... loading ...
دوستو، پندرہ ،سولہ سال قبل اسی عنوان سے جرأت میں لکھا کرتا تھا، یہ اپنے وقت کا سب سے ہٹ سلسلہ تھا، جس کی شہرت کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوا کہ دوتین ماہ لکھنے کے بعد جب ہم نے کالم لکھنا بند کیا تو ہمیں انتظامیہ نے کہا کہ کالم لکھیں، ہم نے کہا اور بھی کام ہیں زمانے میں کالم کے سوا۔۔ جس پر ہمیں جرأت کی تاریخ میں پہلی بار کالم لکھنے کا معاوضہ ملنے لگا تھا۔۔ ہمیں جب پیسے ملنے لگے تو پھر سے لکھنا شروع کردیا، اور اس وقت تک لکھتے رہے جب تک جرأت میں جاب کرتے رہے۔۔ یہ سلسلہ دو،تین سال چلا۔۔ آج سے ہم پھر کالم کاآغاز کررہے ہیں، ہفتے میں تین بار آپ لوگوں کی خدمت میں حاضریاں دیں گے، یہ مکمل غیرسیاسی کالم ہوگا، جس میں صرف اور صرف ہماری اوٹ پٹانگ باتیں ہوں گی، جس سے آپ لوگوں کامتفق ہونا ضروری نہیں۔۔آپ بس انجوائے کریں اور آج سن ڈے کو فن ڈے بنائیں۔۔
نمونے انہیں کہاجاتا ہے جنہیں ہم عام طور پر پسند نہیں کرتے، اس لئے ان کا ’’توا‘‘ لگانے کے لیے طنزیہ انہیں نمونے کہہ دیتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست ایسی لڑکیاں جو انہیں پسند نہ آئے انہیں نمونیا کہتے ہیں۔۔ حالانکہ نمونیا تو ایک مشہور بیماری کا نام ہے۔۔اس بیماری سے ہمیں اس وقت بہت شدید تکلیف ہوتی تھی جب اسکول میں ٹیچر اس کی اسپیلنگ پوچھتی تھیں۔۔۔اس بیماری کی اسپیلنگ ہمیں آج تک یاد نہیں ہوسکی۔۔کہتے ہیں کہ اسپتال کی نوکری بھی بدترین ہوتی ہے بندہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا ۔۔میں بیمار ہوں، آ نہیں سکتا۔۔۔ویسے سچ پوچھا جائے تو محبت اور نوکری تقریباً تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے، بندہ کرتا بھی رہتا ہے اور روتا بھی رہتا ہے۔۔۔یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ ایمبولنس ہو یا بارات دونوں کو جلدی راستہ دے دینا چاہئے کیونکہ دونوں ہی زندگی کی جنگ لڑنے جا رہے ہوتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ چھوٹے قد کے لوگ ذہین کیوں ہوتے ہیں۔۔جاپانی، کورین لوگ ذہانت کی انتہا پر ہیں، ہر نئی چیز وہاں ڈیزائن ہورہی ہوتی ہے۔۔ جب ہم نے باباجی سے یہی سوال کیا تو انہوں نے مسواک کرتے ہوئے جواب دیا کہ۔۔ چھوٹے قد کی وجہ سے ان کے دماغ میں بلڈ سرکولیشن تیزتیز ہوتی ہے کیوں کہ خون سرتک جلدی پہنچ جاتا ہے اس وجہ سے دماغ چلتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست جب بیمار ہوئے تو ڈاکٹر کے پاس گئے، واپسی پر منہ لٹکا ہوا تھا، ہم نے پوچھا سب خیریت تو ہے، کہنے لگے۔۔ ڈاکٹر نے بچوں والی غذا کھانے کا کہا ہے اب سمجھ نہیں آرہی کہ میں مٹی کیسے کھاؤں۔۔ڈاکٹرپر یاد آیا،ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے اپنے ایک بھلکڑڈاکٹر دوست کا سچا واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔۔ بھلکڑ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد مریض سے اس کی طبیعت کا پوچھا،مریض نے جواب دیا کہ ۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سینے میں ایک کی بجائے دو دل دھڑک رہے ہوں۔۔بھلکڑڈاکٹر نے جلدی سے اپنا دایاں ہاتھ دیکھا اور کہا۔۔ اوہو۔ میں سوچ رہا تھا آخر میں اپنی گھڑی کہاں رکھ کر بھول گیا ہوں۔۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ۔۔ سورج کی روشنی سے وٹامن ڈی ملتا، پوچھنا یہ تھا کہ موبائل کی روشنی سے کونسا وٹامن ملتاہے؟
