وجود

... loading ...

وجود

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت

بدھ 02 جنوری 2019 ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت

کوئٹہ کے حلقہ چھبیس کے ضمنی انتخاب میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار قادر علی نائل بالآخر کامیاب ہو گئے ۔اس جماعت کے ارکان کی تعداد بلوچستان اسمبلی میں دو ہوگئی۔یوں65 رُکنی بلوچستان اسمبلی ارکان کی تعداد کے لحاظ سے پوری ہوگئی۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات کے بعد مختلف وجوہ کی بناء پر چند حلقوں پر ضمنی انتخابات کرانے پڑے۔14 اکتوبر کو ضمنی انتخاب میں پی بی 35 مستونگ سے نواب اسلم رئیسانی اور اور پی بی 40 خضدار سے بی این پی کے محمد اکبر مینگل کامیاب ہوئے۔پی بی 35 مستونگ پر سراج رئیسانی کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے کے باعث انتخاب ملتوی کیا گیا تھا۔ پی بی 40 خضدار کی نشست سرداراختر مینگل کے قومی اسمبلی میں جانے کے باعث خالی ہوئی تھی۔ پی بی 5 دکی کی نشست پر بھی دھاندلی کے الزامات کے باعث 15 نومبر کو دوبارہ انتخابات کرائے گئے ،جہاں آزاد امیدوار سردار مسعود لونی دوبارہ کامیاب ہوئے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پی بی 47 کیچ 3 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے عبدالرؤف رند کی نا اہلی کے بعد 6 دسمبر کو ضمنی انتخاب کرایا گیاجس میں بی اے پی کے عبدالرشید رند کو کامیابی ملی۔چنانچہ 31 دسمبر کو یعنی سال 2018ء کے آخری دن کوئٹہ کے حلقہ پی بی 26 تھری میں بھی ضمنی انتخاب کا عمل پورا ہوگیا۔ یہ نشست ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے علی احمد کوہزادکی افغان شہریت کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے خالی قرار دی تھی یعنی یہ کہ علی احمد کوہزاد اس وقت تک حکومت پاکستان کے ریکارڈ میں افغان شہری ہیں۔ بہر کیف ضمنی انتخاب میں صورتحال بڑی دلچسپ رہی۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار قادر علی نائل کو عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ اس جماعت نے زبردست انتخابی مہم چلائی۔ نوجوان و بزرگ کارکن ہمہ وقت الیکشن کی تیاریوں میں لگے رہے۔ مثالی مظاہرہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین کارکنان کا دیکھنے کو ملا۔ یہ خواتین سینکڑوں کی تعداد میں جلسوں اور ریلیوں میں شریک رہیں۔ اپنی نظم کے تحت عوامی رابطہ مہم میں پوری طرح حصہ لیا۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا 28 دسمبرکے عوامی اجتماع کا شمار کوئٹہ کے بڑے سیاسی اجتماعات میں سے ہے۔ اس حلقے پر مجلس وحدت مسلمین نے آغا رضا کو کھڑا کیاتھا۔ وہ عام انتخابات میں پی بی 2 پر ایچ ڈی پی ہی سے شکست کھا چکے تھے ۔آغا رضا اس جماعت کے ٹکٹ پر 2013ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی 2 کوئٹہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ جنوری 2018ء میں نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کا ساتھ دیا ۔ اور اس کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت میں چند ماہ کیلئے وزیر قانون بھی رہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا اُنہیں اس بار حلقہ 26 پر قادر علی نائل کے مقابلے میں اُتارنے کا صاف مطلب ہزارہ عوام کا ووٹ تقسیم کرنا تھا تاکہ ایچ ڈی پی کا راستہ روکا جاسکے ۔ جمعیت علماء اسلام ف، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اتحادی بن گئیں۔ گویا یہ تین بڑی جماعتیں جے یو آئی(ایم ایم اے) کے امیدوار مولانا ولی محمد ترابی کی کامیابی کیلئے اکٹھی ہوگئی تھیں۔ مولانا ترابی اسی حلقے پر 25 جولائی کے عام انتخابات میں بھی امیدوار تھے اور دوسرے نمبر پر آئے۔ گویا مولانا ترابی بلوچستان اسمبلی کے حزب اختلاف کی جماعتوں کے امیدوار تھے۔ ترابی جے یو آئی کوئٹہ کے امیر رہ چکے ہیں۔ خُصوصا جے یو آئی اور پشتونخوا میپ انتخابی مہم میں پوری طرح متحرک تھیں۔ پشتو نخوامیپ کے سینیٹر محمد اعظم خان موسیٰ خیل 15دسمبر کو انتقال کر گئے۔ چنانچہ بلوچستان سے سینیٹ کی ایک نشست خالی ہوگئی۔ جے یو آئی ف، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی اگر ایک امیدوار پر متفق ہوں تو حزب اختلاف سینیٹ کی سیٹ جیت سکتی ہے۔ خصوصاً اگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار پر اتفاق کیا جائے تو جیتنے کے امکانات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ بی این پی وزیراعظم اور صدر کے انتخاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دے چکی ہیں ۔ لہٰذا اگر بی این پی کوشش کرے تو بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ نیز سیاسی جماعتوں کو آئندہ کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ، سرمایہ داروں اور اسمگلروں کا راستہ بھی روکنا چاہیے۔ پچھلے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کا امیج بہت ہی خراب ہوا۔ کھلے عام خرید و فروخت ہوئی۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی کا کردار سیاسی و جمہوری روایات کے شایان شان نہ تھا۔
تحریک عدم اعتماد میں بھی پیپلز پارٹی کے کردار کواب خود پارٹی رہنماء غلطی تسلیم کررہے ہیں۔ 29 دسمبر 2018پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اینکر شہزاد اقبال کے سوال پر کہا کہ بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت گرانا پیپلز پارٹی کی غلطی تھی۔یادش بخیر آصف علی زرداری بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت کے خلاف سازش ،بعد ازاں مارچ دو ہزار اٹھارہ کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کا بلوچستان سے صفایا کو جلسوں و اجتماعات میں ببانگ دہل اپنی سیاسی مہارت کہتے رہے ۔ہوا یہ کہ اس ساری بازی سے آصف علی زرداری دودھ سے بال کی طرح نکال دیے گئے۔سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کا بنایا جانا اور انتخابات میں میں تحریک انصاف کے لیے راستہ صاف کرنا آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی ہی کی کارستانیاں ہیں۔گویا آج جب وہ خوددام میں آ ئے تو اقرار کرنے لگے۔تحریک انصاف اب سندھ حکومت کے درپے ہے۔درحقیقت پیپلز پارٹی کی نیت اس وقت بھی حزب اختلاف کا ساتھ دینے میں واضح نہیں ہے ۔ شریک چیئرمین چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہیئت حاکمہ سے ساز باز ہو ۔آصف علی زرداری نے بلوچستان میں ہارس ٹرینڈنگ کی روایت کو شہہ دی ۔ شیخ جعفر خان مندوخیل کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بلوچستان کے امیدواروں نے 60 سے 80 کروڑ روپے کا سرمایہ لگایا۔ شیخ جعفر مندوخیل تجربہ کارپارلیمنٹرین اور سیاستدان ہیں۔ اپنے حلقہ انتخاب ژوب سے 1993ء سے جیتے آرہے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ سچی بات یہ ہے کہ شیخ جعفر خان مندوخیل کو کامیاب ہونے نہیں دیا گیا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر