... loading ...
مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی بھارتی تخریب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا ۔ایک بھارتی مبصر’’ سبرا مینیم سوامی ‘‘ جن کا شاید آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق ہے نے پندرہ جون 1971ء کی ڈیلی مدر لینڈ میں لکھا تھا کہ’’ پاکستان کے مٹ جانے سے ہندوستان کی خارجی و داخلی سلامتی مستحکم ہو گی ۔ ہندوستان کو ایک بڑی طاقت بننا ہے جس کیلئے پاکستان کا ختم ہونا ضروری شرط ہے ۔‘‘16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا ،بنگلہ دیش سے بڑھ کر بھارت میں جشن کا سما ں تھا ۔ بھارت کی سرحدیں بنگلہ دیش کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ جس کا فائدہ اُٹھا کر اُس نے جاسوسی کا جال بہت پہلے ہی پورے بنگلہ دیش میں پھیلا رکھا تھا۔ اس غرض کے لیے صحافی ،تاجر ،طلباء ،دوسرے ممالک کے شہریوں ، ملٹی نیشنل اداروں اور غیر سرکاری و بین الاقوامی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھرتی کر رکھا تھا۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی مدد و تعاون بھی بھارت کو حاصل تھی ۔ اگرچہ 1967ء میں اگرتلہ سازش کا راز افشاء ہوا، تاہم معلوم طور پر یہ منصوبہ بندی 1964ء میں کی گئی تھی ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ علیحدگی کے منصوبے پر اس سے بھی پہلے کام شروع کیا جا چکا تھا۔ اگرتلہ منصوبے کے تحت چھاپہ مار باغی تنظیم کا قیام وجود میں لانا تھا جس نے پاکستان کے فوجی و دوسری تنصیبات کو نشانابنانا تھا۔ 70ء کے عام انتخابات کے بعد کچھ بھی راز نہیں رہا۔ مکتی باہنی کے کرنل عثمانی کی قیادت میں ایک لاکھ بنگالی نوجوانوں کو عسکری تربیت دے کر مطلوب علاقوں میں پھیلا دیا گیا۔بنگلہ دیش کی پولیس بھی اس فورس کا حصہ بن گئی تھی ۔
انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد شیخ مجیب الرحمن’’ بنگلہ جمہوریہ ‘‘کے الفاظ ادا کرنے لگے۔ دس جنوری 1971ء کو اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں بنگلہ دیش مبارک ہو۔ یقیناًملک بھارتی سازشوں اور فوجی حملے کے نتیجے میں ٹوٹا لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس میں ہماری حماقتیں ، بد عنوانیاں ہوس اقتداراور بالادستی کے رویوں کا بھی عمل دخل تھا۔ چناں چہ اس کے بعد بھی بھارت نے پاکستان کے اندر سیاسی قوتوں کو ریاست کے خلاف اُبھارنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ گویا ستر کی دہائی میں سندھ ،،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے اندر بنگلہ دیش جیسی مماثلتیں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ان صوبوں میں شرارتیں ہوئیں۔ البتہ بلوچستان میں اس شورش کی شدت زیادہ تھی۔ افغانستان میں تربیت کے کیمپ قائم کیے گئے اور پناہیں دی گئیں۔ وہاں ان علیحدگی پسندوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوتی، جس میں یہاں کے سیاسی لوگ شریک ہوتے۔ بلوچستان کے ایک پشتون رہنما ایوب اچکزئی 1950ء میں افغانستان گئے اور پورے دس سال کابل میں مقیم رہے ۔مگر اپنی صلاحیتیوں اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔گویا بھارت اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ نوے کی دہائی میں پھر بلوچستان کے اندر بڑی خاموشی سے بلوچ نوجوانوں پر کام ہوا۔ اکا دکا واقعات شروع ہوئے ۔ اکتوبر2001ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بھارت بھی افغانستان میں آکر بیٹھ گیا۔ تب علیحدگی کا نعرہ بر سر عام بلند ہوا۔ماردھاڑ اور بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نواب مری کے بیٹے بالاچ مری ، حیربیار مری اور زمران مری ان کے لیڈر بن گئے۔ نومبر2007ء میں بالاچ مری کا انتقال افغانستان میں ہوا۔
پچھلے دنوں (25دسمبر2018ء) اہم شدت پسند کمانڈر اسلم اچھو قندھار کے خواص کے علاقے ’’عینو مینہ‘‘ میں ایک خودکش حملے میں نشانا بن گئے۔ ان کے ہمراہ دوسرے اہم کمانڈرز بھی زندہ نہ رہے۔ بی ایل اے نے اسلم اچھو کی موت کی تصدیق کردی ۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ عرصہ 25سال سے اس راہ پر تھے۔ اندازہ کیجئے کہ بلوچستان کے اندر پچیس سال قبل اس نوعیت کی فعالیت کا آغاز ہوا تھا ۔ اسلم اچھو ان کے ہاں ایک ماہر عسکری کمانڈر اور استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ فروری2016ء میں سبی کے قریب سانگان کے پہاڑوں میں فورسز کی کارروائی میں زخمی ہوکر افغانستان پہنچ گئے۔ ازیں بعد نئی دہلی میں مزید علاج کرایا۔ ان کی اور ڈاکٹر اللہ نذر کے گھر کی خواتین کو افغانستان جاتے ہوئے چمن سرحد پر روک لیا گیا تھا۔ گویا اسلم اچھو کا قندھار میں مارا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔ امریکی قبضے کے بعد ٹی ٹی پی وغیرہ کی عفریت بھی پیدا ہوئی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بنگلہ دیش کا قیام امریکی سی آئی اے کے منصوبے میں بھی شامل ہوگیا تھا۔ جونئی نسل کو الگ ملک کے قیام کو ان کے مسائل کا واحد حل بتاتی۔چناں چہ اب’’ را ‘‘اور’’ سی آئی اے‘‘ افغانستان میں بھی اکٹھی ہیں ۔افغان’’ این ڈی ایس‘‘ ان کی طفیلی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے خیبر پشتونخوا میں البتہ اس نوع کی غلطی کا اعادہ نہ کیا۔انتقاماً اس جماعت پر ٹی ٹی پی چھوڑی گئی۔ ان کے درجنوں کارکن بہی خواہ اور رہنماؤں کو پیوند خاک کیا گیا۔ یہاں تک کہ اسفند یار ولی پر بھی خودکش حملہ کرایا گیا۔ ممکن ہے کہ اے این پی کی قیادت کو اس بات کا ادراک ہو۔ طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے انکشافات کے بعد تو شمہ برابر شبہ باقی نہیں ر ہنا چاہیے کہ’’ را ‘‘اور’’ این ڈی ایس ‘‘ ہی ان گروہوں کی مشینری چلارہے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ بنائی گئی۔ دی گئی مخصوص سرخ ٹوپیوں کی شناخت و علامت والے یہ لوگ آزادی کے فساد پر مبنی و گمراہ کن نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ یہ پشتون سے زیادہ ’’را ‘‘اور’’ این ڈی ایس‘‘ تحفظ موومنٹ دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کرے کہ افغانستان کے حوالے سے امارت اسلامیہ اور امریکا کے مذاکرات اچھے انجام پر اختتام پزیر ہوں۔۔امارت اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی اُن شخصیات و جماعتوں کی حمایت کو اہمیت دے جو ملک پر غیر ملکی قبضے کے خلاف ہیں۔تاکہ ملک افغانستان اور خطہ ہر نوع کے فتنوں سے آزاد ہو۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ بھارت نے اپنی بساط بچھا رکھی ہے۔نشانا پاکستان ہے ۔جیسے’’ ڈیوڈ لو شاک‘‘ نے ڈیلی ٹیلی گراف لندن کے6مئی 1971ء کے شمارے میں لکھا تھا کہ ہندوستان اس میں بھلائی دیکھتا ہے کہ اس کا حریف اول ٹکڑے ٹکڑے یا مفلوج ہوکر رہ جائے، اسے بے گناہ لوگوں کے حال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ تو اپنے عزائم کی تکمیل سے بنگلہ دیش کے نام پر پروپیگنڈا ہی چلائے ہوئے ہے۔