باباجی نے ایک دن باتوں باتوں میں ہمیں مشورہ دیا کہ۔۔ اگر کوئی تمہیں چلغوزے کے منہ والا کہے تو جان لو تم بہت قیمتی ہو۔۔۔وہ ہمیں ہر ملاقات میں کھانے پینے کی مقدار میں اضافے کا بھی کہتے ہیں، انہیں ڈر رہتا ہے کہ ہم صحت مند نہیں، ہماری صحت گری ہوئی ہے، ہم کمزوری کا شکار ہیں۔۔۔حالانکہ ایسا بالکل نہیں، ہر بار انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہماری ’’کاٹھی‘‘ ایسی ہے کہ ہم جتنا کھائیں ہمیں نہیں لگتا۔۔جس پر ان کا کہنا ہوتا ہے کہ یار، چھوٹے فریج کا دروازہ بھی چھوٹا ہے اس میں سامان رکھنے کی جگہ بھی چھوٹی ہوتی ہے، اسی طرح بڑے فریج کا دروازہ بھی بڑا ہوگا اور اس میں سامان رکھنے کی گنجائش بھی زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح انسانوں کا حال ہوتا ہے، انسان جتنا کمزور ہوگا اس کا معدہ بھی کمزور ہوگا، انہوں نے موٹا ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا کہ ۔۔موٹے لوگ موبائل کی سکرین پیٹ سے رگڑ کا صاف کر لیتے ہیں۔۔ہم نے باباجی کو یہ بھی بتایا کہ ،ہم بچپن میں بہت طاقت ور تھے، ہماری ماں بتاتی تھی کہ ہم رورو کے ساراگھر سر پر اٹھالیتے تھے۔۔
لاہور کی طرح کراچی بھی سردی کی لپیٹ میں ہے، لاہور میں ہم پونے تین سال رہے، اس دوران وہاں پڑنے والی سردی اور گرمی دونوں کا لگ پتہ گیا۔۔باباجی نہانے کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ، ایک نیوزچینل پر سردی سے تین لوگوں کی موت کی خبر سن کر واپس کپڑے پہن لیے،اور خود کہنے لگے۔۔بیٹا زندہ رہے تو گرمیوں میں نہالیں گے۔۔باباجی اپنے بچپن کی واقعات کا پٹارہ کھول کر بیٹھے تھے، کہنے لگے، ہمارے ایک ٹیچر روز ہمیں کہتے تھے، تمہاری عمر میں قائد اعظم نے میٹرک کرلیا تھا،ایک دن ہم نے بھی تنگ آکر کہہ ڈالا۔۔ سر آپ کی عمر میں بھٹو پھانسی چڑھ گیا تھا۔۔باباجی مزید فرماندے نے۔۔ایک دن کلاس میں بہت شور ہورہا تھا، اچانک ٹیچر نے انٹری ڈال دی، ہمیں کھڑا کرکے پوچھا۔۔کلاس میں شور کون کررہا تھا۔۔ ہم نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔مجھے کیا پتہ سر، میں تو اپنی باتوں میں لگاہواتھا۔۔باباجی کا کہنا ہے۔۔سب لوگ دل کے برے نہیں ہوتے کچھ لوگوں کا ساتھ میں دماغ بھی خراب ہوتا ہے۔۔
ایک سردار نے بیٹے سے پوچھا 9 کو 8 سے ضرب دی جائے تو جواب کیا ہوگا۔۔بیٹے نے جواب دیا،ستتر۔۔سردار نے بیٹے کو تھپکی دی اور ساتھ ہی جیب سے چاکلیٹ نکال کر اس کے ہاتھ پہ رکھ دی۔۔پاس ہی موجود ایک صاحب بولے۔۔جواب تو ’’بہتر‘‘ہے آپ نے انعام کیوں دیا ؟سردار جی بولے یہ بہت تیزی سے بہتر ہو رہا ہے. پچھلی بار اس نے 88 کہا تھا۔۔ایک بار لاہور میں کچھ دوست ایک ریسٹورینٹ پہ گئے۔۔ویٹر آرڈر لینے آیا۔۔دوستوں نے کہا جو مہمان کہے لے آؤ۔۔ویٹرنے مہمان سے مسکراکر پوچھا۔۔کیا لاؤں جناب؟؟۔۔مہمان نے سراٹھا کر کہا دو کلو مٹن کڑاہی، ہلکی کالی مرچ میں، روغنی نان اور ہمدردی کے دو بول۔۔کچھ دیر سارے دوست باتوں میں مگن رہے، اتنے میں ویٹر سارا آرڈر لے آیا۔۔تازہ لگے نان اور کالی مرچ کی کڑاہی کی بھینی بھینی خوشبو نے بھوک اور بھی بڑھا دی تھی،کھانے پر ٹوٹنے ہی والے تھے کہ ویٹر کی آواز نے سکوت توڑا۔۔اور کیا کہا تھا آپ نے۔۔۔مہمان نے دانت نکالتے ہوئے کہا، اور ہاں ۔۔ہمدردی کے دو بول۔۔ ویٹر نے ادھرادھر نظر دوڑائی اور اپنا منہ مہمان کے کان کے پاس کر کے بولا۔۔۔نا کھائیں ۔۔ کھوتا
ہے۔۔۔ لڑکیاں شادی میں دو پلیٹ بریانی، ایک پلیٹ قورمہ، ایک پلیٹ سیخ کباب، ایک پلیٹ چکن کڑاہی ، دو پلیٹ فیرنی اور کولڈ ڈرنک کے بعد۔۔۔ہائے امی جی پیٹ میں درد ہورہا ہے۔۔امی کا آگے سے جواب آتاہے۔۔کہا بھی تھا مت پہنو لال جوڑا، لگ گئی ناں نظر۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک سرکاری ملازم نے سائیکل خریدی جس کا کیریئر نہیں تھا۔اس نے بیٹے کو دُکان بھیجا کہ درست کرالے،جب سائیکل واپس آئی تو اسٹینڈ غائب۔۔دُکاندار نے دریافت پربتایاکہ گورنمنٹ کی نوکری میں ایک چیز مل سکتی ہے۔اگر ’’اسٹینڈ‘‘ لوگے تو ’’کیریئر ‘‘ختم اور اگر’’ کیریئر ‘‘بنانا ہے توکبھی’’ اسٹینڈ‘‘ مت لینا۔