وجود

... loading ...

وجود

کرتار پور راہداری بھارت کے گلے کی ہڈی کیوں بنی؟

پیر 24 دسمبر 2018 کرتار پور راہداری بھارت کے گلے کی ہڈی کیوں بنی؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی نیتا آنے والے وقت کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ کرتارپور بارڈر کی راہداری کھلنے سے آواز ان کے حلق میں پھنسی ہوئی ہے۔ بھارتی وزیر خارج سشما سوراج اسے پاکستان کی چال قرار دے رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ چند روز قبل ایک دینی مدارس کے دو طلبہ نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر اپ لوڈ کردی جس میں دہلی تک کا فاصلہ بھی تحریر تھا، پھر کیا ہوا پورے بھارت میں ایک کہرام مچ گیا۔ ملک کے طول وعرض میں ان دو پاکستانی طلبہ کے پوسٹر لگا دیے گئے کہ یہ پاکستانی دہشت گرد ہیں اور کسی وقت بھی کارروائی ڈال سکتے ہیں۔لیکن بعد میں یہی طالب علم میڈیا میں ظاہر ہوئے اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان میں ہی ایک مدرسے کے طالب علم ہیں۔
بھارت اچانک اس ہسٹریا میں کیوں مبتلا ہوا ہے؟ کس چیز کے خوف نے اسے اس ہیجان انگیزی پر مجبور کیا ہے ؟ شخصی طور پر تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن بھارتی اداروں کو کیا ہوا ؟ اداروں میں تو معاملات سوچ سمجھ کر اور اچھی طرح پرکھ کر دیکھے جاتے ہیں۔ جہاں تک ہمیں سمجھ آتی ہے بھارتی نیتاؤں کی یہ صورتحال افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی درگت کی وجہ سے بنی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر طرح کے ظلم کے بعد بھی کشمیری مسلمان کسی طور بھی بھارتی غلامی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ایک لاکھ سے زائد شہادتوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ خطے کے حالات امریکا اور بھارت کی مسلسل کوششوں کے باوجود ان کے موافق ہونے نہیں جارہے، پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کا کام تیزی سے روبہ عمل ہے۔ پاکستان میں چینی سفارتی مشن کے خلاف ہونے والی دہشت گردی بھی پاکستان اور چین کو اس منصوبے کی تکمیل سے ٹلنے نہیں دے رہی، بلکہ پاکستان اور چین کی جانب سے اس دہشت گردی کے خلاف جو ردعمل آیا ہے اس سے دونوں ملکوں کی دہشت گردی کے خلاف مزید ڈٹ جانے کی پالیسی واضح ہوتی ہے۔
درحقیقت جس وقت 2001ء میں نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکانے اپنے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے ساتھ افغانستان اور عراق کا رخ کیا تھاتو ایک طرح سے بھارت کی صورتحال ایسی بن گئی تھی جیسے ’’بلی کے بھاگوں چینکا ٹوٹا‘‘ ۔ اس دور میں بھارت ایک جانب اندرونی خلفشار کا شکار تھا ۔سفارتی، سیاسی اور عسکری محاذ پر اسے قدم قدم پر پاکستان کی جانب سے ہزیمت کا سامنا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر پہنچ چکی تھی، کشمیری مسلمانوں اور کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ وادی میں بھارت کی عسکری قوت کا ناطقہ بند کرکھا تھا کہ اچانک ’’نائن الیون‘‘ کا واقعہ منظر عام پر آتا ہے اور دنیا تیزی سے بدلنا شروع ہوتی ہے۔ امریکا اس حملے کی آڑ میں پہلے افغانستان کا رخ کرتا ہے، اس کے بعد عراق میں تباہی پھیلائی جاتی ہے۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت حکمت عملی کی بجائے خوف کی بنیاد پر امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتی ہے اور پل بھر میں خطے کی بساط میں سجی پاکستان کی کامیابیوں کی بازی الٹ جاتی ہے۔ یہ وطن عزیز پر انتہائی سخت وقت تھا۔ پاکستان امریکا کی اس مسلط کردہ جنگ میں ہراول دستہ ہونے کے باوجود ایک ’’مشکوک ساتھی‘‘ قرار پایاجبکہ بھارت کی تمام تر دہشت گردانہ پالیسیوں کے باوجود اسے امریکا نے افغانستان میں اپنا ’’قائم مقام‘‘ بنانے کی تیاریاں شروع کردیں۔اس سلسلے میں بھارت کو واشنگٹن کی صہیونی دجالی لابی اور اسرائیل کی بھرپور مگر خاموش حمایت حاصل تھی۔اسرائیل جس انداز میں سفارتی تعلقات اور امن کے نام پر مشرق وسطی کے عرب ملکوں کی جانب پیش قدمی کررہا ہے، اس وقت وہ سمجھتا تھا کہ بھارت کے کابل میں بیٹھ جانے سے اسرائیل پاکستان کی بغل میں پہنچ جائے گا۔ اسرائیلی امریکا اور بھارت کی چھتری تلے افغانستان میں کیا گل کھلاتے رہے، وہ ایک الگ داستان ہے۔ اس وقت چونکہ موضوع بھارت ہے اس لیے ہم یہیں تک محدود رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے سابقہ تجزیہ میں بیان کیا تھا کہ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کی وجوہات کچھ اور تھیں جبکہ اس کی آڑ میں مقاصد الگ تھے ۔ یہی صورتحال افغانستان کے حوالے سے بنی۔ امریکا نے نائن الیون کا الزام القاعدہ نامی تنظیم پر لگایا اور اسامہ بن لادن کی شکل میں ایک ایسا دشمن ظاہر کیا جسے اگر نہ پکڑا گیا تو جانے دنیا کو کس انجام سے دوچار ہونا پڑے۔ لیکن یہ بات بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ امریکی اور ان کے صہیونی صلیبی اتحادی کبھی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اسامہ کو اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ ثابت نہ کرسکے۔ بلکہ بعد میں بہت سے امریکی اور یورپی مصنفین نے امریکی دھوکے کا بھانڈا پھوڑااور اس موضوع پر بہت سے کتابیں تحریر کی گئیں،لیکن امریکا نے افغانستان میں گھسنا تھا سو گھس گیالیکن افغانستان پر حملے کی اسے کیا قیمت چکانی پڑے گی، اس کا اسے ادراک نہ تھا۔امریکی پوری تیاری کے ساتھ اور افغانستان کے حوالے سے بھرپور تاریخی حوالہ لیکر افغانستان میں وارڈ ہوئے تھے۔ افغانستان کی جنگ میں مار کھانے والی سابقہ سوپر طاقت برطانیا اس کے جلو میں تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے حوالے سے امریکی ایک اور بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ سوویت یونین کی شکست کی بڑی وجہ افغان مجاہدین کی امریکا اور یورپ اور تمام امت مسلمہ کی کھلی عسکری اور معاشی پشت پناہی تھی۔لیکن امریکا اپنی باری کے وقت یہ سمجھتا رہا کہ پاکستان اور تمام مسلم ممالک کے ہاتھ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی رسی سے باندھ دیے ہیں ، اس لیے مسلم ممالک کی جانب سے عسکری اور معاشی پشت پناہی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا دوسری جانب خود افغانستان میں شمالی اتحاد کے نام پر ایک شیطانی اتحاد تشکیل دیا گیا اور راتوں رات جرمنی کے شہر بون میں ایک کانفرنس منعقد کروا کر وہاں ایک نام نہاد حکومت تشکیل دی گئی۔تیسر ی جانب علاقائی طاقتوں میں بھارت اس کے ہمرکاب ہوگا، اس ہمرکابی کے عوض بھارت کے تمام گناہ نظر انداز کیے گئے، مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کی تحریک سے ملا دیا گیا، بھارت کے ساتھ کھلے عام جوہری اور عسکری معاہدے عمل میں لائے گئے۔ ان تمام حالات کے بعد امریکا کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں موجود واحد مزاحمتی قوت افغان طالبان پوری طرح نہتے ہوچکے ہیں، اس لیے افغانستان کے معاملے میں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے سے قاصر ہے مگر تاریخ کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے اس کی زد میں چاہے امریکا ہو یا سابق سوویت یونین کوئی نہیں بچتا۔ امریکا جو خود سیاہ تاریخ کی پیداوار ہے بھلا تاریخ کو کیسے شکست دے سکتا تھانتیجہ سب کے سامنے ہے۔
2001ء میں نائن الیون کے ڈرامے کے بعدسے بھارت نے اب تک یعنی اٹھارہ برس تک خوچ ’’عیاشی‘‘ کی، مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کی گئی کہ دنیا میں کوئی اسے پوچھنے والا نہیں بچا تھا۔ بھارت میں سکھوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ برہمن اسٹیبلشمنٹ نے معاندانہ سلوک بڑھایا۔ امریکا اور یورپ کی مدد سے این آر او کی شکل میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کا دور بھی اسی اٹھارہ برسوں کی پیداوار ہے جس میں ان دونوں حکومتوں کو امریکا اور برطانیا کی جانب سے مخصوص ٹاسک دیے گئے ، زرداری کے حصے میں کابل اور نواز شریف کو دہلی سونپا گیا اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کی جو درگت بنائی گئی وہ سب کے سامنے ہے، معاشی طور پر کنگال کرنے کے لیے پوری طرح ہاتھ صاف کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ اپنی ہی پاک فوج اور اس سے متعلق دیگر اداروں کے خلاف مہم جوئیاں کروائی گئیں جسے ملکی اداروں نے کمال حوصلے سے برداشت کیا۔ وطن عزیز کے ہزاروں افسران فوجی جوانوں اورمعصوم شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنے خون کے نذرانے پیش کیے جسے بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ یہ بھارت ہی ہے جس نے ایک طرف افغانستان میں بیٹھ کر کابل کٹھ پتلی حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ مل کر بلوچستان ، کے پی کے اور کراچی میں دہشت گردی کی لہر پیدا کی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کھلے عام اس بات کا برملا اظہار کرتا رہا کہ بلوچستان میں بھارت سے مدد مانگی جاتی ہے!! سیاست کے غلاف میں لپٹے کراچی کے ایک لسانی مافیا نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی مدد سے شہر کو کئی برس تک خون میں نہلائے رکھا لیکن اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں نے سب کچھ جاننے کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ برطانیا کی چھتری تلے لندن میں مقیم اس لسانی گروہ کا دہشت گرد سربراہ ’’قائد تحریک‘‘ کے نام پر ملک اور اس کے اداروں کے خلاف اول فول بکتا رہا لیکن کسی سیاسی حکمران نے اس کی زبان بندی کے احکام جاری نہ کیے۔یہ ایک محاذ تھا دوسری جانب پاکستان اور اس اداروں کے خلاف میڈیا کے ذریعے محاذ کھولا گیا، ایسے ایسے لال بجھکر اینکروں کی شکل میں تعینات کیے گئے جن کا کام ہی فوج اور ملکی اداروں میں کیڑے نکال کر عوام الناس کو گمراہ کرنا تھا۔ جن کے پاس موٹر سائیکلیں نہیں تھیں وہ کروڑوں کے مالک بن بیٹھے ، دبئی اور دیگر ملکوں میں جائدادیں بنا لیں،لاکھوں میں تنخواہیں وصول کیں جو نہ جانے کہاں سے آتی تھیں۔ اور کسی بھی قدغن کو آزادی رائے کے خلاف مہم سے جوڑنے لگے۔ جو کچھ ان اٹھارہ برسوں میں بھارت، امریکا اور یورپ کی اشیرباد سے چند مخصوص میڈیا ہاؤسز میں پاکستان کے خلاف کھیل کھیلا گیا کیا اس کی مثال خود امریکا یا برطانیا میں بھی ملتی ہے؟ کیا سی این این امریکی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح تنقید کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ افغانستان میں پڑنے والی مار کو کبھی امریکی میڈیا نے اپنے ادروں کے لیے تضحیک موضوع بنایا، کیا کبھی بی بی سی اور دیگر برطانوی میڈیا نے اپنی فوج اور اداروں کو ناکامی کا طعنہ دیا یا اپنی عوام کو ان کے متعلق گمراہ کیا؟ یہ تمام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا بدقسمتی سے یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا رہا۔ اس ملک کے خلاف ان اٹھارہ برسوں میں کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ قوم پرست اور مین اسٹریم سیاستدانوں نے اپنا مورچہ لگا رکھا تھا، مخصوص میڈیا اپنی ’’ڈیوٹی‘‘ دے رہا تھا، جبکہ خارجی اور سفارتی سطح پر پاکستان سابقہ حکمرانوں کے ذریعے نہتا کردیا گیاتھا۔ ان سارے حالات میں بھارت میں گھی کے چراغ جلتے رہے۔
اب چونکہ سارا منظر نامہ بدل چکا ہے تو بھارت کو اپنی شامت نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔ امریکا افغان طالبان کے پیر پڑا ہوا ہے کہ اسے عزت سے جانے دیا جائے، ایسے حالات میں امریکا بھارت کو خطے میں کیا سہارا دے سکتا ہے، یہی وہ صورتحال ہے کہ اسے کرتار پور راہداری کھلنے کا قلق ہے لیکن چونکہ مودی کی انتہا پسند حکومت کو آنے والے الیکشن میں شکست نظر آرہی ہے، اس لیے یہ وہ ہڈی بن گیا جسے نہ اگلا جاسکتا تھا اور نہ نگلا جاسکتا تھا۔اس لیے بادل نخواستہ اسنے راہداری کھلنے دی۔ لیکن پاکستانی میڈیا میں موجود بچے کچے کچھ’’ سقراطوں‘‘ نے قادیانیوں کے لیے بھی اسے سہولت قرار دے کر حکومت اور اداروں کے اس اقدام کو مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ بھارت پر کارگل سے بھی بڑی ضرب ہے جس کی تکلیف اسے چین نہیں لینے دے رہی۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس سے اٹھارہ برسوں کا قرض سود سمیت وصول کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر