... loading ...
ایک ایسے دوراور ماحول میں جب آنکھوں سے چمک اور باتوں سے خوشبو اُڑ چُکی ہو۔چہروں سے تازگی اور جذبوں سے سرمستی رُوٹھی رُوٹھی سی محسوس ہو۔ کوئی صدا لگائے، آواز بلند کرے، اذان دے تو بہت بھلا لگتا ہے۔سید لیاقت بنوری ایڈوکیٹ ایک ایسی ہی دل آویز شخصیت کا نام ہے۔جنہوں نے ہمیشہ اندھیرے میں چراغ جلانے کی کوشش کی ہے۔یہ ہمیشہ سرشار و شرابور جذبوں کی خوشبوئیں مہکاتے ہیں ۔ان سے میرا تعارف میانوالی میں قائم افغان مہاجر کیمپ کوٹ چاندنہ کی وساطت سے ہوا تھا ۔ میں کوئی دو دہائیوں سے ان کی نگرانی میں قائم ’’ شارپ‘‘ Society for Human Right & Prisoners Aidکی اُن فعال سرگرمیوں کا شاہد ہوں جو اس پلیٹ فارم سے افغان مہاجرین یا افغان باشندوں کی قانونی معاونت کے لیے سر انجام دی گئی ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کا دوسرا بڑا افغان مہاجر کیمپ قائم ہے اس لیے میں نے قبائلی روایات میں جکڑے افغانوں کو کیمپ میں اور کیمپ سے باہر ایک مشکل زندگی گزارتے ہوئے دیکھا ہے ۔2008 ء کی بات ہے کہ افغان مہاجر کیمپ کوٹ چاندنہ میانوالی میں پسند کی شادی کے لیے فرار ہو تے ہوئے پکڑی جانے والی بی بی گل جاناں کو قبائلی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لیے میں نے ایک بظاہر نہتی مگر قانون کی تعلیم اور جرات کے ہتھیاروں سے لیس لڑکی کو مردانہ دلیری سے لڑتے دیکھا تو معلوم ہو ا کہ یہ ’’ شارپ ‘‘ کی میانوالی میں فیلڈ منیجرہے ۔ بعد میں فریحہ شاہین ایک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملی تھیں ۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را۔ انہوں نے یہ بتایا تھا کہ ’’ شارپ‘‘ کے تمام وابستگان کو یہ جرأت ان کے سربراہ سید لیاقت بنوری کی سرپرستی اور رہنمائی کی وجہ سے ہی ملی ہے۔
گزشتہ روز ایک مرتبہ پھرسید لیاقت بنوری نے افغان مہاجر بچے اور بے وطن لوگوں کے مسائل جیسے اہم اور سنجیدہ موضوع پر لاہور میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کو اکٹھا کیا ۔ بے وطنی کو عالمی طور پر ایک پوشیدہ یعنی چھُپا ہوا المیہ قرار دیا جاتا ہے اور مسئلے سے دوچار افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے جن علاقوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے اُن میں ڈو مینیکن ریپبلک ، آئیوری کوس ، تھائی لینڈ اور لٹویا شامل ہیں ۔ اب اس اہم معاملے کی طرف اقوام متحدہ بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اپنے ذیلی ادارے ( یو ۔ این ۔ آر ۔ اے ) U.N.R.A کے تحت بے وطنی ختم کرنے کا دس سالہ پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔
پاکستان کو اپنے قیام سے لے کر اب تک تین مرتبہ اس اہم ترین مسئلے سے دوچار ہونا پڑاہے ۔ تقسیم ہند کے وقت دونوں طرف سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی ۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود نظریۂ پاکستان کی خاطر اپنا سب کُچھ چھوڑ کر پاکستان آنے والے ابھی تک یہاں صحیح طور پر ایڈجسٹ نہیں ہو سکے۔ملک کے مختلف حصوں میں مہاجر اور مقامی کی تقسیم کا تعصب ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ دوسری مرتبہ ہم ایک بار پھر اس مسئلے سے 1971 ء میں دوچار ہوئے ۔ جن لوگوں نے ملک دو لخت ہونے کے المیے کی وجہ سے جلتے ہوئے سانس کاتے اور دُکھ بگولے اُوڑھے اور نئے ملک میں جانے سے انکار کر دیا ۔ وہ اپنے ہی مُلک میں بے وطینیت کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ جن لوگوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم ہی نہیں کیا ، مُلک چھوڑا ہی نہیں وہ ’’ Stateless Persons ‘‘ کہلاتے ہیں ۔ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کیمپوں میں زندگی بسر کر رہی ہے ان لوگوں نے پاکستان کی محبت میں خود کو بنگلہ دیشی کہلوانے سے انکار کر دیا تھا۔ہم نے چالیس لاکھ افغانوں کا بوجھ اُٹھایا اور اب تک اُٹھاتے چلے آر ہے ہیں لیکن بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور پاکستانیوں کو واپس لانے پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی ۔
تیسری مرتبہ مہاجرین کی پاکستان میں آمد کے سلسلہ نے 29 دسمبر 1979کے بعد اُس وقت زور پکڑا جب سوویت یونین نے اپنی جارح افواج افغانستان میں داخل کی تھیں۔ہمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ مسئلہ درپیش ہے لیکن کسی بھی حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی سنجیدہ کاوش سامنے نہیں آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے حلف اُٹھانے کے بعد کراچی کے اپنے پہلے دورے کے دوران دوٹوک انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ’’ اُن کی حکومت افغان اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو پاکستانی شہریت دینے پر غور کر رہی ہے۔ ‘‘
اسی تقریر میں وزیر اعظم نے مزید وضاحت ان الفاظ میں کی تھی کہ بنگلہ دیش کے اڑھائی لاکھ لوگ ہیں ۔ افغانستان کے لوگ رہتے ہیں یہاں ۔۔74 فیصد افغانوں کی دوسری یا تیسری نسل ہے جو پاکستان میں ہی پید ا ہوئی ہے۔ لیکن ان کے پاس پاسپورٹ نہیں ہیں ۔ شناختی کارڈ نہیں ہیں ۔ ہم بنگلہ دیش کے ان لوگوں کو جو چالیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں ۔وہ افغان جن کے بچے یہاں بڑے ہوئے ہیں جو لوگ 30.40.50 سال سے یہاں رہ رہے ہیں ۔ پاکستان کی شہریت دیں گے ۔۔ ‘‘
وزیر اعظم کے اس اعلان کا جہاں خیر مقدم کیا گیا وہاں اس کی مخالفت میں بہت ساری آوازیں بیک وقت بُلند ہونے لگیں ۔ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اپوزیشن کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعت ’’ بلوچستان نیشنل پارٹی ‘‘ نے وزیر اعظم کے اعلان کی بھر پور انداز میں مخالفت کی تھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی بات کو صرف کراچی میں رہنے والے بنگالیوں اور افغان بچوں تک محدود سمجھا گیاجس پر وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اسمبلی کے فلور پر وضاحت کی تھی کہ ’’ پاکستان کا قانونِ شہریت‘‘ہر اس بچے کو جو پاکستان میں پیداہوا پاکستان کا شہری ہونے کا حقدار قرار دیتا ہے۔
عمران خان نے جو اعلان کیا تھا وہ ان کی انسانی مسائل سے وابستگی اورآگہی کا آئینہ دار تھا ۔ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا نا چاہیے، سب سے بڑھ کر یہ پاکستان میں مقیم افراد کے شہری حقوق کا تعین ’’ پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ1951 ء میں کر دیا گیا ہے ۔ اس قانون کے مطابق1951 ء کے بعد سے پاکستان کی زمینی حدود میں پیدا ہونے والا ہر شخص پاکستان کی شہریت کا حامل ہوگا ۔ قانون کے واضح ہونے کے باوجود اس حوالے سے زمینی حقائق بہت تلخ ہیں ۔ ہمارے ہاں مختلف لسانی اور قومیتی مسائل سر اُٹھائے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے بے وطن لوگوں کے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں ۔
سید لیاقت بنوری کی میزبانی میں منعقد ہونے والے مذاکرے میں سابق سینیٹر اور سابق صدارتی ترجمان فرحت اللہ خان بابر اور اے این پی کے سابق رہنما افراسیاب خٹک بھی موجود تھے، دونوں نے عمران خان کے اعلان کو درست قرار دیتے ہوئے اُس کی حمایت کی اور پاکستان میں موجود بے وطنیت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی تجاویز بھی دیں ۔ کالم نگار مظہر برلاس نے شہریت کے حوالے سے تاریخ اور حال سے ناقابل تردید مثالوں کے ساتھ پُر اثر گفتگو کی ۔ مصور پاکستان حضر علامہ اقبالؒ کی بہو اور ریٹائرڈ جسٹس ناصرہ اقبالؒ نے اپنی گفتگو میں افغا ن مہاجرین کو شہریت دینے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔سید لیاقت بنوری ایڈوکیٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کیے گئے اعلان کی جس رضاکارانہ ایڈوکیسی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اُس کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر کی مسلسل موجودگی ہے۔ صاحب الرائے افراد نے اپنی گفتگو سے ثابت کیا ہے وہ نہ صرف سیاسی اور معاشرتی مسائل کی وجوہات کو نشان زد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکتے ہیں ۔اس مذاکرے میں اپنے ہمدم دیرینہ حامد لطیف سے بھی ملاقات ہوئی جس نے میانوالی کی یاد کے البم کو آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا ۔اور دیر تک گفتگو میں میانوالی آباد رہا ۔