... loading ...
یکم مئی 2019 ء کو اسلام آباد کا کنونشن سینٹر چاہت، وارفتگی اور محبت کا شہر آباد کیے ہوئے تھا۔بائیس سالہ جدوجہد کے پسینے سے شرابور پروانے شمع کے گرد ناچتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کہا درست ثابت ہو رہا تھا کہ ”جو پسینہ بہاتے ہیں وہی تاریخ رقم کرتے ہیں“۔ اسٹیج کے راستے ایک وہیل چیئر ایوان میں داخل ہوتی ہے۔ایک لیجنڈ اپنے محبوب، اپنے دوست اور اپنے لیڈر کے حضور دو شعر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”اچھے دن بھی آ ئیں گے یار“۔اُس کے بعد گائے جانے والے پی ٹی آئی کے معروف ترانے کا اختتام ہوا ہی تھا کہ اچانک وزیر اعظم عمران خان کی طبیعت مچل جاتی ہے۔ بے قراری اور بے ساختگی کے عالم میں اُٹھ کر وہ ا سٹیج کی جانب بڑھتے ہیں۔ کنونشن سینٹر دم بخود رہ جاتا ہے۔ جس چاہت اور والہانہ پن سے وزیر اعظم آگے بڑھتے ہیں، اُسی قدر وارفتگی کے عالم میں وہیل چیئر پر بیٹھے عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی لپکتے ہیں۔ کپتان کا ہاتھ تھام کر اُس کو عقیدت اور محبت سے بوسہ دیتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو اپنے عزم، ارادے اور استقامت سے ڈھیر کرنے ولے کپتان کی آنکھیں بھی نم ناک ہوجاتی ہیں۔ یہ منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا۔ تصاویر اور ویڈیو کلپ دُنیا بھر میں وائرل ہو گئیں۔پھریہ پاکستان کے اُس روز کے سیاسی منظرنامے کی سب سے خوبصورت تصویر قرار پائی۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن ِ زُلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہ ِ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کایہ یومِ تاسیس یومِ تشکر بھی تھا اور اہداف کے تعین کا موقع بھی۔۔ پاکستان تحریک انصاف مُلک کی وہ سیاسی جماعت ہے جو 23 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئی ہے۔ کپتان کو اپنے پیش روحُکمرانوں سے جس قسم کے اُمورِ مملکت ورثے میں ملے ہیں انہوں نے ان کی آزمائشوں میں کئی گُنا اضافہ کر دیا ہے۔ مُلک کی اقتصادی حالت سب کے سامنے ہے۔ان کٹھن حالات میں ایک اژدھام ہے جو سات ماہ بعد ہی حُکومت کی ناکامی کے بگل بجا رہا ہے۔ یہ وہی ”بینڈ“ ہے جن کے باجے اُن حکمرانوں کی ناکامی کے لیے کم ہی بجے ہیں جو تیس تیس سال اور تین تین بار اس ملک پر حکمرانی کرکے مُلک کو ان حالات تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی مثال ہی لیجیے۔ اُن کے حوالے سے دانشور، تجزیہ نگار اور ٹی وی اینکر ایک خاص مشن پر ہیں۔ ان ”صاحبانِ دانش و بینش“ میں اکثریت ایسے حضرات کی ہے جنہوں نے سندھ کے سابق وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ پر کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ان تمام حضرات نے غلام حیدر وائیں، سردار عارف نکئی، دوست محمد کھوسہ کے عرصہ اقتدار پر نہ اُن کے سامنے اور نہ اب کبھی کوئی گفتگو کی ہے۔بس یہ سب اِس پہ متفق ہیں کہ کپتان سے عناد ہے،اس میں قصور ان کا بھی نہیں۔”عہدِ نو سے ڈرنا،طرزِ کہن پہ اڑنا“ کی کٹھن منزل ان سب کو درپیش ہے۔
عطاء اللہ خان عیسٰی خیلوی نے ”اچھے دن بھی آئیں گے یا ر“ کا پیغام جب اپنی پُرسوز اور پُر فسوں آواز میں پیش کیا تو اُن کی آواز اور لے ایک مرتبہ پھر محبوب ہوتی چلی گئی۔ لوک موسیقی کے اس شہنشاہ نے اپنے لیڈر کی ڈھارس اس لیے بندھائی کہ سَچے دوستوں اور مخلص ساتھیوں کا یہ شیوہ ہے وہ کٹھن لمحوں میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈھال بن جاتے ہیں بلکہ مثال ثابت ہوتے ہیں۔
عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی اللہ کریم کے فضل و کرم کے طفیل اور اپنے بے شُمار چاہنے والوں کی دعاؤں کے نتیجے میں صحت یاب ہو کر ماہِ صیام گزارنے کے لیئے عیسٰی خیل پہنچ گئے ہیں۔ یہاں انہوں نے اپنے گھر سے متصل اپنی بیٹی کے نام پر ”لاریب مسجد“ تعمیر کی ہوئی ہے جہاں رمضان المبارک کے دوران افطار اور نمازِ تراویح میں خصوصی اہتمام کیا جاتاہے۔ میانوالی میں اُن سے ملنا ہوا تو اُن کا کہنا تھا کہ ”عمران خان اُن سے جو محبت رکھتے ہیں اُس کا حاصل ایسے جذبات و احساسات ہیں جنہیں کبھی الفاظ کا جامہ پہنایا ہی نہیں جا سکتا۔وہ کہہ رہے تھے کہ میرا یقین ہے کہ پاکستان کو اِس وقت جن حالات کا سامنا ہے اُن سے اس قوم کو عمران خان ہی نکال سکتا ہے۔ عمران خان نے جب بھی جو کام کرنا چاہا سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ نہیں کر سکے گا۔ نا تجربہ کار ہے۔ نرالے ڈھب کا انسان ہے نہیں کر سکے گا اور پھر سب نے دیکھا کہ میرے کپتان نے اپنے اللہ کی مہربانی سے وہ سب کر دکھایا جو اُس نے کر نا چاہا۔
عیسیٰ خیلوی پاکستان تحریک ِ انصاف سے پہلے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر میں بھی عمران خان کے شانہ بشانہ تھے۔ وہ اپنے دوست اور لیڈر کی سرشت سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ پھر میانوالی کی مٹی کی تاثیر سوا ہے۔ اُس کی جدوجہد کی چھب ہمیشہ اپنے لباس اور مٹھاس میں بھی زرخیز رہی ہے۔ زندگی کی گرد میں لت پت ہونے کے باوجود اس کا پیراہن سُبک اور اُجلا رہتا ہے جیسے ہواؤں کی اُڑتی ہوئی ریت میں وہ خیمہ جس کو کھجور وں کے جھُنڈ نے گھیر رکھا ہو۔ پاکستان کی موجودہ سیاست اور خود پاکستان تحریک انصاف کے سیاست دانوں کے اژدھام کے اندر بھی وہ ایسا ہی ہے۔ خوش خرام ہے مگر بے سمت نہیں ہے۔ اس کی جدوجہد کے خدوخال اس قدر واضح ہیں کہ دنیا بھر میں اعتراف کیا جاتا ہے۔
ماضی میں پاکستانی حُکمرانوں پر ہر لمحہ لرزہ طاری کیے رکھنے والے واشنگٹن اور پینٹاگون کے ہرکارے اور ان کے مالکان ان دنوں جب اسلام آباد سے بات کرتے ہیں تو کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔ اس کا اعتراف امریکی کانگرس کے کئی ارکان برملا کر چُکے ہیں۔ یہ تبدیلی اس امر کا سندیسہ ہے کہ عالمِ آب و گُل میں، ژالہ باری میں، دوشِ ہَوا پر سوار کالی کالی گھنگور گھٹائیں کے برسنے سے، زمین کی اُگلی اور بکھری ہوئی رنگارنگ پیداوار میں، پہاڑوں، چٹانوں اور زیر زمین مدفن خزانوں میں فانوسِ لاہوتی کی چمک نظر آئے گی۔ وقت مُشکل اور مایوس کن سہی مگر جدوجہد کا دھارا حَسین سے حَسین ترکی تلاش کی جانب ہے۔ نئی تلاش اور تخلیق انسان ہی نہیں فطرت کا رُومان بھی ہے کہ
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم سے صدائے کن فیکون