... loading ...
محسن داور اور علی وزیر کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں!! ابھی خڑ کمار چیک پوسٹ پر حملے کا قضیہ رہنے دیجیے!!
ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں۔نوگیارہ کے بعد پاکستان کے اندر جو حالات برپا تھے، وہ مملکت کی شناخت اور جواز کے درپے ہو گئے تھے۔ امریکی ہیبت سے دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بے خود جنرل پرویز مشرف دھما چوکڑی میں مصروف تھے۔ ایک برطانوی خبر رساں ادارے نے لکھا تھا کہ پاکستان چوراہے پر بیٹھے لاوارث بچے کی طرح ہو گیا ہے جسے کوئی بھی دھتکار دیتا ہے، اُس پر چلتے چلتے ہاتھ جڑ دیتا ہے۔ شرم کسی کو تب بھی نہیں آئی تھی۔ مشرف تب اپنے سر پر”شربت“ کا گلاس رکھ کر رقص کرتے ہوئے کوس لمن الملک بجاتے رہتے۔ اسلام اور پاکستان کی باتیں اجنبی بن گئی تھیں، ترتیب ذرا سی بدل گئی تھی، طاؤس ورباب اول اور شمشیر وسناں آخر میں چلے گئے تھے۔ یہ بھی مجموعی منظرنامہ نہ تھا۔ دوسری طرف قومی ادارے راندہ وپامال تھے۔ مفتوحہ علاقوں میں فاتح جس طرح گھوڑوں سے فصلیں روندتے تھے، امریکی ہمارے اقتدارِ اعلیٰ کے ساتھ یہی کررہے تھے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ غیر محفوظ صرف پاکستانی ہوگئے تھے۔ جس کو جہاں سے چاہا اُٹھا لیا جاتا، جو الزام عائد کرنا چاہا کردیا جاتا۔ قومی ذرائع ابلاغ عصبیت اور مادیت کے شکار ہو کرروشن خیالی کی دوشیزہ سے دل بہلا تے ہر چیز نظر انداز کرنے پر تُلے تھے۔ مقابلوں پر مقابلے ہورہے تھے۔ حاضرو موجود کب غائب ومعدوم ہوجاتے پتہ ہی نہ چلتا۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو کراچی سے غائب کرکے افغانستان سے حملہ آور حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا۔ اس بہن کے ساتھ امریکیوں نے جو کیاسو کیا مگر پاکستان کے اہلِ اقتدار نے اسے باجواز بنانے کے لیے جن الزامات کا سہارا لیا وہ امریکیوں کے اقدام سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ایک ہاہا کار مچی تھی۔ ابھی جمہوریت کی بقا کے نام پر دلائل کو خرد افروزی قراردینے والے دانشور تب مسرور ومسحور رہتے۔ وہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی حیا باختہ دوشیزہ سے متمتع ہو رہے تھے، یہ تب کی خرد شناسی تھی۔
اس پورے منظرنامے میں مختلف عصبیتوں کو زندہ کیا گیا۔ ایم کیوایم کو طاقت کے انجکشن دیے گئے۔ اب جس کے نام لینے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے، اُن سے بریف کیسوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے اسلام آباد لندن جاتا۔ اب جس کے خطاب پر پابندی ہے، اُن سے امریکا کے حق میں او رمذہبی طبقے کو لعن طعن کرانے کے لیے درخواستیں کی جاتیں۔ہر کوئی جامے اور آپے سے باہر تھا۔ کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا۔
ریاست نے تب دوست دشمن بدل لیے تھے، خوب ناخوب ہو گیا تھا۔ رسوائیاں فضیلت ماب ہوگئی تھیں۔اپنے بچے، اپنے نہیں رہے تھے اور اُنہیں اب امریکی جنگ کا ایندھن بننا تھا۔ جہاد بوجھ اور دفاع پسپائی کی تعبیر کے ساتھ نت نئے تصورات پیدا کررہا تھا۔ ایسے میں پاکستانی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ وہ کیا ہیں؟ وہ کیوں ہیں؟اور اُنہیں آگے جا کر کیا ہونا ہے؟یوں تو دہشت گردی کے خلاف دہشت گردانہ جنگ سے سارا ملک ہی متاثر تھا مگر ایک لسانی اکائی ایسی تھی جو اس کی سب سے زیادہ متاثرہ تھی۔ظاہر ہے کہ کسی کو اس سے اختلاف نہ ہو گا کہ یہ پختون قوم تھی۔ پاکستانی اداروں اور اقتدار کی اونچی بارگاہوں میں اس پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا کہ اگلے دس بارہ برسوں بعد اس جنگ کا ناک نقشہ کیا ہوگا اور مذکورہ لسانی اکائی کے رخ ورخسار، گل وگلزار اور نقش ونگار کیوں کر سنوارے جائیں گے۔ بداعتمادی کی خودپیدا کردہ جھاڑیاں کیسے ختم کی جائیں گی؟ ایک انتقامی جذبے کی قبائلی نفسیات کے ساتھ زندہ رہنے والی اس اکائی کومطمئن کرنے کا سوال تب اور زیادہ خطرناک بن کر سامنے کھڑاتھا جب پاکستان میں لسانی عصبیتوں کو قومی وابستگی سے زیادہ ترجیح دینے کا ایک بندوبستی نظام ہمہ وقت حرکت میں رہتا ہو۔ ذرا خود کو ٹٹول کر دیکھیں۔ سات دہائیوں سے ادنیٰ سیاسی مفادات کے لیے مختلف شناختوں کو قومی سیاست میں دانستہ پروان چڑھایا گیا۔ مختلف اہداف کے لیے ایک دوسرے کی شکایتوں کی آبیاری کی گئی؟ ایک کے خلاف دوسرے کو کھڑا رکھا گیا؟ ایک ہم آہنگ معاشرے اور قومی وحدت کے لیے فریق کو رفیق بنایا جاتا ہے۔ ہم نے رفیق فریق میں بدلے۔ریاستی کاروبار کو چلانے کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا یہ چلن کسی دوسرے ملک میں نظر نہیں آتا۔
نوگیارہ کے بعد یہ وہ وقت تھا، جب حقیقی پاکستانیت ہی یہ تھی کہ اہلِ اقتدار کو جھنجھوڑا جائے۔ اُن کے خواب خرگوش کے مزوں کو مکدر کیا جائے۔ اُن کی حکمت عملی کے غباروں کو پھوڑا جائے۔مگر اہلِ دانش زیادہ دانشمند ثابت ہوئے۔ وہ تب دام کھڑے کرنے میں لگے رہے۔قوم تب رونما ہونے والے واقعات کا کرب جھیلتی رہی۔ یہ کرب بانجھ نہیں تھا۔ اس نے انڈے بچے جنمنے تھے۔ اب وہ موجود ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ یہ بھگتانے کا نہیں بھوگنے کا قضیہ ہے۔گرہ در گرہ ڈور الجھ چکی ہے۔پاکستان میں کوئی بھی دوسرا مسئلہ اپنے قد کاٹھ کے اعتبار سے اتنا خطرناک نہیں۔سادہ لفظوں میں یہ تحریک راؤ انوار کے ظلم سے تخلیق نہیں ہوئی۔ اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ اور اس کے مضمرات بھی زیادہ تباہ کن ہیں۔
نوگیارہ کے بعد کے ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ایک دینی مدرسے کی تقریب میں چلتے ہیں۔ اب ایک دہائی بیتتی ہے۔ ماند یادداشت پر انحصار کرتے ہوئے ماضی کے اس قصے کو تولتے،ٹٹولتے اور کھولتے،کھنگالتے ہیں۔تقریب میں ایک برطانوی نومسلم چمک رہے تھے، بڑے بڑے اصحاب ِجبہ ودستار اور صاحبانِ منبر ومحراب اُس نومسلم کے ساتھ ایسے پیش آرہے تھے جیسے کسی ”امام“ کا ظہور ہوگیا ہو۔ کوئی غزوہ کی بشارت پوری ہونے جارہی ہو، احادیث میں مومن کی جس فراست سے بچنے کی تاکید کی گئی تھی وہ خود بچ بچا کر کہیں نکل گئی تھی۔سرگوشیوں میں مذکورہ برطانوی نومسلم کے قبول ِ اسلام پر مختلف روایتیں سنائی جارہی تھیں۔نہ جانے کیوں مذکورہ نومسلم کے قبول اسلام کے حالات متاثر نہ کرتے تھے۔ مگر علمائے کرام کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ایک چیز چونکا دینے والی تھی کہ مذکورہ نومسلم کی متجسس آنکھیں ہر بارسوخ عالم کو ڈھونڈتی۔ وہ رفتہ رفتہ مختلف جہادی گروپوں کے سرپرست بڑے بڑے علمائے کرام کے قریب ہوتا گیا۔ بعدازاں سرگوشیوں میں ہی یہ پتہ بھی چلا کہ وہ خیبر ایجنسی کے لشکر اسلام گروپ کے کمانڈر منگل باغ سے بھی ملنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ برطانوی نومسلم مختلف جہادی کمانڈروں اور اُن کے سرپرستی میں مشہور علمائے کرام سے خصوصی تعلق قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ پھر ایک دن کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ وہ اچانک کہاں غائب ہوگیا۔ مذکورہ برطانوی نومسلم کچھ عرصے کے بعد برطانیا میں ہی واپس طلوع ہوا تو سارے نقاب اُتار چکا تھا۔باریش چہرہ پھر پرانی حالت پر آگیا تھا۔ مذکورہ برطانوی شہری نے نومسلم کے نقاب میں دراصل اسی پختون قوم کے حالات اور اُن کی قوت مزاحمت کا اندازا لگایا تھا۔ وہ اسی مشن سے پاکستان آیا تھا۔ اپنے کامیاب مشن میں معلوم نہیں اُس کے زادِ سفر میں برطانوی وزیراعظم چرچل کی مالاکنڈ پر لکھی کتاب موجود تھی یا نہیں۔ مگر پختونوں کے تاریخی کردار کی زخم خوردہ برطانوی قوم کا پختونوں اور افغانوں کے متعلق ابھی تک تاریخی تجسس ختم نہیں ہوا تھا۔ نقاب پوش برطانوی شہری نے اپنے نتائج فکر کا خلاصہ برطانیہ کے کچھ چنیدہ لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کے کچھ نکات چھن چھن کر مختلف لوگوں کے پاس بھی پہنچتے رہے۔ یہاں صرف کچھ نکات پر توجہ دلانا مقصود ہے۔ برطانوی شہری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کو اگر کوئی قوم نقصان پہنچا سکتی ہے تو وہ صرف پختون قوم ہے۔ جو اس کے جغرافیہ کے نازک حصوں پر آباد ہے۔ پاکستان کی مختلف لسانی شناخت رکھنے والی نسلوں میں یہ واحد نسل ہے جو جنگجویانہ مزاج کے ساتھ پاکستان کے اندر کسی بھی طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایک حیرت انگیز پہلو ان نتائج فکر میں یہ بھی تھا کہ اسلام کے لیے لڑنے مرنے والی بھی پاکستان میں یہی قوم ہے۔ غور کیجیے تو یہی پہلو پاکستان کی طاقت بھی ہیں۔ مگر قومی تاریخ کی سنگینی یہ ہے کہ ہم خود اپنی طاقت کو بہت جلد خود شکن کمزوری میں تبدیل کردیتے ہیں۔
محسن داور اور علی وزیر کو اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں!! ابھی خڑ کمار چیک پوسٹ پر حملے کا قضیہ رہنے دیجیے!!