وجود

... loading ...

وجود

انصاف کے نام پر ماجرا

پیر 08 اپریل 2019 انصاف کے نام پر ماجرا

ابھی اس انوکھے لاڈلے کو چھوڑیئے! جو معصوم بچوں کے درمیان ہمیں تعلیم کرتا تھا کہ اگر کوئی کرپشن کرتا ہے تو کرنے دیں، پانچ سال بعد عوام اُن کا احتساب خود کریں گے۔ قانون و انصاف کو ایسی انوکھی تعبیر دینے والے حمزہ شہباز کو اگلے زمانوں میں کوئی پاکستان کے مونٹیسکو سے کیوں نہ یاد کرے گا؟وہ حمزہ نیب کے چھاپے میں اپنے چنیدہ جتھے کو ڈھال بنا کر قانون کو اپنے گھر کی دہلیز پر اُٹھک بیٹھک کیوں نہ کروائے؟ پاکستان کی اشرافی ریاست میں جو بچے سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنے گھروں میں قانون کے رکھوالوں کو ہمیشہ کورنش بجالاتے اور نوکری کے بجائے نوکر ہوتے دیکھا ہو ، جنہوں نے منصفین کو بریف کیسوں سے بہلتے دیکھا ہو، جن کی تربیت سپریم کورٹ پر’’ انکلز‘‘ کے حملوں کو دیکھتے ہوئے ہوئی ہو، جو قیمتی کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے انصاف سے کھیلنے کے ماحول میں پروان چڑھے ہوں، جوپاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے خاندان میں زندگی کرتے ہوں ، اُن بچوں سے ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں؟قانون کی بالادستی کا خواب ابھی سچی آنکھوں کی تلاش میں ہے؟وہ معاشرے کب آگے بڑھتے ہیں جہاں قانون کے بجائے لوگ حکمران ہوں۔ جہاں انصاف کی تعبیر طاقت ور کے رہین منت رہتی ہو۔ یہ سادہ اُصول دنیا کے دیگر معاشروں نے ادراک کرلیا ۔ مگر ابھی پاکستان میں سادہ حقیقتیں پیچیدگیوں میں الجھی اور تعصبات میں لتھڑی ہوئی ہیں۔
چرچل نے کہا تھا :تمام عظیم چیزیں سادہ ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے اکثر ایک ایک لفظ میں بیان کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً آزادی، انصاف، احترام، فرض، رحم اور امید‘‘۔ عظمت کی تلاش میں پاکستانی قوم سادہ لفظوں میں بیان ہونے والے ان تصورات کی کج فہمی میں گم ہیں۔ انصاف! انصاف کیا واقعی اسے ایک لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے؟پاکستان میں یہ مفہوم دھجی دھجی بکھرا ہوا ہے۔ سترہویوں صدی کے اُس عظیم فرانسیسی جج اور سیاسی فلاسفر کویاد کرتے ہیں، جو حمزہ شہباز کی’’ تعلیمات‘‘ سے تو بہت’’ چھوٹا‘‘ ہے،مگر جن کے تقسیم اختیار ات کا تصور دنیا بھر کے دساتیر میں پرویا گیا۔ کیا اُسے بھی یقین تھا کہ قانون و انصاف کے ہمہ گیر نظریات انسانی جبلتوں سے شکست کھاتے رہیں گے، امیر خاندان کے بگڑے بچوں کے ہاتھوں بگڑتے رہیں گے، اگر نہیں تو پھر کیوں مونٹیسکوکہتا ہے:
’’قانون کی ڈھال کے نیچے اور انصاف کے نام پر ہونے والے ظلم سے زیادہ شدید ظلم کوئی نہیں‘‘۔
نیب کی ٹیم ایک بار پھر حمزہ شہباز کی گرفتاری میں ناکام ہو کر گھر لوٹی ہے۔ مگر اُن کے ساتھ انصاف کا تصور بھی کہیں دم سادھے پڑا ہے۔ غریبوں سے قانون کھیلتا ہے مگر امیر قانون سے کیسے کھیلتے ہیں؟ اس کا تماشا دیکھنا ہو تو گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں حمزہ شہباز نے نیب اور عدالتوں کے ساتھ جو کچھ کرکے دکھایا ہے، اُسے دیکھیے!سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ’’ انصاف‘‘ طاقت ور کا مفاد ہے۔
حقیقی معاشروں میں قانون کی عمل داری چھوٹوں سے نہیں بڑوں سے نافذ ہوتی ہے۔قانون کی قوت کا انداز ا اور انصاف کی بالادستی کا جائزہ طاقت ور کے ساتھ مقابلے میں ہوتا ہے۔ وہ انصاف جھوٹا ہے جو یکساں طور پر بڑوں پر نافذ نہیں ہوتا اور وہ قانون دھوکا ہے جو طاقت ور کے سامنے دبکا رہتا ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے دانشوروں نے اب سرمایہ دارانہ جمہوریت پر اپنے اضطراب کو ظاہر کرنا شروع کردیا ہے اور ایک دستوری جمہوریت کا خواب بُننا شروع کیاہے۔ مگر کسی دستوری جمہوریت کے خواب سے منسلک ہونے سے پہلے پاکستانی عوام کا دکھ یہ ہے کہ اُنہیں اپنی عدالتوں کے تیور کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ جو منصفین کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔ہماری عدالتیں ابھی بھی جسٹس ملک قیوم کے سائے سے باہر نہیں نکل سکیں۔ ابھی بھی تاریکیوں میں اور پردے کے پیچھے جاگتے چمگاڈروں نے انصاف کی امید کو اندھیرے کی مخلوق بنا رکھا ہے۔ آخر مافیا اور کیا ہوتی ہے ؟شریفوں نے ذرائع ابلاغ سے لے کر قانون وانصاف کی بارگاہوں تک جو نسل پروان چڑھائی وہ اُن کے بدترین دور میں بھی اُن کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور وہ اپنے اپنے مناصب کے تقاضوں سے زیادہ شریفوں سے اپنی وفاداری کے رشتوں کو نبھارہی ہے۔اس کے بیچ پاکستان داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مگر کیسے کیسے روشن لوگ اور چمکتی ذہانتیں اس تعصب سے بلند ہونے کو تیار نہیں۔ اس پوری نسل کو ایک زبردست محاکمے کے ساتھ بے دخل کیے بغیر ریاستی اداروں کو ایک آزادنہ چلن نہیں دیا جاسکے گا۔ نوازشریف کو ضمانت ملنے کے بعد سپریم کورٹ سے لے کر جیل کے عملے تک سب کے سب جس طرح اپنی ’’وفاداری‘‘ نبھانے میں لگے رہے، یہ سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہئے تھا۔ اب نیب کی تفتیش میں حمزہ شہباز شریف کے رویے نے اس سنگینی کو مزید بھیانک طریقے سے بے نقاب کیا ہے۔ طاقت سے سوچنے اور بگڑی عادتوں کی غلامی میں رہنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آدمی نزدیک کے فائدے میں دور کے نقصان سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ حمزہ شہباز نے بھی یہی کیا۔ اور اپنے اقدامات سے اپنے ہمدردوں کو بھی بے نقاب کردیا ۔ شکریہ حمزہ شہباز !!!
حمزہ شہباز کو جس طرح چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے تعطیل کے دن ضمانت دے کر اپنے حفاظتی حصار میں لیا۔ اُس نے ’’اتفاق ‘‘ کی طاقت کو مختلف اتفاقات سے بے نقاب کیا۔ لوگوں کے ماند حافظوں میں اچانک حدیبیہ پیپر کا مقدمہ اُبھرا۔ شریف خاندان کے گلے کا پھندا بننے والے اس مقدمے سے 2014 میں اُن کی جان جسٹس سردار شمیم کے فیصلے سے چھوٹی تھی۔ دورکنی بینچ میں سے ایک جج نے کیس دوبارہ کھولنے کی رائے دی تھی جبکہ دوسرے جج نے اِس کی بندش کا کہا تھا۔ تب یہ معاملہ ریفری جج کے طور پر جناب جسٹس سردار شمیم صاحب کے پا س آیا اور اُنہوں نے یہ کیس بند کرنے کا کہہ دیا۔ تب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نیب فوراً اپیل میں جاتی ۔ مگر تب چیئرمین نیب قمر الزماں چودھری تھے ۔ اور وہ بنیادی طور پر پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات کو انتہائی خاموشی سے ختم کرنے کے مشن پر مامور تھے۔ اُنہوں نے ان مقدمات سے ’’سانپ بچھو ‘‘نکالنے میں قانونی طور پر دونوں جماعتوں کے قائدین کی خوب خوب مدد کی۔ اس مرحلے پر چیئرمین نیب قمر الزمان چودھری نے اپیل کی مدت کو خاموشی سے گزرنے دیا۔ حدیبیہ کیس شریف خاندان کے لیے ایک حقیقی خطرہ تھا۔ اس میں شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کی منی ٹریل تھی اور لندن فلیٹ کی خریداری کا سراغ بھی اسی مقدمے کی تہہ داریوں سے ملتا تھا۔ اسی میں اسحاق ڈار کا پینتالیس صفحات پر مشتمل وہ اعترافی بیان بھی موجود تھاجس میں اسحاق ڈار نے شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے متعلق تمام حقائق افشاء کردیے تھے اور نوے کی دہائی میں کھلنے والے تمام جعلی اکاؤنٹس نے جس طرح لندن فلیٹس کو جنم دیا تھا ، اُس کی ایک ایک کڑی کڑی کو جوڑ دیا تھا۔ جعلی اکاؤنٹس کھلنے کی تفصیلات سے لے کر شریف برادران کی مختلف مواقع پر ملنے والی ہدایات تک اُن کی زبانِ مبارک سے جاری ہوگئی تھی۔داتا دربار کو غسل دے کر بدعنوانی کے جوہڑ میں ڈبکیاں لگانے والے اسحاق ڈار کے اسی اعترافی بیان کے خوف میں بعدا زاں ڈار اورشریف خاندان قریب سے قریب تر آتے گئے یہاں تک کہ خاندانی رشتوں میں جڑ گئے۔ نوازشریف جب اپنی وزارتِ عظمیٰ میں پاناما کیس کے دلدل میں دھنس رہے تھے تو اُنہوں نے شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ میں سب سے پہلے اسحاق ڈار کو ملک سے باہر نکالا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔ اور اُن کے تفتیشی اداروں کے ہتھے لگنے سے تفتیش کے بہت سے جھمیلے خود بخود اور آناً فاناً سمٹ جانے تھے۔ پاکستان اب برطانیا سے اسحاق ڈار کو واپس لانے کے لیے انٹر پول سے رجوع کرچکا ہے مگر شریف خاندان اُنہیں بچانے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اور اس کے لیے برطانیا پر اثرانداز ہونے والے تمام عالمی رابطے اور ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ اس ساری تگ ودو میں برطانوی حکومت اپنا دامن مسلسل چھڑا رہی ہے۔تفصیلات کی یہ جہت ایک طرف! درحقیقت حدیبیہ مقدمے کے خاتمے کی منظم منصوبہ بندی میں تب جسٹس سردار شمیم کا کردار بھی بہت سے حلقوں میں زیر بحث رہا۔ اب یہ بھی اتفاق کی برکت ہے کہ جسٹس سردار شمیم کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے منصب پر جلوہ افروز ہونے کے بعد شریف خاندان کی راحت کے جوبھی سامان ہوئے وہ اُس بینچ سے ہوئے جس میں ایک جج لازمی طور پر اس کا حصہ رہے۔ شہباز شریف کی ضمانت ،اُن کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم، حمزہ شہباز کو راحت دینے اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کے فیصلے اُسی بینچ سے آتے رہے۔
حمزہ شہباز کے اس خاص مقدمے میں قانونی ماہرین کی یہ تشریح موجو دہے کہ یہ مقدمہ کسی بھی طرح چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نہیں سن سکتے تھے۔ پھرحفاظتی ضمانت میں عام طور پر ملزم کو عدالت کے روبرو پیش ہونا پڑتا ہے، مگر حمزہ شہباز کے پیش ہوئے بغیر ہی اُنہیں ضمانت مل گئی۔ اس ضمانت کا پہلا اشارہ سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے قبل ازوقت اُسی روز دیا۔ کیوں نہ ایک خطاب حمزہ شہباز اب پوری قوم سے کریں جس کے الفاظ کچھ یوں ہوں کہ’’ اے بے وقوفوں ، بیس کروڑ گدھوں اگر کوئی قانون روندتا ہے، انصاف کو یرغمال بناتا ہے تو اُسے بنانے دو، پانچ سال کے بعد اس کا فیصلہ بھی عوام کردیں گے، جو کوئی اور نہیں آپ خود ہو‘‘۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر