وجود

... loading ...

وجود

زمین ہم پر تنگ ہورہی ہے!

منگل 06 اگست 2019 زمین ہم پر تنگ ہورہی ہے!

امیداور واہموں میں ڈولتے ہم لوگ کہاں جائیں!!
وہ فلسطین کا قومی شاعر کہلاتا تھا، سال 2008 ء میں وہ اسی ماہِ اگست کی 9 تاریخ کو دنیا سے کوچ کرگیا۔ محموددرویش زندہ ہوتا تو دیکھتا کہ کشمیر کس طرح فلسطین بن رہا ہے،اور بھارت کیسے اسرائیل کی جون بدلتا ہے۔ شاعر نے کس دکھ سے کہا تھا:
”آخری سرحدیں پار کرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟
حدِ آسماں ختم ہوگی تو پرندے کہاں پرواز کریں گے؟
ہوا کے آخری جھونکے کے بعد گُل بوٹے کہاں سوئیں گے؟
’زمین ہم پہ تنگ ہورہی ہے‘
ہزاروں سال پر محیط تاریخ نے اس کی گواہی دی ہے کہ ہندو برہمن کی نفسیات نباہ کی نہیں ہے۔کوئی اور نہیں وہ اپنے ہی ہم مذہب نچلی ذات کے لوگوں کو گوارا نہیں کرتا۔ ہندو برہمن کی نفسیات انتہائی عجیب ہے۔ یہ انسان کو انسان ہونے کے شرف سے دستبردار کرکے بھی خوش نہیں ہوتی۔ اپنے خالص داخلی مذہبی دائرے میں بھی وہ ایک طرف انتہا پسند ہیں تو دوسری طرف و ہ اپنی مذہبی تعلیم کو بھی اپنی ”انتہاپسندی“ کی راہ میں آنے نہیں دیتے۔ مہابھار ت کی تعلیم تویہ ہے کہ’ایک شودر کے گھر میں ایک برہمن اور ایک برہمن کے گھر میں ایک شودر پیدا ہو سکتا ہے‘۔ یہ ایک غیر نسلی تصور ہے اور”کرم“کی بنیاد پر کایا کلپ (metamorphosis)کا موقف ہے۔ ہندو برہمن اس معاملے میں اس قدر انتہا پسند ہے کہ اُس نے اپنے مذہب کو فراموش کرکے شودر کو ایک نسلی مظہر (phenomenon)بنا کر چھوڑدیا۔ کوئی ایک دوہزار نہیں چھ ہزار برس سے وہ شودروں کو حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس تاریخ کا یہ شعور برصغیر میں کسی بھی سطح پر جذب نہیں کیا جاسکا۔ ہندوؤں کی اس ذہنی، مذہبی، سیاسی، نفسیاتی اور تہذیبی ساخت کی بہیمت اور شقاوت کا اندازا کوئی بھی غیر متعصب شخص بآسانی لگا سکتا ہے۔ مگر دیگر مذاہب کو تو چھوڑئیے، اس کے براہِ راست شکار پاکستان میں بھی سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادتیں اس پورے تاریخی، ذہنی،مذہبی، تہذیبی او رنفسیاتی سانچے سے آگاہ نہیں۔ وہ کشمیر کو سیاسی سطح کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مقبوضہ وادی کی بھارت حامی مسلمان قیادتوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں! آج وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔
بھارت نے اپنے ہی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو روند دیا۔ اس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہ دفعہ کشمیریوں کے خصوصی حقوق اور اختیارات کے تحفظ کی ضامن تھی۔ اب یہاں کشمیریوں کو اقلیت بنانے کی وہی کوششیں شروع ہونگیں جو اسرائیل نے فلسطین میں کیں۔ گویا کشمیر اب کشمیریوں کا نہیں رہے گا۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک تاسف کے ساتھ کہا کہ”آج مقبوضہ کشمیر کی لیڈرشپ کا دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے بھارت سے الحاق کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا“۔ٹہر جائیے!! محبوبہ مفتی ہی نہیں مقبوضہ کشمیر کی ساری بھارت حامی سیاسی قیادتیں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہیں۔ یہ اُن کے لیے 2019 نہیں 1947ہے۔ افسوس اس مزاج کی چنگیزیت کے شکار ڈاکٹر امبید کر کسی کو یاد نہ رہے۔ بھارتی آئین کے اس مصنف کو برہمن حقارت نے اپنے آپ سے باغی بنا دیا۔ نچلی ذات کا پس منظر برصغیر کے اس بہت بڑے قانونی دماغ کو بھی ہندو برہمنوں میں عزت نہ دلا سکا۔ بآلاخر اس نے ہندو مذہب ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک تاریخی جملہ کہا: میرے لیے یہ تو ممکن نہ تھا کہ میں کس مذہب میں پید اہوں، مگر یہ ممکن ہے کہ کس مذہب پرمروں“۔ ڈاکٹرامبید کر نے اسی برہمن شقاوت سے عاجز آکر ہندو مذہب ترک کردیا تھا۔ محبوبہ مفتی سے لے کر فاروق اور عمر عبداللہ تک سب کے تبصرے ڈاکٹر امبید کر کی بے بسی جیسے لگتے ہیں۔
کوئی اور نہیں برصغیر میں صرف قائد اعظمؒ تھے، جنہوں نے ہندو برہمن کی نفسیات اور مزاج کی تاریخی، تہذیبی، مذہبی اور نفسیاتی تہہ داریوں کو سمجھا تھا۔ وہ اپنی قبر میں آسودہ سوتے ہیں۔ تاریخ نے اُن کے فہم کو ایک بار پھر سرخرو کیا۔ سید علی گیلانی اپنی زندگی میں اپنے آپ سے بڑھ کر دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخی شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اپنے زمانے سے آگے، روایتی فہم سے بالا،سرخرو، سربلند۔ مقبوضہ کشمیر کی خوش رنگ وادی ہزاروں سال بعد اپنے سبزوں، کہساروں اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے ساتھ یوں ہی کھڑی قائد اعظم کو یاد رکھے گی، اپنے پہاڑوں سے بھی بلند سید علی گیلانی کو بھی!نظریہئ پاکستان زندہ باد کے نعرے کی موسیقی یہاں کی ہواؤں میں گھلی ملی ملے گی۔کشمیر کا جذبہئ حریت کہساروں کے ساتھ سلامت رہے تو کیا ہوا وادی میں انگارے دہکتے ہیں۔ تاریخ کے قیدی مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گھر میں نظر بند کردیے گئے۔ دونوں رہنماؤں نے اتوار کو ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی تھی،جس میں مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر غور کیا گیا تھا۔ اب مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144 کے ساتھ کرفیو نافذ ہے۔ بھارت کی برہمن قیادت نے مقبوضہ وادی میں مزید70 ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر بھارت کی وفاقی اکائی کا مکمل حصہ ہے۔ مگر بھارت کا وفاق جبر کے ماحول سے ڈانواڈول ہے۔ ہندو مزاج کی چنگیزیت نے پورے بھارت میں بغاوت کو بھردیا ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے فلسطینی تجربے کو دُہرانے کے درپے ہے۔ مگر اسرائیل اپنے حجم میں چھوٹا اور اپنی شناخت میں ایک اکائی رکھتا ہے۔ بھارت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ یہ الگ الگ مذاہب اور الگ الگ اہداف رکھنے والی قوموں کا ایک جغرافیائی اکٹھ ہے۔ جن کی اپنی ابتدائی شناخت اور نسلی و مذہبی تناظر بھارت کی اپنی پہچان سے زیادہ بامعنی ہے۔ اسی لیے وہ تمام کی تمام مختلف النوع پس منظر کی حامل اکائیاں اپنی اپنی تاریخ سے اب بھی جڑی ہیں۔ اگر بھارت میں یہ شناختیں بامعنی نہ رہی ہوتیں تو ہندو برہمن کو ان کے خلاف جبر کو ہتھیار نہ بنانا پڑتا۔ بھار ت نے اپنا آخری اقدام اُٹھا لیا۔ اب اُسے صرف نتائج بھگتنے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، دفعہ 144 کے نفاذ سے معمولاتِ حیات بحال نہیں ہوسکتے۔ جذبہئ حریت کب قید ہوتا ہے اور تاریخ کب سپر انداز ہوتی ہے۔ بھارت اسرائیل بن کر کشمیر کو کبھی فلسطین نہ بناسکے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر