... loading ...
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل علی احمد کوہزاد 25جولائی2018ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی26کوئٹہ پر کامیاب ہوئے تھے۔ ازیں بعد ان کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ کھڑا ہوا ۔چنا ں چہ الیکشن کمیشن نے یہ نشست خالی قرار دیدی اور ضمنی انتخاب کیلئے 31دسمبر کا دن مقرر کردیا۔ جس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر حزب اختلاف کی جماعتیں پشتونخوامیپ، بلوچستان نیشنل پارٹی، جے یو آئی (ایم ایم اے) کے امیدوار مولانا ولی محمد ترابی کے نام پر متفق ہوئی ہیں ۔ گویا یہ تینوں جماعتیں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار قادر علی نائل کے مد مقابل ہیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ البتہ عوامی نیشنل پارٹی اگر محض اعلان سے بڑھ کر تعاون کرتی ہے تو قادر نائل کی پوزیشن مزید بہتر ہوسکتی ہے ،کیونکہ مقابل میں تین بڑی جماعتیں کھڑی ہیں۔ علی الخصوص پشتونخوامیپ نے جے یو آئی کے ساتھ مشترکہ الیکشن سیل بنایا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماء اور کارکن باہم ملکر انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ یعنی پشتونخوامیپ نمائشی و خالی خولی اعلانات سے ہٹ کر عملاً مو لانا ولی محمد ترابی کی جیت کے لیے متحرک ہے۔ ان دو جماعتوں نے آئندہ ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں بھی اتحاد کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس ضمن میں پشتونخوامیپ نے اپنی عمومی مزاج کے برعکس لچک دکھائی ہے ۔ گویا آگ اور پانی کا ملن ہوا ہے ۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا دائرہ سیاست محدود ہے ،پر مثالی تنظیم کی حامل ہے ۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ پارٹی نے حلقہ 26پر قادر علی نائل کو میدان میں اتار کر عین ہزارہ عوام کے مزاج کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ قادر علی خوش خلق و خوش گفتاراور اچھی صفت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اورقبیلہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں ۔کوئٹہ کے قومی مؤقر روزنامے سے بحیثیت سب ایڈیٹر لمبے عرصے سے وابستہ ہیں ۔جامعہ بلوچستان سے صحافت کی ڈگری پہلی پوزیشن کے ساتھ حاصل کر رکھی ہے۔ ادیب ہیں ۔ اردو اور ہزارگی زبان میں شعرلکھتے ،کہتے ہیں ۔ان دو زبانوں میں شعر و ادب کی ترویج کیلئے سالوں سے کام کررہے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ’’ الگم‘‘ کے نام سے چھپا ہے اور یہ پاکستان میں ہزارگی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ یعنی صحافت و ادب کے ساتھ سیاست میں بھی ہمہ وقت سرگرم ہیں۔ 2013ء میں بھاری ووٹوں سے کونسلر منتخب ہوئے۔ ذکر پھر جے یو آئی اور پشتونخوامیپ کے اتحاد کا کرتے ہیں۔ یہ اتحاد ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب ابھی مولانا عبدالواسع ،جے یو آئی کے ان جیسے دوسروں کا پشتونخوا میپ کو دیا گیا زخم مندمل نہ ہوا ہے ۔قابل تعریف ہے درویش صفت سکندر ایڈووکیٹ کے جنہوں نے سیاسی مشترکات پر ہم آہنگی کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ صد آفریں پشتونخوامیپ پر جس نے تحریک عدم اعتمادجیسی زیادتی کے باوجود اس حکومت میں حزب اختلاف کا اول روز سے ہر موقع پر ساتھ دیا ہے۔ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ جب جے یو آئی کے بعض لوگ25جولائی کے انتخابات پر سوالات اٹھاتے ہیں،جملے کستے ہیں۔ بڑی ڈھٹائی سے اظہار کرتے ہیں کہ انتخابات آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر خالد فرید یا کسی جنرل نے کروائے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا جے یو آئی ف نے اپنے لوگوں کی خبر لی ہے، جو بلوچستان میں منتخب حکومت کے خلاف کھلم کھلااُس سے بے پردہ کھلواڑ کا حصہ بن گئے ۔ مولانا فضل الرحمان کو بھی دھوکے میں مبتلا کیا ۔اُن سے ن لیگ، پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو درست قدم کہلوایا۔جے یو آئی کے صوبائی سیکرٹری جنرل ملک سکندر ایڈووکیٹ جو موجودہ وقت بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہے کیا اُس وقت بھی رائے عدم اعتماد کے حق میں نہ تھی۔ اس تماشے میں مولانا شیرانی کے حلقہ یاراں بے مہار تھے ۔ چنا ں چہ مولانا عبدالواسع اور اس کے معاونین کا احتساب و محاسبہ کی بجائے عبدالواسع کو ٹکٹ دے کر قومی اسمبلی بھیج دیا، اور برا بھلا کسی بریگیڈیئر اور کسی جنرل کو کہا جارہا ہے۔ یعنی جب ان کا مفاد تھا تو تحریک عدم اعتماد لانے والوں کا ساتھ دیا۔ ان سے اتحاد جائز سمجھا۔اورآج جب سیاسی و انتخابی نقشہ موافق نہ ہے تو تبریٰ بھیجاجارہا ہے۔ مولانا عبدالواسع نے عدم اعتماد کے بعد بننے والی حکومت میں ہر طرح سے مراعات و فوائد حاصل کیں۔ پورے پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ کا اختیار ان کے پاس تھا۔ ادھر حکومت کا دھڑن تختہ ہوااُدھر اس محکمے میں منظور نظر افسران کے تبادلے کروائے۔ اپنے لوگوں کو اہم عہدوں پر بٹھایا۔ حافظ خلیل کو نگراں کابینہ میں شامل کرایا۔ ان کی اہلیہ کو مخصوص نشست پر ٹکٹ دیا گیا تھا اس بنا وہ نگران کابینہ سے الگ ہو گئے۔ اس اُتھل پُتھل کی پہلی اینٹ ہی بلوچستان میں رکھی گئی، جس کے لیے آصف زرداری نے خریدوفروخت کا بازار گرم کیا۔ جے یو آئی (ف) ، بی این پی اور عوامی نیشنل پارٹی اس سیاہ واردات میں شعوری طور پر برابر شریک ہوئیں۔ انہی کے کندھوں اور سہارے سے بلوچستان کے اندر سینٹ کے عجیب و غریب انتخابات ہوئے۔ اور بادشاہ گروں کی جماعت (باپ ) بنی۔میرے خیال سے انتخابات پر اثر اندازی کے طعنے کم از کم اُن لوگوں اور حلقوں کو زیب نہیں دیتے جن کی وجہ سے سیاست و جمہوریت کا تقدس کھلے آسمان تلے پامال ہوا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
الغرض میرے لیے روا نہیں کہ میں ان سطور میں اپنے دوست قادر نائل کو ووٹ دینے کی تبلیغ کروں، البتہ میری نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ضرور ہیں۔