... loading ...
اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”میں نوروالے ڈیرہ پر بیٹھا ہو اکافی دیر سے ایک مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لیے مجھے نور والے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اچانک ان کی آواز سنائی دی۔وہ کہہ رہے تھے کہ”یہ مکھی اللہ نے آپ کے ذوقِ کشتن کے لیے نہیں پیدا کی ہے،جو آپ اِسے مار رہے ہو“۔ میں نے کہا”بابا جی! یہ مکھی گند پھیلاتی ہے اس لیے اِسے مار رہا تھا“۔بابا جی جواباً کہنے لگے”یہ مکھی تو انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو“۔ میں نے کہا”بابا جی! یہ مکھی،انسان کی محسن کیسے ہوسکتی ہے؟“ بابا جی! میرے سوال کے جواب میں کہنے لگے کہ”یہ مکھی بغیر کوئی کرایہ لیے، بغیر کوئی ٹیکس لیے انسان کو یہ بتانے کے لیے آتی ہے کہ یہاں پر گند ہے اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں یہ خودبخود چلی جائی گی“۔کئی برس قبل پڑھا ہوا یہ واقعہ آج اِس لیے یاد آگیا ہے کہ میرے سامنے رکھے ہوئے اخبار میں جلی حروف میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ”سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں سندھ بھر میں مکھیوں کے خاتمہ کے لیے خصوصی دُعا کروائی گئی“۔ مذکورہ خبر میں بہرحال اِس بات کی وضاحت نہیں کی گئی سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خلاف فقط دُعا پر ہی اکتفا کیا گیا ہے یا کوئی قرارداد بھی پاس کروائی گئی ہے۔جبکہ اَب تک یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خلاف کروائی گئی دُعا یا ممکنہ قرارداد کا سندھ میں دراندازی کرنے والی مکھیوں نے کیا اثر لیا ہے۔بظاہر تو یہ ہی لگتا ہے کہ مکھیوں نے سندھ اسمبلی میں اُٹھائے گئے اپنے خلاف کسی بھی اقدام کو خاص ”سنجیدگی“ سے نہیں لیا ہے۔ جب ہی تو مکھیاں اَب تک سندھ کی آلودہ فضاؤں میں بدستور لذتِ کام و دہن میں مصروف نظر آرہی ہیں۔
واضح ر ہے کہ سندھ اسمبلی میں کبھی بھولے سے بھی کسی بے وقعت موضوع پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کیا جاتا،اِس لیے یہ سوچنا کہ سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں ”مکھی“ کا تذکرہ خالی از منفعت ہوسکتا ہے، بالکل ایک لغو خیال ہے اور سندھ اسمبلی کے معزز اراکین اِس طر ح کی لغویات سے مکمل طور پر پاک و صاف ہیں۔ اس لیے سندھ اسمبلی میں ”انسدادِ مکھی“ کے لیے کروائی دُعا کا پوسٹ مارٹم کرنے پہلے ہمیں اِس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا ہوگا کہ آخر سندھ بھر بالخصوص کراچی میں ”مکھیوں“ کی اچانک بھرمار ہوئی کیسے؟ اِس بارے میں عوامی رائے تو یہ ہی پائی جاتی ہے کہ سندھ میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد کچرے کے پھیلنے والے تعفن کے باعث مکھیوں کی بہتات ہوئی ہے،لیکن اِس رائے سے سندھ حکومت شاید کچھ اتنی زیادہ متفق نہیں ہے کیونکہ اگر سندھ حکومت اِس عوامی رائے سے ذرہ برابر بھی اتفاق رکھتی تو کراچی شہر سے کچرا اُٹھانے کی کوئی نہ کوئی عملی سعی لازمی اختیار کرتی، نہ کہ سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خاتمہ کے لیے دُعا کا روحانی سہارا لیتی۔ویسے چند ناعاقبت اندیش تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اگر کراچی شہر کا کچرا اُٹھانے کا آغاز”مکھیوں“ کو بھگانے سے پہلے کردیگا تو پھر ”مکھیوں“ کو صوبہ بدر کرنے کے لیے کروڑوں روپوں کا بجٹ کیسے اور کیونکر ملے گا؟یعنی سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی کی دُور اندیشانہ سیاسی سوچ یہ ہے کہ سب سے پہلے ”مکھیوں“ کو بھگانے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات کی منظوری حاصل کی جائے گی۔بعد ازاں کراچی کا کچرا اُٹھانے کے لیے منظور کروائے گئے کروڑوں روپے کا بجٹ خرچ کر کے شہر کو کچرے سے نجات دلانے کی سمت کوئی عملی قدم اُٹھایا جائے۔
مکھیوں کے لیے سب سے زیادہ فخر و مباہت کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جگہ جگہ ہونے والی اُن کی اچانک رونمائی نے اُنہیں راتوں رات ایک عام سی مکھی کے مقام سے اُٹھا کرالیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا سپر اسٹار بنا دیا ہے۔ کل تک جو میڈیا مالکان اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے آج وہی میڈیا مالکان اپنے نیوز اینکروں کو بریکنگ نیوز میں مکھیوں کا تذکرہ کر نے پر ترغیبی انعامات سے نوازرہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اِس وقت کراچی میں گھومنے پھرنے والی مکھیاں ٹاپ ٹرینڈ کررہی ہیں۔ٹو ئٹر اور فیس بک پر مکھیوں پر بے شمار میمز اور ٹوئٹس زیرِ گردش ہیں،جن کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ جیسے ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ”کراچی میں سب مر جائیں گے صرف مکھیاں رہ جائیں گی“۔ سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم بھی مکھیوں سے پریشان ہیں اور انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ”جلد ہم کراچی کو ’مکھیوں کا شہر‘ کہیں گے“۔نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہم گھروں میں رہیں یا گھر سے باہر رہیں مکھیاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔پھل اور سبزی فروش دہائی دے رہے ہیں کہ”مکھیاں اُڑا اُڑا کر ہمارے بازوؤں میں درد ہوجاتا ہے لیکن مکھیاں ہیں کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتیں“۔ایک ٹوئٹر صارف نے مکھیوں کی عزت افزائی میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ”دنیا میں 7 ارب لوگ ہیں اور کراچی میں 7 کھرب مکھیاں ہیں“۔اَب آپ خود ہی بتائیں کیا ایسی بے مثال شہرت کبھی مکھی جیسی ادنیٰ سی مخلوق کے نصیب میں آئی ہوگی۔ خدا لگتی تو یہ ہے کہ مکھی ذات کو اِس عظیم ترین مقام تک پہنچانے میں سندھ حکومت کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔یقینا مکھیاں اگر کراچی میں یونہی زندہ جاوید اور سلامت رہیں تو اُن کی نسل تاقیامت سندھ حکومت کے یہ احسانِ گراں بار فراموش نہ کرسکیں گی۔
کراچی میں کچرے اور مکھیوں کے بھیانک امتزاج نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی کے حکمران ایک دوسرے پرالزامی بیان بازی سے وقت گزاری کا شوق فرمارہے ہیں۔ہماری وفاقی حکومت سے التماس ہے اگر سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی مل کر بھی کراچی کو کچرے سے نجات نہیں دلاسکتے تو پھر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے انتظامی کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی کے باسیوں کے لیے کچھ کر گزریں۔عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ کراچی کے عوام نے گزشتہ انتخابا ت میں اپنا سارا مینڈیٹ اُن کی سیاسی جماعت کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ وہی تاریخی مینڈیٹ ہے جس کی بنیاد پر آج عمران خان وزیراعظم پاکستان ہیں۔پس کراچی کے باسیوں کے دگرگوں حالت پر وفاقی حکومت کا مزید تماشائی بنا رہنا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آئے گا۔