... loading ...
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق اُتنا ہی پُرانا ہے جتنی میری عمر ہے ۔اس شہر پُر جمال سے محبتوں میں میری مرحوم والدہ کی لوریوں کی بازگشت بھی شامل ہے ۔ بچپن کی یادوں کا سحر سوا ہے ۔اب جب کبھی بھی زندگی کی بے ترتیب مصروفیات اس شہر میں لے جاتی ہیں تو ڈیرہ کے درودیوار کی طرف اس انداز سے نظریں اُٹھتی ہیں کہ دل کے ساتھ آنکھیں بھی بھر آتی ہیں ۔
اپناماضی تلاش کرتے ہیں
تیری آنکھوں میں زندگی اور میں
۱۹۹۷میں یہاں کے صحافتی حلقوں سے محمد عرفان مُغل او ر عثمان غنی اسرا کے ذریعے سے قائم ہونے والا تعلق روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ہے ۔ دو روز قبل ایک ذاتی مصروفیت کے باعث ڈیرہ جانا ہوا تو امن و امان کو لوٹا ہوا پایا ۔ایک عشرے سے خوف اور دہشت کی جس لہر نے یہاں ماؤں کی کوکھیں اُجاڑنے اور درخشاں ماضی کے امین اس شہر کو ہڑپہ اور موہنجوداڑو بنانے کاجو سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا وہ غائب نظر آیا ۔ورنہ ایسے دن بھی مجھے یاد ہیں جب عصر پڑھتے ہی لوگ گھروں میں دبک جانے میں ہی عافیت گردانتے تھے ۔اخبارات کے دفاتر گھروں اور بیٹھکوں میں منتقل ہو گئے تھے ۔۔ گھر سے باہر نکلنے والوں کی سلامتی کے ساتھ واپسی کی دعائیں مانگی جاتی تھیں ۔اب کے ماحول بدلا ہوا تھا ۔ نئے پاکستان میں یہ ہمارا پہلا دورہ ڈیرہ اسماعیل خان تھا۔ بلکہ مولانا برادران کی سیاست کے بغیرکے ڈیرہ میں پہلی انٹری۔ہمیں کیسا لگا یہ کہانی پھر سہی ۔لیکن اس بات پر ہمارا یقین مزید پُختہ ہو گیا ہے کہ سیاست بے رحم کھیل ہے ۔اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔گئے دنوں کی اس بات کو اب عشرے ہو چلے ہیں کہ مولانا مفتی محمود مرحوم کی سیاسی وراثت جمعیت العمائے اسلام کو ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن نے اپنے دورِ شباب میں ہی خاندانی وراثت سمجھتے ہوئے اپنے جلیل القدر والد کی عمر اور مقام و مرتبہ کے قریب تر برزگ مولانا درخواستی اور دیگر زعماسے چھین لیا تھا۔سُنا ہے اب وہ فرماتے ہیں کہ جوانی کب آئی پتا بھی نہیں چلا سب کُچھ پارٹی کی نذر ہو گیا ۔اب اپنے گھرانے کی طرف دیکھتا ہوں تو مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
ایسے میں موجودہ قومی اسمبلی کے اولین اجلاسوں کے وہ مناظر یاد آجاتے ہیں جب مولانا کے حقیقی اور سیاسی وارث اسد محمود پارٹی کے دیگر زعماکے پیچھے پیچھے ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی بچہ پہلی مرتبہ کسی بڑے کے ساتھ بازار آتا ہے ۔ڈیرہ اسماعیل خان آکر مولانا فضل الرحمن کے دل گرفتہ ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے ۔مُلک کی سیاسی بساط تو اُ ن کی پہنچ سے دورہوہی چلی تھی ساتھ ہی اُن کے آبائی علاقے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاسی معاملات بھی ان کے بھائیوں کے ہاتھ سے نکل چُکے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن اپنی انتخابی شکست کو دھاندلی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔ اُن کے ضلع میں جب انتخابی معاملات پر بات کی گئی ان کی شکست کی وجہ مقامی سیاسی ایڈجسمنٹ ، بھاری اخراجات کا بندوبست نہ ہونا اور سیاسی گروپوں کے درمیان بد اعتمادی بتائی گئی، ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے ۔قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فیصل کریم خان کنڈی سے ضلع ٹانک تک کے انتخابی معرکوں کی رُداد سُننے کے بعدایسی کسی انتخابی دھاندلی کا سُراغ نہیں ملتا جس کا رونا مولانا صاحب روتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہاں کے سیاسی ، صحافتی ، علمی وادبی ، سماجی اور عوامی حلقوں سے ملاقاتوں کا حاصل یہی رہا ہے کہ مولانا نے سیاست کے ذریعے سے اقتدار سے عشق فرمایا ہے ۔ایم آرڈی کی تحریک کی کمائی انہوں نے بے نظیر بھٹو کے دور سے میاں نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے دَور تک شراکتِ اقتدار کی صورت میں خوب اُڑائی ۔ لیکن عشق کی دنیا میں وصل کی راحت جب جُدائی میں بدلتی ہے تو پھر وہی بے کلی آن گھیرتی ہے جس کا شکار آج کل مولانا فضل الرحمن ہیں ۔نجی اور ذاتی محفلوں میں ان کی باتوں سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ کچھ اس شعر میں ڈھلا نظر آتا ہے ۔
قسم کھا کر کہتا ہوں
عشق میں رُسوائی ہے
اس مرتبہ بھی ڈیرہ کی ملاقاتیں قلبی وارداتیں ہی رہیں ۔فضل الرحمن نے صحافت میں بہت نام کمایا ۔برادرم تنویر حُسین ملک کے ذریعے سے وہ ہمارے حلقہ احباب کا حصہ ہوئے ۔محبت کرنے والوں کی ایک محفل ان کے ہاں رات گئے دیر تک جمی رہی ۔ فیصل کریم خان کنڈی عمرہ کی سعادت حاصل کرکے لوٹے تھے، ان کے اعزاز میں ایک پُر تکلف عشائیے کا اہتمام تھا ۔ پریس کلب کے سابق صدر محمد یاسین قریشی ، محترم سلیم قریشی ، گومل یونیورسٹی کی اکیڈمک ا سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر محمد شعیب گنگوہی ،سینئر صحافی محمد سُہیل گنگوہی ، چودھری محمد اصغر ،ڈاکڑعبد اللہ ظفری ،اور محمد ریحان موجود تھے ۔ موضوعات کی رنگا رنگی نے ماحول مہکائے رکھا ۔اور وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا ۔ریحان بھائی کو گھر جانے کی جو جلدی تھی وہ بھی مجلسی سُندر تاپر نثار ہو گئی ۔۔گویا
پڑھ رہا ہوں کتاب دل منصور
وقت کی آنکھ لگ گئی اور میں
عرفان مغل کے دفتر میں عثمان غنی اسرأکاملنا ۔ ملاقاتِ مسیحا وخضر سے بھی خوب محسوس ہوا ۔۔ خالد بابر کی محبتوں کے شکریہ کا موقع بھی ملا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سید ارشاد حُسین ، خوشحال ناظر اورموسیٰ کلیم دوتانی سے ملاقات میں ترقی پسند ادبی تحریک کا نقشہ ذہن پردستکیں دیتا رہا۔ماضی کی تحریک کا تسلسل دیکھ خوش گواری کا احساس جاگزیں ہوا۔میری سرزمین کے روشن حوالوں سے حامد سراج ، سید نصیر شاہ مرحوم اور محمد محمود احمد مرحوم کا ذکر بھی دیر تک جاری رہا۔۔ڈیرہ کی ادبی اور علمی تاریخ کے ایک بڑے نام پروفیسر جمشید نایاب کو خراج پیش کرنے کا موقع ملا۔ سید ارشاد حُسین نے ان کی وفات پر لکھے گئے اپنے کالم جمشید نایاب کی تیسری موت کا تذکرہ بھی کیا ۔ پروفیسر کے حوالے سے عرفان مغل نے بھی اپنی یادیں تازہ کیں ۔گفتگو کے دوران یہ تکلیف دہ احساس بھی ہواکہ دہشتگردی کے پے درپے واقعات نے یہاں کے سماج کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ ادب و ثقافت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔
ڈیرہ کی سیاست نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بدولت پانچ سال پہلے جو نئی کروٹ لی تھی اُس کے مثبت اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔عام آدمی نے خاصی تبدیلی محسوس کی ہے ۔ سادگی کا عالم یہ ہے کہ سابقہ ادوار کا ذکر کرنے والے کہتے ہیں کہ اب کام خاص کر ملازمتوں کا ملنا محال ہے ٹھیک ہے پہلے ملازمتیں بکتی تھیں لیکن ملازمت مل تو جاتی تھی ۔شہر کے مختلف حصوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ عام آدمی پر انوسٹمنٹ کے بارے میں عمران خان کے نظریئے کی تکمیل کے لیے اُٹھائے گئے اقدامات کا سراغ دیتے ہیں ۔پارک از سر نو آباد کیے گئے ہیں ۔چوراہوں کو دیدہ زیب بنایا گیا ہے ۔غرضیکہ نئے پاکستان کی شروعات اُمید افزا ہیں ۔ گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اکیڈمک سٹاف کے درمیان مختلف تنازعات کی اطلاعات بھی زبان زدِ عام و خواص ہیں ۔حقائق کیا ہیں یہ دونوں طرف کا موقف جاننے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔
عین اسی وقت جب یہ کالم سپُردِ قلم کیا جا رہا ہے ۔ کالم نگاری کی دنیا کی معروف شخصیات محمد منصور آفاق اور مظہر برلاس بھی موجود ہیں ۔ مظہر برلاس ڈیرہ سے اپنی محبتوں کا ذکر کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ہی بتایا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی باکمال شخصیت ملک محبت حُسین ان کے ٹی وی چینل پر ہفتہ میں دو دن بُدھ اور جمعرات کو صبح کی نشریات میں نو بجے سے گیارہ بجے تک شریک ہوا کریں گی ۔ڈیرہ اسماعیل خان کو پھولوں کا سہرا کہا جاتا ہے ۔وہاں جس جس سے بھی ملنا ہوا ہر کوئی اس سہرے کا پھول لگا۔دعا ہے کہ قادرِ مطلق اس شہر کے ماضی کا مثالی امن لوٹا دے اور اس سہرے کے تمام پھول ہمیشہ کھِلے رہیں۔