... loading ...
انتہائی شرم اور افسوس کی بات ہے، کراچی آج کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، نہ صرف کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے بلکہ سڑکوں اور گلیوں کی تباہی اور بربادی کی المناک تصویر بھی پیش کررہا ہے۔ اوپر سے ستم یہ کہ شہر کا سیوریج نظام بھی مکمل طور پر برباد ہوچکا ہے۔مزید یہ کہ سرکاری اداروں کا نظام بھی برباد ہوچکا ہے اورکرپشن اور بدانتطامی انتہا کو چھو رہی ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ کراچی کی حالت سدھارنے پر صرف پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست کی جارہی ہے۔سندھ حکومت نے تو پچھلے گیارہ سالوں میں صرف کراچی پر اپنا قبضہ مضبوط بنانے کے سوا کوئی اقدام ہی نہیں کیا، نتیجہ شہری اداروں کی بربادی اور کرپشن کی انتہا کی شکل میں سامنے آیا۔
سندھ حکومت کے علاوہ اس معاملے میں ایک فریق ایم کیوایم بھی ہے۔جنہیں ایک زمانے میں صرف دھونس دھمکی اور دہشت گردی کی سیاست سیکام نکالنا آتا تھا، لیکن انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ اور بنیادوں کو کبھی مضبوط نہیں کیا، چنانچہ جیسے ہی ان کا دہشت گرد اسٹرکچر توڑا گیا،اس تنظیم کی تمام سیاست ہی دھڑام سے زمین پر آرہی۔باوجود اس کے کراچی اور حیدرآباد کی بلدیات میں لولی لنگڑی حکومتیں ہونے کے باوجود یہ ان شہروں کے لیے تھوڑا بہت کام کرسکتے تھے مگر نہیں کیا،مانا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے شہری سندھ کو فندز دینے میں بے حسی سے کام لیا جاتا ہے اور بلدیات کے اختیارات پر بھی قبضہ ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی بلدیاتی حکومتوں کی بھی اپنی تھوڑی بہت کام کی نیت اورسنجیدگی نظر نہیں آتی۔ میئر کراچی سمیت بلدیاتی حکومتوں کے دیگر عہدیدار بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔
ایسے میں کراچی کی سیاست میں کودی پی ٹی آئی۔ اور چلائی ایک نام نہاد صفائی کی مہم۔ جس نے کراچی کے زخموں پر صرف نمک ہی چھڑکا۔کراچی والوں نے پی ٹی آئی کو بڑی امیدوں سے ووٹ دیئے تھے، لیکن وفاقی حکومت نے کراچی کو کوئی خصوصی اہمیت نہیں دی۔کراچی کے شہری دیکھتے ہی رہ گئے کہ وفاق، صوبائی حکومت پر اپنا کوئی اثرو رسوخ استعمال کرے گا کہ سب سے بڑے شہر کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک نہ کرے، لیکن وفاق نے سندھ پر ایسا کوئی دباؤ نہ ڈالا۔سندھ میں پیپلز پارٹی کو، حکومت کرتے ہوئے گیارہ سال ہوچکے ہیں، اور ان گیارہ سالوں کی داستان کرپشن، اقربا پروری، نااہلی اور بدانتظامی سے بھری پڑی ہے، ایسے میں عوام وفاقی حکومت سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا ایسی حکومت کومحض اس لیے کام کرنے دیا جاسکتا ہے کہ وہ ووٹ لیکر آئی ہے؟سیاست کو لوٹ مار کے لیے استعمال کرنے کی اجازت کب تک دی جا ئے گی۔ عوام کے مال پر ڈاکا مارنے کے لیے کیا گیارہ سال بھی کم ہوتے ہیں جو انہیں مزید موقع دیا جارہا ہے؟سب کچھ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے،یہ لوگ تو سندھ میں اپنے ان علاقوں میں بھی کام نہیں کرتے، جہاں سے یہ ووٹ لے کرآتے ہیں، کراچی سے تو انہیں ووٹ ہی نہیں ملتے تو پھر سمجھ لیں کہ یہاں کیا ہونا ہے۔
