے والے کروڑوں کی تعداد میں اقلتوں کو بھی آزاد کرایا جاسکے گا۔ دوسری جانب پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو بھی اب مکمل طور پر چونکنا رہنا پڑے گا۔۔۔ بھٹو اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق شہید کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر