وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ اور عمران خان

اتوار 28 جولائی 2019 ٹرمپ   اور  عمران خان

اقبالؒ کا کہنا ہے کہ
کیا چرخِ کج رو، کیا مہر، کیا ماہ
سب راہ رو ہیں داماندہئ راہ
عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر لیڈر ٹھیک ہو تو جاہلوں اور نااہلوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی نے پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے ناموں کی حقیقت اس انداز سے آشکارا کی ہے کہ سب کو یقین ہو گیا ہے کہ موجودہ حُکمران جماعت میں ایک بھی دوسرا عمران خان تو دُور کی بات ہے کوئی اُس کے قریب بھی نہیں پہنچتا۔ کپتان اپنی ساکھ پر اپنے کھوٹے سکے چلا رہا ہے، ناتجربہ کاری اور بیوروکریسی کی چالاکی نے مُشکلات کا پہاڑ لا کھڑا کیا ہے۔ وزراء اور مُشیر منظر اور پس منظر کے ادراک سے محروم ہیں۔ شبلی فراز کی کھچائی کی خبر صرف شیخ رشید نے دی ہے۔ آزاد ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ وزیر اعظم کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگانے والوں سے کوئی باز پُرس بھی کی جائے گی یا انہیں بھی عامر کیانی کی طرح ”پوتر“ قرار دے دیا جائے گا۔
جنابِ وزیر اعظم ایسا کرنا بے نیازی نہیں ایک سنگین کوتاہی ہوگی جس کے اثرات مستقبل کی سیاست پر ایسا تاثر چھوڑ یں گے کہ مداوا مشکل ہوسکتا ہے۔ ابھی تو دورہئ امریکا کے ثمرات کی انسپائریشن کا وقت تھا کہ ایک سازش کے تحت کامیابی کے اثرات زائل کرنے کی کاوشیں شروع کر دی گئی ہیں۔
دُنیا کا طاقتور ترین صدر جب پاکستان کے وزیر اعظم اور پاکستانی قوم کی تعریف کر رہا تھا تو ماضی میں امریکیوں کی جانب ادا کیے گئے یہ توہین آمیز الفاظ زبردستی سماعتوں سے ٹکر انے کی کوشش کر رہے تھے کہ ”پاکستانی رقم کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔“ اس مرتبہ تحسین کے یہ ڈونگرے اُسی مُلک کی طرف سے برسائے گئے جس کے ایک وزیر دفاع جنرل کولن پاول نے ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ آج اُسی ملک کا صدر پاکستانیوں سے درخواست کر رہا تھا کہ انہیں ”پتھر کے علاقے“ سے نکالا جائے۔ یہ پاکستانیوں کی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ جس میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے رویہ کی بدولت شروع ہی سے تنقید کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ سفارتی آداب انہوں نے کئی مرتبہ پامال کیے۔ وہ امریکی صدر کے منصب پر فائز تو ہو گئے لیکن ان کے اندر کا ”ریسلر“ ریٹائر نہیں ہوا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے رُوبرو ان کی سنجیدگی حیران کُن قرار دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود عمران خان بھی ہیں۔
کپتان سماجی خدمت اور سیاست کے میدان میں کئی عشروں سے ہیں لیکن ان کے اندر کا ”کھلاڑی“ بھی ہمیشہ جوان ہی رہا ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ سیاست کو بھی کھیل سمجھتے ہیں۔ سیاست کو جس کھیل سے تشبیہ دی جاسکتی ہے وہ شطرنج کا کھیل ہے۔ لیکن کپتان اس کھیل کے حوالے سے خاصے کورے ہیں۔ جبکہ ان کی پارٹی میں بہت سے ایسے ہیں جو ان کے ساتھ بھی”چالیں“ چلتے رہتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکا کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق امریکی صدر کے مشیروں نے انہیں ایک سے زائد مرتبہ یہ بریفنگ دی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کسی بھی ایسے رویے یا طرزعمل سے گریز کیا جائے جس کا فوری جواب سُپر پاور امریکا کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہو۔ انہیں بار بار بتایا گیا کہ کپتان ایسے معاملات میں اُدھار پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ عمران خان کے ایسے ویڈیو کلپس سے بھی مدد لی گئی جس میں وہ اپنے فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ امریکی دفترِ خارجہ پہلے ہی اُس وقت سے عمران خان کے فوری ردِ عمل دینے کی عادت سے آگاہ تھا جب عمران خان نے اپنے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب ترکی بہ تُرکی دیا تھا۔ بھارت کو فوجی محاذوں پر دیے گئے جوابات بھی عالمی برادری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔
کپتان نیازی قبائل کی جس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں وہ شیر مان خیل کہلاتی ہے ان کی دادی مرحومہ کے ایک بھائی (جو کہ پولیس میں انسپکٹر تھے)نے نمل کے علاقے میں دہشت پھیلانے والے خونخوار شیر سے ہاتھا پائی شروع کر دی تھی۔ نومبر 1994 ء میں وہ اپنے آبائی شہر میانوالی میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ مہم میں شریک تھے۔گورنمنٹ بوائز کالج میانوالی میں ایک لڑکے نے گاڑی میں بیٹھے خان صاحب کا چشمہ ہاتھ مار کر اُتارا اور بھاگا۔ کپتان نے یہ جا اور وہ جا کے مصداق لڑکے کو جا دبوچا اور چشمہ لے کر آگئے۔ کہنے لگے اس نے سمجھ لیا تھا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔، پھر کہا کہ میں نہیں چاہتا اس طرح ہمارے نوجوانوں کی عادتیں خراب ہوں کہ وہ چھینا جھپٹیاں کریں۔ اسی روز کا ایک واقعہ زبیر ہاشمی یہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھاکہ ”مین بازار سے گزرتے ہوئے ایک دُکان کی چھت پر کھڑے ایک نوجوان نے کہا کہ وہ چھت سے گڑ کی ڈلی پھینکتا ہے، اگر خان صاحب کیچ کرلیں تو وہ سونے کی چین عطیہ کرے گا،، اس نے گڑ پھینکا اور خان صاحب نے اپنی گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہوکر اسے کیچ کر کے سونے کی چین حاصل کر لی۔“
یہ دونوں واقعات ایسے نہیں ہیں کہ ان سے ڈونلڈ ٹرمپ یا مغربی دنیا کو ڈرایا جا سکے۔واضح یہ کرنا ہے کہ عمران خان بعض اوقات اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نہ سوچتا ہے اور نہ دیر لگاتا ہے۔ گزشتہ دنوں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”نیازی اتنا کرو جتنا تم برداشت بھی کرسکو“۔ شہباز شریف اور ان کا خاندان تین دہائیوں کے اقتدار کے بعد کچھ مُشکلات کا شکار ہے اس لیے انہیں ایسا لگتا ہے کہ اس سے بڑی شاید ہی کوئی دوسری مُشکلات ہوں۔ لیکن عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی زندگی سخت ترین جدوجہد سے عبارت ہے، ایسی مُشقت جس میں زیادہ تر بوجھ انہوں نے خود ہی اُٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے اُس کی کہانی کے عینی شاہد جب اُس کی حکومت کے کارپردازوں کے کمالات دیکھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے واقعہ پر کالم کا اختتام کیا جارہا ہے۔
جون 2002 ء کے دوران میں تین بجے سہ پہر کے وقت یہ اپنے حلقہ کے خٹک بیلٹ کے علاقے میں تھے۔ بلُند و بالا پہاڑوں کے بے آب وگیاہ پتھریلے علاقے میں چلے جارہے تھے۔ دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں تھا۔سایہ اور ٹھکانہ تلاش کیا جارہا تھا کہ ایک طرف کچھ درخت نظر آئے، ان کے ساتھ ایک گھر بھی دکھائی دیا اور ایک بابا جی بھی سامنے گھوم رہے تھے۔ گاڑیوں کا رخ اسی طرف کردیا گیا۔ درختوں کے نیچے چند پرانی چارپائیاں رکھی تھیں۔ میلے غلافوں والے تکیے تھے مگر نیازی صاحب نے شان بے نیازی کے ساتھ ایک چارپائی سنبھالی، تکیہ جیسا بھی تھا، سر کے نیچے رکھا اوزبیر ہاشمی سے کہامیرا سر دباؤ، دکھ رہا ہے،،،زُبیر نے سر دبایا،،، اتنے میں بابا جی ایک بالٹی میں پانی اور ساتھ جست والے گلاس لے آئے۔ خان صاحب نے بڑے مزے سے پانی پیا،،، پھر بابا جی چائے بھی لے آئے اور خالص دیہاتی طرز کے پیالوں میں پیش کی،، خان صاحب نے بھی ایک پیالہ پیا۔ کہنے لگے ایسے لوگوں سے مل کر مجھے سکون ملتا ہے۔ لیکن اب ”اب شبلی فراز اور عامر کیانی۔۔۔۔۔؟


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر