... loading ...
کابل کے شور بازار کے معروف علمی و روحانی حضرات گھرانے کے صبغت اللہ مجددی 11 ؍فروری کو 93 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے ، خطاؤں ا ور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ افغان سرکردہ جہادی رہنماؤں سے تعارف اپنے قبلہ محترم مولانا نیاز محمددرانی مرحوم کے طفیل ہوا۔جنہوں نے زندگی کا ایک بڑاحصہ مفلوک الحال افغان مہاجرین کی خدمت میں بسر کیا۔ والد محترم کے انجینئر گلبدین حکمت یار ، مولوی یونس خالص، برہان الدین ربانی سمیت سب ہی قائدین سے اچھے تعلقات تھے۔ محاذ ملی کے سربراہ پیر سید احمد گیلانی،حرکت انقلاب اسلامی کے امیر محمد نبی محمدی، اور نجات ملی کے صبغت اللہ مجددی سے تعلق محبت اور دوستی کا تھا۔ والد کے ہمراہ مولوی محمد نبی کی دعوت میں شریک ہوا ہوں۔ پیر سید احمد گیلانی اور صبغت اللہ مجددی کو دیکھنے کا شرف اپنی رہائشگاہ پر حاصل ہوا ہے کہ والد کی دعوت پر عشائیہ میں شریک ہوئے تھے۔ گو کہ صبغت اللہ مجددی کی جماعت چھوٹی تھی لیکن وہ افغانستان کی سیاست اور جہاد میں روسی قبضہ کے خلاف نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعد پشاور معاہدہ کی رو سے مجددی مرحوم 24 ؍اپریل 1992 کو دو ماہ کے لیے افغانستان کے عبوری صدر بنائے گئے۔ بے اختیار اور زیر اثر قسم کے صدر تھے۔ سابق کمیونسٹ رجیم و شمال کی قوتوں کے مکمل حصار میں تھے۔ کابل ایئر پورٹ پر ان کا طیارہ راکٹوں سے نشانا بھی بنایا گیا۔ کمیونسٹ دور کے جنرلوں کو ترقیاں دیں۔ رشید دوستم کو جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ انہیں اقتدار کی خواہش بہت زیادہ تھی اس غرض کے لیے دانستہ و نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن گئے جس کا مقصد افغانستان میں خود مختار حکومت نہ بننے دینا اور بالخصوص حزب اسلامی کو کسی بھی صورت اقتدار سے دور رکھنا تھا۔اپنی صدارت کے دنوں ہی میں مجددی نے گلبدین حکمت یار کے موقف ،رائے اور خدشات کو درست تسلیم کر لیا ۔بلکہ یہ بھی کہا کہ حکمت یار قول و قرار اور عہد و پیمان کے پابند و سچے ہیں ۔ گویاجن کے خلاف سالوں جنگ کی گئی ،مجددی جیسے کمزور اعصاب کے حامل رہنماء ان کی حرص اور خطاؤں سے، وہ پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے۔ان کمیونسٹ عناصر ہی نے اپریل 1978 ء میں اقتدار پر قبضے کے بعد مجددی خاندان پر خُونی وار کیا تھا ، خاندان کے معزز و بزرگ قتل کر دیے گئے ۔
صبغت اللہ مجددی شور بازار کے حضرات خاندان کے فرد تھے۔یہ خاندان اپنا سلسلۂ نسب خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطاب کی نسل سے بتاتا ہے۔ اس خاندان کا افغانستان کی سیاست میں طویل عرصہ اہم عمل دخل رہا۔ کابل کے شور بازار میں رہائش کی بناء پر انہیں شور بازار کے حضرات کہتے ہیں۔ وقت کی وہ معروف شخصیات احتراماً شاہ آغا، شیر آغا اور گل آغا کے نام سے یاد کیے جاتے۔ شاہ آغا (فضل عمر مجددی) کے بڑے بھائی تھے۔ دوسرے نمبر پر شیر آغا(فضل محد مجددی) اور تیسرے نمبر پر گل آغا تھے۔ حکومت نے اولاالذکر کو نُورالمشائخ اور ثانی الذکر کو شمس المشائخ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد بھی اسی طرح کے مقام و مر تبے کی حامل شخصیت تھے۔
امیر افغانستان حبیب اللہ خان کے لغمان میں تفریح کے دوران پُر اسرار قتل کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کیلئے تگ و دو شروع ہوئی۔ مختصر کھینچا تانی کے بعد امان اللہ خان کی امارت پر اتفاق ہوا۔ کابل کی عید گاہ مسجد میں شاہ آغا نے ایک ریشمی پگڑی قندھاری ٹوپی پر باندھ کر امان اللہ خان کی تاج پوشی کی۔ شاہ آغا اور شیر آغا 1919ء کی تیسری اینگلو افغان جنگ جو جنرل نادر خان کی قیادت میں لڑی گئی تھی میں عملاً شریک تھے جس میں اپنے خطابت کے حوالے سے مشہور’’ بابڑہ ملا‘‘ بھی شامل تھے۔ان علماء و عظام کی تقریروں،شرکت، اوردعوت کے سبیل ہزاروں افغان انگریز کے خلاف لشکر میں شامل ہوگئے ۔ یوں افغانستان فتح مند ہو ا ۔ شاہ آغا نے 19 نومبر 1920 کو کابل کی جامع مسجد میں بڑے اجتماع سے خطاب میں امان اللہ خان کو مسلمانوں کا سربراہ قرار دیا کہ وہ اب مسلم دنیا میں واحد آزاد حکمران رہ گئے ہیں اور انہیں خلیفہ کی حیثیت حاصل ہے اور کہاکہ ہر مسجد میں امان اللہ خان کے نام کا خطبہ پڑھا جانا چاہیے۔ شاہ آغا 1923 میں انتقال کر گئے۔ جس کے بعد خاندان کے سربراہ شیر آغا ٹھہرے۔ امان اللہ خان کے نئے ’’نظام نامہ‘‘ کے خلاف ملک میں شوراُٹھا۔ شیر آغا اعتراض کرنے والوں میں شامل تھے۔ جوامان اللہ خان کی پالیسیوں سے نالاں ہوکر افغانستان چھوڑنا چاہتے تھے۔گل آغا پابند سلاسل کر دیے گئے۔ چناں چہ معاہدے کے تحت شیر آغا حج کی ادائیگی کیلئے چلے گئے۔ حج کرنے کے بعد افغانستان کی بجائے ہندوستان چلے گئے۔ رفتہ رفتہ امان اللہ کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگیں نکلتی گئیں۔ یوں انہیں اقتدار چھوڑ کر عافیت ڈھونڈنی پڑی۔ اقتدار اپنے بھائی عنایت اللہ کے حوالے کردیا۔حضرات خاندان کے گل آغا جو بدستور کابل میں مقیم تھے نے 4 ؍ جنوری 1929 ء کو اس کی تاج پوشی کی۔چوں کہ اس خاندان پر لرزہ طاری تھا۔ چناں چہ حبیب اللہ عرف بچہ سقہ جو راہزن کے طور پر شہرت رکھتے تھے نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
نادر خان اپنی خود ساختہ جلا وطنی ترک کر کے ا فغانستان پہنچ گئے۔ اور اپریل 1929 میں بچہ سقہ کو اقتدار سے بیدخل کرکے چند دن بعد سر عام پھانسی پر لٹکایا۔ شیر آغا بھی آگئے، جس نے کہا کہ بچہ سقہ افغانستان پر حکومت کرنے کا قطعی لائق نہیں اور کہا کہ امان اللہ خان اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہیں۔ نادر خان کی بادشاہت میں شیر آغا وزیر عدل بنا ئے گئے مگر وہ عہدہ چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگئے۔ چھوٹے بھائی گل آغا کوقاہرہ میں سفیر بناکر بھیجا گیا۔ گویا اس خاندان کا سیاسی اثرو رسوخ ،شاہ نادر خان کے دور میں رفتہ رفتہ کم ہوتاگیا۔ لمبے عرصے بعد خاندان میں صبغت اللہ مجددی سیاسی طور پر نمایاں ہوئے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد صبغت اللہ مجددی کابل پہنچ گئے۔ امریکی چھتری تلے بننے والی حکومت کا حصہ بن گئے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ مگر اس پورے منظر نامے میں وہ پس منظر میں دکھائی دیے۔ قابض امریکا کا ساتھ دینے پر انہیں تاریخ میں اچھا یاد نہیں کیا جا ئے گا۔ الغرض صبغت اللہ مجددی کے بعد اس خاندان میں اس سطح کا سیاسی و روحانی رہنما نہیں رہا۔