... loading ...
سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں دوریوں کی ایک بڑی وجہ کوٹہ سسٹم ہے،ہمیشہ سے سندھ میں کوٹہ سسٹم کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، کراچی میں ایم کیو ایم کے بڑھنے کی وجہ کوٹہ سسٹم اور اس کی وجہ سے ہونے والی زیادتیاں ہیں،کوٹہ سسٹم سپورٹ کی آڑ میں نااہلی کو پروموٹ کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی کے بہت سے سرکاری اداروں میں سندھی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، سندھ کے ہر محکمے میں میرٹ کے بجائے نسلی بنیادوں پر نوکریاں دینا ایک حقیقت ہے۔بظاہر سندھ میں کوٹہ سسٹم کا قانون 2013ء میں ختم ہوچکا ہے۔لیکن اس کے باوجود سندھ میں کوٹہ سسٹم کا غیر اعلانیہ نفاذ جاری و ساری ہے، شہر میں رہنے والا جاگیردار بھی اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو دیہی ڈومیسائل پر نوکریاں دلواتا ہے۔کوٹہ سسٹم غیراخلاقی، غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے، کوٹہ سسٹم نے سندھ میں کوئی مسئلہ تو حل نہیں کیا لیکن بہت سے مسائل کو جنم ضرور دیا ہے۔کوٹہ سسٹم ہمارے ملک میں روشناس کروانے والوں میں دو نام لئے جاتے ہیں۔ اولین لیاقت علی خانؒ۔جب وہ 1948 میں وزیرِ اعظم تھے اور دوسرا نام ذوالفقار علی بھٹوکا جنہوں نے 1972 میں صوبہ سندھ میں اس کو 10 سال کی مدت کے لئے نافذ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ قوم پرست رہنما تھے اور تعلیمی سہولتوں سے محروم اندرون سندھ کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے لیے انہوں نے دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا جسے اُس وقت کے معروضی حالات کے عین مطابق کہا جاسکتاہے۔ اِن دونوں کے درمیان ایک تیسرا نام، 1970 میں مارشل لاء کے دور کے رخمان گل صاحب کا بھی ہے، جنہوں نے شہری اوردیہی کوٹے کا نفاذ کیا۔جِس میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی 40% نمائندگی اور باقی صوبے کی60%مقرر ہوئی۔ آگے چل کر اِس کو 1973 میں آ ئینی تحفظ بھی حاصل ہو گیا۔آج اس بات کو 46 سال ہونے کو آئے لیکن یہ اب بھی نافذ ہے۔
کوٹے سسٹم کے ضمن میں جو بات سندھ کو دوسرے صوبوں سے ممتاز کرتی ہے وہ کوٹے کی یہ ہی شہری اور دیہی تقسیم ہے۔کوٹا سسٹم کے معماروں کے ذہن میں یہ بات لازماََ رہی ہو گی کہ جب کوٹے کے مقاصد حاصل ہو جائیں تو اِس کو ختم کر دیا جائے گا۔لیکن بد قسمتی سے نفاذِ اُردو کی طرح حکومتِ پاکستان کے مانگے ہوئے 6 ماہ کی طرح یہ 10 سال بھی شیطان کی آنت بن گئے۔ حالانکہ تاریخی طور پر کوٹا سسٹم کوئی بہت نئی بات نہیں۔قائد،اعظم ؒ کے مشہورِ زمانہ 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی بات کی گئی تھی، اسی کی بنیاد پر انگریز نے 1926 میں مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کا 25%کا کوٹہ جاری کیا جو اُس وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی بڑی کامیابی تھی۔کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں محض 7%افراد اہلیت کی بنیاد پر لئے جاتے ہیں۔ باقی ”کوٹہ سسٹم“ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔جب انتہائی اہمیت کی حامِل سرکاری نوکریوں پر تقرری کی کسوٹی محض ڈومیسائل بنا دیا جائے تو پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کہاں جائیں گے؟ذرا یہ دیکھئے کہ مقابلے کے امتحان میں کہیں کم نمبر لینے والا، اپنے سے زیادہ نمبر لینے والوں کو ایک طرف کرتے ہوئے منتخب کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بے انصافی نہیں؟ چلیں کچھ عرصہ کسی مصلحت یا صوبہ کے مفاد کی خاطر یہ کڑوے گھونٹ پی بھی لئے جائیں تو بھی آخر کب تک؟ پاکستان کسٹمز، پولیس، چھوٹے بڑے شہروں کی انتظامیہ، انکم ٹیکس اور دیگر مالیاتی اداروں میں ان کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔ کوٹہ سسٹم کو وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1973 میں کوٹہ سسٹم کو جو آئنیی تحفظ فراہم کیا گیا تھا وہ خود اِسی آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف و رزی ہے۔ کوٹہ سسٹم میں بھی شروع میں کوئی قواعد و ضوابط رہے ہوں گے کہ تحریری امتحانات میں کم از کم اتنے نمبر حاصل کرنے والے سرکاری ملازمت کے اہل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اِس سے کئی ایک سیٹیں خالی رہیں کیوں کہ کوٹے میں آنے والے اُس کم از کم اہلیت یا قابلیت پر پورا نہیں اترتے تھے۔تب کم نمبر والے، اُس استبدادی قابلیت سے مبرا قرار دے دیے گئے۔اب جب آپ بہت ذمہ داری کی جگہ پر ایک نا اہل شخص کو بٹھا دیں گے تو اول تو وہ خود احساسِ کمتری کا شکار ہو گا دوم اپنے ماتحتوں کے زیرِ اثر ہو گا۔یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوا کرتا ہے، رشوت بد عنوانی خدا داد نہیں بلکہ اسی موذی ”کوٹہ سسٹم“ کی ناجائز اولاد ہے۔
وفاقی اسامیوں میں دیہی سندھ کا کوٹہ11.4فی صداور شہری سندھ کا حصہ محض 7.6فی صد ہے۔سندھ کے علاوہ باقی کسی صوبہ میں دیہی اور شہری آبادی کی کوٹہ کے نظام میں تخصیص نہیں ہے۔ اس نظام میں شہری سندھ کے لیے تین شہر شامل ہیں: کراچی، حیدرآباد اور سکھر۔ان ہی شہروں میں اردو بولنے والے سندھیوں کی اکثریت ہے۔کوٹہ نظام اور صنعتوں کوقومیائے جانے سے خصوصاً اردو بولنے والے تعلیم یافتہ اور تجارت اور صنعت سے وابستہ افراد کومعاشی اور سماجی طور پرنقصان پہنچا۔ نتیجہ کے طور پرسندھ میں آج ہم بڑے پیمانے پرکرپشن،اقرباپروری، نااہلی اور میرٹ کا قتلِ عام دیکھتے ہیں۔چونکہ سندھ میں کرپشن زیادہ ہے،اس لیے نہ صرف اردو بولنے والے سندھی لوگوں کو متناسب نمائندگی نہیں ملتی، بلکہ وہ رشوت، نااہلی اور اقرباپروری سے دوہرے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔UNDPکی حالیہ رپورٹ کے مطابق کثیرالجہتی غربت(Multidimensional Poverty)مجموعی طور پر سندھ اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں یکساں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے باقی صوبوں کے دیہی علاقے جس کثیرالجہتی غر بت کا شکارہیں، سندھ مجموعی طور پراسی سطح کی غربت کا شکار ہے۔ کوٹہ سسٹم کے باوجود دیہی سندھ کی پسماندگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ جب نظام اور حکمتِ عملی سیاسی مفادات کے لیے بنائی جاتی ہیں توان کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ UNDPکی حالیہ رپورٹ میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شہری سندھ دیگر صوبوں کے شہری علاقوں کی نسبت زیادہ کثیرالجہتی غربت کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے شہری علاقوں کے علاوہ شہری سندھ میں کثیرالجہتی غربت پنجاب، خیبرپختونخواہ، گلگت بلتستان اور آ زاد کشمیر کے شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔وفاقی کوٹہ میں بلوچستان کا حصہ چھ فی صد اور شہری سندھ کا محض7.6 فی صد ہے۔ اگر میرٹ پر اسامیوں کو پر کیا جائے تو کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں کا تناسب یقینی طور پر زیادہ ہوگا۔ مگر محض آبادی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو شہری سندھ کاوفاقی کوٹہ موجودہ تناسب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق شہری سندھ کا ڈومیسائل لینا نہایت آسان ہے۔ کراچی اور حیدرآ باد کے حکومتی اداروں میں جانے کا مشاہدہ کیجیے توشاذونادر ہی اردو بولنے والے سندھی نظر آئیں گے۔نجی شعبہ کے بڑھنے سے کسی حد تک اردو بولنے والے سندھیوں کی معاشی بقا ممکن ہوپائی۔ مگر اس کے باوجود انہیں ہر جائز کام کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ مقامی حکومتوں کانظام کراچی جیسے بڑے شہروں کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ جماعتِ اسلامی کے نعمت اللہ خان صاحب کادور مثالی سمجھاجاتا ہے۔ان کے دورِنظامت میں کئی ترقی یافتہ کام ہوئے۔اس کے بعد مصطفی کمال صاحب کے دورِنظامت میں بھی شہر میں کئی ترقیاتی کام تکمیل پائے۔انہیں فارن پالیسی کے جریدے نے دنیا کا بہترین میئر بھی شمار کیا۔ ان دونوں دورِنظامت میں شہرِکراچی پرامن بھی رہا۔
موجودہ حالات میں کم ازکم سندھ کے اندر میرٹ کا امکان نظر نہیں آتا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے گیارہ ارکان میں شہری سندھ سے کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ ہی وہ خوفناک صورتحال جسے ایک بار ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو بھی تسلیم کرنا پڑاکہ کوٹہ نظام میرٹ کا قتل عام ہے اور اسے فی الفور ختم ہوجانا چاہیے۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں کوئی ایک بھی سرکاری یونیورسٹی پچھلے 45برسوں میں قائم نہیں ہوئی باوجود یہ کہ شہری سندھ کی آبادی تین کروڑتک پہنچ گئی ہے۔ حیدرآباد شہر جس کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے وہاں کوئی ایک بھی سرکاری یانجی یونیورسٹی نہیں۔کراچی میں دولاکھ افراد ہرسال رہائش کے لیے آتے ہیں۔کراچی کا ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال دس ارب رکھاگیاہے۔چند بہتر رہائش کے علاقوں میں اس قیمت میں سوپلاٹس بھی شاید مشکل سے خریدے جاسکیں۔کراچی شہر کی آبادی اب ڈھائی کروڑ کو پہنچنے والی ہے۔کراچی شہر کا ملکی آمدنی میں 25 فی صد اور سندھ کی مجموعی آمدنی میں 80 فی صدحصّہ ہے۔دو تہائی سے زیادہ ملکی محصولات کراچی شہر سے وابستہ ہیں۔اس کے علاوہ کوٹہ سسٹم نے سندھ کے دیہی علاقوں کو مزید مشکلات کا شکار کردیا ہے۔ لوگ کوٹہ نظام سے مستفید ہونے کے باوجود کام شہر میں کرناپسند کرتے ہیں۔ ASERادارے کی رپورٹ کے مطابق کئی ہزار اسکول دیہی سندھ میں محض کاغذ پر ہیں۔ان اساتذہ میں اکثر کا تعلق دیہی سندھ سے ہے۔ایسے اساتذہ ہزاروں کی تعداد میں سندھ حکومت سے تنخواہ لینے کے باوجود کام نہیں کرتے جبکہ نقل کا رجحان بھی پاکستان بھر میں سب سے زیادہ سندھ میں ہے۔ایک انگریزی اخبار کے مطابق گذشتہ سال لاڑکانہ میں سب سے زیادہ نقل کے175واقعات سامنے آئے۔ 68طلباء دوسروں کی جگہ امتحان دیتے ہوئے پائے گئے۔چالیس سال سے زائد عرصہ میں دو نسلیں گزرچکی ہیں اور صوبہ ابھی بھی مجموعی طور پر پسماندہ اور زیادہ تر کرپشن کا شکار ہے۔ کراچی کی عوام کی طرف سے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا اعزاز دیئے جانے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کی نئی وفاقی حکومت بھی ان کی پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم سے جان چھڑانے میں آگے بڑھ کر مدد کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سندھ کے ”کوٹہ سسٹم“ کو ختم کرنے میں اپنا سنجیدہ کردار اداکرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ”کوٹہ سسٹم“کے بہیمانہ اعدادو شمار کو غور سے پرکھے اور صوبے کے مجموعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلے کرے ورنہ سندھ باقی ملک سے ترقی کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جائے گا۔”کوٹہ سسٹم“ کو سمجھنے کے لیے چند سوالات پر غور و فکر کرنا از حد ضروری ہے، مثلاً یہ کہ”یہ شہری اور دیہی کا تقسیمی کوٹہ صرف سندھ میں ہی کیوں ہے؟ یہ کبھی ختم بھی ہو گا یا پھر اسے جاری ہی رہنا ہے؟ اگر اِس کے نفاذ سے کچھ بہتری کی توقع تھی تو کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے؟ پسماندہ علاقوں سے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فائز ہونے والوں نے کیا اپنے علاقوں سے پسماندگی کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی؟کیا اِن46 سالوں میں کوٹے سسٹم نے دیہی علاقے میں علمی قابلیت بڑھائی تا کہ وہاں کا نوجوان، شہری علاقوں کے نوجوان سے مطابقت کر سکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اِس پالیسی سے صرف اشرافیہ کو ہی فائدہ پہنچانا مقصود تھا جِن کے پاس پس ماندہ دیہی علاقوں کے ڈومیسائل تھے مگر بڑے شہروں میں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوا کر اِسی کوٹے میں اچھی سرکاری ملازمتیں دلوائی گئیں؟ اِس فہرست میں واقعی ضرورت مند، شاید ڈھونڈے سے بھی نہ مِلے۔ جب نہایت اہمیت کی حامل سرکاری ملازمتیں اہلیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہ دی جائیں تو کیا ہمارا ملک اقتصادی طور پر ترقی کر سکے گا؟۔ اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ وہ آنے والے 10 سال سندھ کے کوٹہ سسٹم کو ختم کر کے ایک تجربہ کریں۔ جہاں اتنا زمانہ کوٹے کے ساتھ گزارا وہاں خالص میرٹ یا قابلیت کو بھی آزما دیکھیں۔