سندھ کے کرپشن کے بڑے کردار آج جیل میں ہیں، لیکن صوبے میں موجود ان کے ساتھی بدستور ہاتھ دکھانے میں مصروف ہیں۔دوہزار آٹھ میں جب پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت ملی تو اس کی بدترین کارکردگی نے اسے اس کا یہ آخری موقع بنادیا، اوراگلے الیکشنوں میں پیپلز پارٹی کا پورے ملک سے صفایا ہوگیا۔یہی نہیں گلگت بلستان اور کشمیر کے لوگوں نے بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد کیا تھا، لیکن وہاں بھی تاریخی بدانتظامی اور کرپشن نے اگلی باری میں پیپلز پارٹی کا وہاں سے بھی مکمل صفایا کرادیا۔
بلاول جب سیاست میں آیا تو لوگوں کو امید تھی کہ شاید صاف ستھری اور کرپشن فری سیاست کرے گا، لیکن افسوس آج یہ پڑھا لکھا خون بھی والد اور ساتھیوں کی کرپشن کو بچانے میں لگا ہے۔بلاول بھٹو کے خیالات کا جائزہ لیں تو گزشتہ سات سالوں میں اس میں کرپشن کے خلاف کوئی عزم نظر نہیں آئے گا، نہ ہی انہوں نے کرپشن کرنے والے لوگوں کو خود سے دور کرنا مناسب سمجھا، شاید وہ بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھتے۔یہی سندھ کی بڑی بدنصیی ہے۔۔
پچھلے سات سال سے سیاست میں موجود بلاول کے کریڈٹ پر کوئی ایک کام یا کوئی ایک کارنامہ نہیں ہے جسے وہ فخر سے قوم کے سامنے پیش کرسکیں۔ایسے میں ملک کے دیگر علاقوں میں ان کی سیاست کا اختتام ہی سمجھا جائے، سندھ میں وہ بدستور قوم پرست رہنما کے طور پر کچھ عرصہ مزید باقی رہ سکتے ہیں۔گڈ لک سندھ۔سندھ کی بربادی کی بات کے بعد وفاق کا رخ کرتے ہیں، کپتان کی قیادت میں ملک ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے، جہاں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ جہاں روزگار کے موقع تقریباً بند ہوچکے ہیں۔جہاں بیرونی سرمایہ کاری کا کوئی نام و نشان نہیں بچا۔ملک چلانے کے لیے ہر ماہ کوئی قدم ایسا اٹھایا جارہا ہے کہ عوام کی جیبوں سے رقوم نکلوا لی جاتی ہیں، اور وقتی طور پر ملک کی گاڑی کھینچ لی جتی ہے۔
عمران خان ملک کے ایک پاپولر رہنما ہیں، لیکن انہیں اس خواب سے باہر آنا ہوگا کہ حکومت کے ہر ظلم اور فضولیات کو عوام خوشی خوشی برداشت کررہے ہوں گے اور درگزر کررہے ہوں گے۔ایسا ہر گز نہیں ہے جناب۔ مانا کہ آپ بڑی کرپشن کے خلاف ہیں اور آپ کے دور میں کسی کو بڑا ہاتھ مارنے کا موقع مشکل سے ہی مل رہا ہوگا، لیکن عوام کام مانگتے ہیں۔جیسا کام میاں نواز شریف کے دور میں ہوتا نظر ا?تا تھا، یا جس طرح مشرف دور میں کام ہوا۔ ان ادوار میں بھی ملک بحیثیت مجموعی ایک غریب ملک ہی تھا، لیکن کام ہوتے ہوئے نظر آتے تھے، نواز شریف فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کے ان کے دور میں سڑکوں، پلوں، موٹر ویز، میڑو بسوں، اورنج ٹرین اور بجلی کے کارخانے لگے، لاکھوں لوگوں کو روزگار ملا۔بچوں کو لیپ ٹاپ ملے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی، اور بھی درجنوں دیگر معاملات میں بہتری دیکھی گئی۔
اسی طرح پرویزمشرف دورمیں بھی ملک بھر میں ترقی کی لہر دیکھی گئی، مقامی حکومتوں کے نظام کا تجربہ کامیاب رہا۔مقامی سطح پر ترقیاتی کام ہوئے، بڑے منصوبے بنے، کوسٹل ہائی وے،پنڈی پشاور موٹر وے، میرانی ڈیم سمیت کئی ڈیمز، کاروں اور موٹر سائیکلوں کے نئے کارخانے، دو نئی آئل ریفائنریز،شہروں اور ہائی ویز پر پلوں اور انڈرپاسز کا جال، اور انٹرنیٹ اور میڈیا کی ترقی اس دور کے چند کارناموں کی صورت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کپتان بتائیں کہ وہ ایسی کون سی مثالیں عوام کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔عوام جواب کے منتظر ہیں۔