... loading ...
وزیراعظم عمران خان امریکا میں ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ساری توقعات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے باندھ رکھی ہے۔
لیڈر شپ عمل کا موضوع ہے، گفتار کا نہیں۔ جسے موزوں طور پر ارادہ باندھنے والوں نے نبھایا، خواہش پالنے والوں نے نہیں۔ پہلی قسم کے لوگ فاعل ہوتے ہیں اور دوسرے مفعولین۔ نکسن کا فقرہ ہمیشہ یادداشت پر اُبھرتا رہتا ہے:لیڈر ارادہ کرتے ہیں، پیروکار خواہش کرتے ہیں‘‘۔ عمران خان خواہشات کے ہیجان کا ایک نہ ختم ہونے والا طوفانی جھکڑ بن کررہ گئے ہیں۔ جن کا عمل سے پرِ کاہ تعلق نہیں۔ زیادہ سے زیادہ الفاظ اور برائے نام عمل بھی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اقتدار میں رہ کر کوئی فرق پیدا نہیں کرسکتے ، تو اس سے چمٹے ہوئے کیوں رہتے ہیں؟یہ سیاسی قیادت کے ساتھ ایک عالمگیر مسئلہ ہے؟ انڈونیشیا کے پہلے صدر سوئیکارنو کو یاد کریں۔
وہ ہر وقت اپنی جسمانی ضروریات میں مگن رہتے تھے۔ عمران خان کیا رہتے ہوں گے؟ سرد جنگ کے زمانے میں1953 سے 1964 تک سوویت یونین کی قیادت کرنے والے نکیتا خروشچیف ایک کٹھور آدمی کی شہرت رکھتے تھے۔ حزب اختلاف کے احتساب کے حوالے سے عمران خان کیا رہے ہوں گے؟ اسی دنیا میںرہتے ہوئے ایک اور نام ماؤزے تنگ کا بھی یاد کرتے ہیں۔ ماؤ 1949 سے اپنی وفات 1976 تک طاقت کے مرکز کا مدار المہام رہے۔جدیدچین کا یہ بانی غیر معمولی صلاحیتوں کے باوجود اپنی طبیعت میں بے پناہ بے رحمی رکھتا تھا۔ جناب عمران خان کے اندر کیا پائی جاتی ہوگی؟مغربی ممالک میں خروشچیف اور ماؤ کو ایک دوسری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ دونوں ہی اپنی پالیسیوں کے عوام پر پڑنے والے اثرات پر توجہ نہ دیتے تھے۔ عمران خان کوئی پالیسی تو نہیں رکھتے۔
مگر وہ اپنے بے پناہ الفاظ خرچ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کے عوام پر پڑنے والے اثرات کی طرف سرے سے دھیان ہی نہیں دیتے۔ سوئیکارنو، خروشچیف اور ماؤ اپنے ذاتی مسائل میں گھرے ہوئے لوگ تھے۔ مگر اقتدار کے لیے اُن کے پاس ایک نقشۂ عمل تھا۔ ایک واضح مقصد بھی۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے اقدامات تاریخ پر نتائج مرتب کرتے ہیں۔ یہ عملی دنیا کے لوگ تھے۔ انہیں اپنے دوستوں ، دشمنوں کا واضح شعور تھا۔
اب یہ عمران خان ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی تنسیخ تک عمران خان کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ مودی ہندوتوا کا پرستار ہے اور آرایس ایس کا نظریہ رکھتا ہے۔ وہ مسلسل بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے رہے۔ مودی کی انتخابی فتح کا مطلب پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا موقع سمجھتے رہے۔ اب اچانک اُنہیں علم ہوا کہ مودی کٹر اور متعصّب ہندو انتہا پسند ہے۔اپنے آپ پر کسی القا کے لمحے کے بعد اب یہ بات وہ اتنی بار کہہ چکے ہیں کہ اس کی حساسیت کم ہونے لگی ہے۔ مگر اس کے باوجود وزیرا عظم عمران خان کی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ وہ اب بھی مودی سے مذاکرات کے ہی خواہش مند ہیں۔
گزشتہ روز عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے دو باتیں کیں۔ ایک بھارت مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ دوسرا امریکی صدر مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹوانے میں مدد کریں۔ نکتہ یہ ہے کہ عمران خان نے مودی کو سمجھنے سے پہلے اور بعدمفعولین کی طرح صرف مذاکرات کی خواہش کو ہی پالے رکھا۔ یہاں لیڈر کا ارادہ کہاں ہے؟پیروکاروں کی طرح خواہش رکھنے کے بعد قیادت قوم کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے اور عمران خان یہی کررہے ہیں۔ عمران خان نے امریکی صدر سے دوسری بات مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹوانے کی درخواست کی صورت میں کی۔ درخواستوں سے تو خود عمران خان پاکستان میں کوئی بات نہیں مانتے۔ چہ جائیکہ کٹر انتہاپسند ہندو لیڈر مودی مانے گا،پھر یہ ٹرمپ منوائے گا۔مگر اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ایک دن پہلے تو نہیں لگا۔ عمران خان جب مودی سے یہ عاجزانہ درخواست کررہے تھے، تو کشمیر پر کرفیو لگے پچاسواں دن گزررہا تھا۔
ان پچاس دنوں میںہماری قیادت ٹرمپ سے یہ معمولی مطالبہ ہی کرنے کے قابل ہوسکی۔ ان کی معاملات فہمی اور عملی کارگزاری کا شعور تو ملاحظہ کیجیے!افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسی شرمناک بے عملی ، کربناک کم فہمی اور خطرناک کجروی کے بعد انہیں یہ بھی پروا نہیں کہ یہ بیس کروڑ عوام کے سامنے پچاس روزسے کیا باتیں کرتے رہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کی ان پچاس دنوں کی باتیں سنیں تو ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا پر اتمام حجت کے بعد ہم بھارت سے فیصلہ کن جنگ کرنے جارہے ہیں۔ جبکہ پچاس روز کے بعد ٹرمپ سے ملاقات میں کشمیر دوسرا موضوع بن گیا اور پہلا موضوع افغانستان اور طالبان بن کر رہ گیا۔پاکستان کی شرمناک تاریخ مدنظر رہے تو یہ بدگمانی غلط نہیں کہ اگلے پچاس دنوں میں کشمیر ایسی کسی ملاقات کے ایجنڈے پر بھی نہیںہوگا۔ بھارت اسی کا فائدہ اُٹھا رہا ہے ۔ وہ وقت خوامخواہ نہیں گزاررہا۔ یہاں کے بقراطوں کی بات چھوڑ دیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بغلیں بجانے لگتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ارشاد کیا کہ وزیراعظم عمران خان امریکا میں ٹرمپ کو بھارتی مظالم سے آگاہ کرنے آئے ہیں؟ سادہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی صدر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے بے خبر تھے؟کیا دنیا اِن غافلوں کی طرح غفلت کی کَل سے ہی چلتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم کو اپنا دوست کہتے ہیں۔ گجرات کے اس قصاب کی گردن پر تین ہزار مسلمانوں کا خون ہے۔ اور ٹرمپ کے امریکا میں اس کے داخلے پر بھی پابندی تھی۔ پھر وہ گجرات کی وزارت اعلیٰ سے بھارتی وزیراعظم کے منصب تک جا پہنچا۔ اور امریکا میں دخول کی مودی پر عائد پابندی کیسے ختم ہوئی کسی کو پتہ تک نہیں چلا۔ ابھی چند روز قبل امریکا کی ایک عدالت نے مودی کو طلب کرلیا تھا۔کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟شاہ محمود قریشی اور ان کی حکومت کو ایسی باتوں سے ضرور فرق پڑتا ہوگا، امریکا اور دنیا کو نہیں۔ یہ دنیا فرق پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ طاقت کی بنیاد پر اپنی دنیا تشکیل کرنے والے ہی جدید دنیا میں خوش آمدید ، ویلکم اور اہلاًوسہلاً، مرحبامرحباسنتے ہیں۔ عرب امارات میں کبھی بُت نہیں تھا، جہاں مودی نے بُت خانہ یعنی مندر کھلوادیا۔ افسوس پاکستان پر سریر آرائے اقتدار یہ ٹولہ نہیں جانتا کہ دنیا کیسے چلتی ہے؟ٹرمپ اور اس کا امریکا تو بہت دور کی بات ہے، ہم تو سعودی عرب اور عرب امارات پر بھی بھارت کے خلاف کوئی اثر ڈالنے کے قابل نہیں رہے۔
پاکستان ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں اب تک وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ میں 27 ؍ستمبر کو ہونے والے خطاب کے حوالے سے ایک امید پیدا کی گئی ہے۔ یہاں سے کچھ برآمد ہونے کی امید ، دراصل امید کے خلا ف امید ہوگی۔ یہ خطاب بھی عمران خان کے دوسرے خطبات کی طرح نہایت ولولہ انگیز ہوگا۔ مگر اس سے کسی عملی راہ کی امید رکھنا کارِ فضول ہی ہوگا۔احمقوں کاجو ٹولہ ہم پر حکمران ہے ان کی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ اب شاہ محمود قریشی ٹرمپ سے ملاقات کے بعد یہ فرما رہے کہ ٹرمپ سے ایک اور ملاقات کی امید ہے ۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ ٹرمپ سے ایک اور ملاقات کے بعد مزید سوملاقاتوں کابھی کوئی عملی مطلب تو ہونا چاہئے۔قوم کو کن فضولیات اور گورکھ دھندوں میں اُلجھا کررکھا گیاہے۔ درحقیقت ٹرمپ سے ایک اور ملاقات بھی ہو جائے اور وزیراعظم عمران خان27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میںگرج برس بھی لیں، تو کیا ہوگا۔ اصل بات اس سب سے پہلے امریکی صد رٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ہیوسٹن ریلی میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ یہ خطاب ایک الگ موضوع ہے۔ اس خطاب کے بعد امریکا سے کوئی امید رکھنا دراصل اپنی زندگی سے دستبردار ہونے کا اعلان ِ رحلت ہے۔ اس موضوع کو اگلی بار کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں اصل سوال موجودہ حکومت کی کج فہمی کا ہے۔ جو زیادہ سے زیادہ گفتار میں عمل کی معمولی مقدار بھی ملانے کی اہل نہیں۔ ان کے متعلق آخری بات عمل کے سوال پر ہی ختم ہوگی۔ علامہ اقبالؒ کا سوال ہی اس حکومت کے خلاف ایک مقدمہ بن چکا ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تُو عرصئہ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