... loading ...
امیداور واہموں میں ڈولتے ہم لوگ کہاں جائیں!!
وہ فلسطین کا قومی شاعر کہلاتا تھا، سال 2008 ء میں وہ اسی ماہِ اگست کی 9 تاریخ کو دنیا سے کوچ کرگیا۔ محموددرویش زندہ ہوتا تو دیکھتا کہ کشمیر کس طرح فلسطین بن رہا ہے،اور بھارت کیسے اسرائیل کی جون بدلتا ہے۔ شاعر نے کس دکھ سے کہا تھا:
”آخری سرحدیں پار کرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟
حدِ آسماں ختم ہوگی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟
ہوا کے آخری جھونکے کے بعد گُل بوٹے کہاں سوئیں گے؟
’زمین ہم پہ تنگ ہورہی ہے‘
ہزاروں سال پر محیط تاریخ نے اس کی گواہی دی ہے کہ ہندو برہمن کی نفسیات نباہ کی نہیں ہے۔کوئی اور نہیں وہ اپنے ہی ہم مذہب نچلی ذات کے لوگوں کو گوارا نہیں کرتا۔ ہندو برہمن کی نفسیات انتہائی عجیب ہے۔ یہ انسان کو انسان ہونے کے شرف سے دستبردار کرکے بھی خوش نہیں ہوتی۔ اپنے خالص داخلی مذہبی دائرے میں بھی وہ ایک طرف انتہا پسند ہیں تو دوسری طرف و ہ اپنی مذہبی تعلیم کو بھی اپنی ”انتہاپسندی“ کی راہ میں آنے نہیں دیتے۔ مہابھار ت کی تعلیم تویہ ہے کہ’ایک شودر کے گھر میں ایک برہمن اور ایک برہمن کے گھر میں ایک شودر پیدا ہو سکتا ہے‘۔ یہ ایک غیر نسلی تصور ہے اور”کرم“کی بنیاد پر کایا کلپ (metamorphosis)کا موقف ہے۔ ہندو برہمن اس معاملے میں اس قدر انتہا پسند ہے کہ اُس نے اپنے مذہب کو فراموش کرکے شودر کو ایک نسلی مظہر (phenomenon)بنا کر چھوڑدیا۔ کوئی ایک دوہزار نہیں چھ ہزار برس سے وہ شودروں کو حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس تاریخ کا یہ شعور برصغیر میں کسی بھی سطح پر جذب نہیں کیا جاسکا۔ ہندوؤں کی اس ذہنی، مذہبی، سیاسی، نفسیاتی اور تہذیبی ساخت کی بہیمت اور شقاوت کا اندازا کوئی بھی غیر متعصب شخص بآسانی لگا سکتا ہے۔ مگر دیگر مذاہب کو تو چھوڑئیے، اس کے براہِ راست شکار پاکستان میں بھی سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادتیں اس پورے تاریخی، ذہنی،مذہبی، تہذیبی او رنفسیاتی سانچے سے آگاہ نہیں۔ وہ کشمیر کو سیاسی سطح کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مقبوضہ وادی کی بھارت حامی مسلمان قیادتوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں! آج وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔
بھارت نے اپنے ہی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو روند دیا۔ اس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہ دفعہ کشمیریوں کے خصوصی حقوق اور اختیارات کے تحفظ کی ضامن تھی۔ اب یہاں کشمیریوں کو اقلیت بنانے کی وہی کوششیں شروع ہونگیں جو اسرائیل نے فلسطین میں کیں۔ گویا کشمیر اب کشمیریوں کا نہیں رہے گا۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک تاسف کے ساتھ کہا کہ”آج مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا“۔ٹہر جائیے!! محبوبہ مفتی ہی نہیں مقبوضہ کشمیر کی ساری بھارت حامی سیاسی قیادتیں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہیں۔ یہ اُن کے لیے 2019 نہیں 1947ہے۔ افسوس اس مزاج کی چنگیزیت کے شکار ڈاکٹر امبید کر کسی کو یاد نہ رہے۔ بھارتی آئین کے اس مصنف کو برہمن حقارت نے اپنے آپ سے باغی بنا دیا۔ نچلی ذات کا پس منظر برصغیر کے اس بہت بڑے قانونی دماغ کو بھی ہندو برہمنوں میں عزت نہ دلا سکا۔ بآلاخر اس نے ہندو مذہب ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک تاریخی جملہ کہا: میرے لیے یہ تو ممکن نہ تھا کہ میں کس مذہب میں پید اہوں، مگر یہ ممکن ہے کہ کس مذہب پرمروں“۔ ڈاکٹرامبید کر نے اسی برہمن شقاوت سے عاجز آکر ہندو مذہب ترک کردیا تھا۔ محبوبہ مفتی سے لے کر فاروق اور عمر عبداللہ تک سب کے تبصرے ڈاکٹر امبید کر کی بے بسی جیسے لگتے ہیں۔
کوئی اور نہیں برصغیر میں صرف قائد اعظمؒ تھے، جنہوں نے ہندو برہمن کی نفسیات اور مزاج کی تاریخی، تہذیبی، مذہبی اور نفسیاتی تہہ داریوں کو سمجھا تھا۔ وہ اپنی قبر میں آسودہ سوتے ہیں۔ تاریخ نے اُن کے فہم کو ایک بار پھر سرخرو کیا۔ سید علی گیلانی اپنی زندگی میں اپنے آپ سے بڑھ کر دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخی شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اپنے زمانے سے آگے، روایتی فہم سے بالا،سرخرو، سربلند۔ مقبوضہ کشمیر کی خوش رنگ وادی ہزاروں سال بعد اپنے سبزوں، کہساروں اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ یوں ہی کھڑی قائد اعظم کو یاد رکھے گی، اپنے پہاڑوں سے بھی بلند سید علی گیلانی کو بھی!نظریہئ پاکستان زندہ باد کے نعرے کی موسیقی یہاں کی ہواؤں میں گھلی ملی ملے گی۔کشمیر کا جذبہئ حریت کہساروں کے ساتھ سلامت رہے تو کیا ہوا وادی میں انگارے دہکتے ہیں۔ تاریخ کے قیدی مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گھر میں نظر بند کردیے گئے۔ دونوں رہنماؤں نے اتوار کو ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی تھی،جس میں مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر غور کیا گیا تھا۔ اب مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144 کے ساتھ کرفیو نافذ ہے۔ بھارت کی برہمن قیادت نے مقبوضہ وادی میں مزید70 ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر بھارت کی وفاقی اکائی کا مکمل حصہ ہے۔ مگر بھارت کا وفاق جبر کے ماحول سے ڈانواڈول ہے۔ ہندو مزاج کی چنگیزیت نے پورے بھارت میں بغاوت کو بھردیا ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے فلسطینی تجربے کو دُہرانے کے درپے ہے۔ مگر اسرائیل اپنے حجم میں چھوٹا اور اپنی شناخت میں ایک اکائی رکھتا ہے۔ بھارت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ یہ الگ الگ مذاہب اور الگ الگ اہداف رکھنے والی قوموں کا ایک جغرافیائی اکٹھ ہے۔ جن کی اپنی ابتدائی شناخت اور نسلی و مذہبی تناظر بھارت کی اپنی پہچان سے زیادہ بامعنی ہے۔ اسی لیے وہ تمام کی تمام مختلف النوع پس منظر کی حامل اکائیاں اپنی اپنی تاریخ سے اب بھی جڑی ہیں۔ اگر بھارت میں یہ شناختیں بامعنی نہ رہی ہوتیں تو ہندو برہمن کو ان کے خلاف جبر کو ہتھیار نہ بنانا پڑتا۔ بھار ت نے اپنا آخری اقدام اُٹھا لیا۔ اب اُسے صرف نتائج بھگتنے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، دفعہ 144 کے نفاذ سے معمولاتِ حیات بحال نہیں ہوسکتے۔ جذبہئ حریت کب قید ہوتا ہے اور تاریخ کب سپر انداز ہوتی ہے۔ بھارت اسرائیل بن کر کشمیر کو کبھی فلسطین نہ بناسکے گا۔