وجود

... loading ...

وجود

وزیر اعلیٰ مخالف ریشہ دوانی

پیر 21 جنوری 2019 وزیر اعلیٰ مخالف ریشہ دوانی

جام حکومت کے خلاف اندریں شورُ اٹھانے اور فضاء بنانے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں۔ سرِدست ان لوگوں کو شرمندگی کا سامنا ہوا ہے۔ یقیناًجام کمال خان کی چند مجبوریاں ہیں وگرنہ شاید یہ لوگ موجودہ مقام پر بھی نہ ہوتے۔دیکھا جائے تو حالات جنوری 2018 ء جیسے نہیں ہیں۔ ان صاحبانِ بے خِرد کو معلوم ہونا چاہیے کہ تب مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ صوبے میں بھی وزیراعلیٰ نواز لیگ کے تھے۔ ماحول پوری طرح نواز لیگ کے خلاف بنا ہوا تھا۔ اور پھر جو کچھ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے ہوا وہ ساری بازی بڑے کھلاڑیوں کی تھی جس کے فرنٹ پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی تھے۔ امروز وہ حالات ہرگز نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جام کمال کے خلاف ریشہ دوانیوں سے گریز کیا جائے۔ اور اگر بلوچستان کی حزب اختلاف ایسا چا ہے بھی تو وہ ناقص العقل نہیں کہ حکومت کی کُنجی اُٹھا کر کسی ناموزُوں شخص کے ہاتھ میں تھمادے۔ جام کمال کے خلاف بہت کچھ بولا جارہا ہے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بلا جواز پروپیگنڈا جاری ہے۔ اخبارات میں مختلف ذرائع سے خبریں لگوائی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ اول روز سے یعنی جب انہوں نے وزرات اعلیٰ کا حلف اُٹھایا تب سے جاری ہے ۔ وہ خاطر ملحوظ رکھے اور احترام کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ چنانچہ جام کمال خان کو لب کُشائی کرنی ہی پڑی۔
12 جنوری کو برقی ذرائع ابلاغ پر اور 13 جنوری کو اخبارات میں وزیراعلیٰ جام کمال کا جوابی وار ان الفاظ پر مشتمل تھا کہ ”ماضی میں بے دردی کے ساتھ پی ایس ڈی پی اور ترقیاتی منصوبوں میں غفلت کا برتا جانا، نوکریوں کی فروخت، تعلیم اور صحت کے اداروں کو تباہ کیا جانا، سیٹلمنٹ کے نام پر لاکھوں ایکڑ اراضی کے ریکارڈ میں ردو بدل اور کرپشن کووزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے نچلی سطح تک لے جانا اصل میں بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ ہے اور اس صورتحال کے ذمہ داران چند لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے اور ان کی بے چینی بڑھ رہی ہے اور شاید انہیں پتہ ہے کہ وہ کن کن معاملات میں ملوث رہے ہیں”۔ جام کمال کا اپنے خطاب میں جن کی جانب اشارہ ہے وہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہاں ضروری ہے کہ حزب اختلاف بھی اچھی پارلیمانی روایات کے ساتھ چلے ، اچھی طرزِ سیاست کا عملی مظاہرہ کرے، کہ کہیں حزب اختلاف کو بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر کے بعض لوگ اپنے مفاد،اہداف و ترجیحات کے لیے استعمال نہ کریں۔ حزب اختلاف بے وقت اپنی توانائیاں صرف ہونے نہ دے۔ ابھی تک تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج کو عوامی رنگ نہ دے سکی ہیں۔ سارا احتجاج بیانات اور ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ ایم ایم اے گویا باقی نہیں رہی ۔ محض نام کا استعمال ہو رہا ہے۔ امکان ہے کہ جماعت اسلامی حزب اختلاف کی تحریک میں شریک نہ ہو ۔کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ بد عنوانی کے خلاف اقدامات اٹھانے چاہیے۔ ان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بھی واضح کردیا ہے کہ احتساب کا موجودہ سارا عمل ادھورا، ناقص بلکہ یکطرفہ ہے۔
حالیہ مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ ایک ہی جیسے جرائم میں حکومتی کیمپ کے سیاستدانوں سے مکمل چشم پوشی احتسابی عمل کو مشکوک بنارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بد عنوان عناصر کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ مجلس شوریٰ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امتیازی قوانین کی طرح امتیازی احتساب عدل وا نصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور یہ ظالموں کو مظلوم بنانے اور بد عنوان عناصر سے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے بد عنوانی کے خلاف مہم کے اگلے مرحلے کا اعلان بھی کیا۔ گویا جماعت اسلامی انتقام کی بجائے حقیقی اور بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ حکومت میں شامل لوگوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا بھی انتقام کے بجائے حقیقی احتساب ہو۔ پاناما میں شامل لوگوں کے خلاف جماعت اسلامی عدالت میں گئی۔ تحریک انصاف نے بھی عدالت سے رجوع کیا۔ تاثر ایسا بنا ہے کہ یہ رجوع دونوں جماعتوں کے باہمی اتفاق سے ہوا۔ حالانکہ ایسانہ تھا۔ جماعت اسلامی بہت پہلے بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کرچکی تھی ، گویا جماعت کی مہم غیر محسوس انداز میں ٹریپ کردی گئی ۔ اس کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف نے اُٹھایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلا می انہی دنوں معاملے کو صاف کرتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کی جنگ میں شریک نہ ہوگی۔ وہ برابر حکومت کی کارکردگی پر اعتراضات و سوالات اُٹھارہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کے لوگوں کا احتساب، نیز نواز لیگ ، پیپلز پارٹی خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو سمیت سیاسی و غیر سیاسی بد عنوان عناصر پر گرفت کا مطالبہ کرتی ہے۔ لہٰذا اس جماعت کا حزب اختلاف کی کسی تحریک و ایجی ٹیشن کا حصہ بننا دکھائی نہیں دیتا۔
غرض بلوچستان کے اندر حزب اختلاف کو قدم ہوش مندی کے ساتھُ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ 31 دسمبر2018 کو کوئٹہ کے حلقہ 26 پر ہونیوالے ضمنی انتخاب کو جمعیت علما ء اسلام ف کے امیدوار مولاناولی محمد ترابی نے دھاندلی زدہ کہا۔حالاں کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ووٹ کی طاقت سے جیتی ہے۔ البتہ دھاندلی جے یو آئی کے اندر سے ہوئی ہے۔ اول تو یہ ووٹر زکو نکالنے میں ناکام رہی۔دوئم اس جماعت کے بعض سرکردہ اپنے زیر اثر افراد، احباب و متعلقین کو ہدایت کرتے رہے کہ وہ مولانا ترابی کو ووٹ نہ دیں۔ یہ بات کسی شک اور اندازے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ جے یو آئی کے اندر کے لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر