وجود

... loading ...

وجود

عنبرین سواتی کی بددُعا ؟

هفته 08 دسمبر 2018 عنبرین سواتی کی بددُعا ؟

وزیر اعظم عمران خان کا کہناتھا کہ ’’ قصور وار ثابت ہونے پر اعظم سواتی کو مستعفی ہونا پڑے گا ۔۔ ‘‘ وقت نے کپتان کا کہا درست ثابت کر دیا ۔ وزیر اعظم کو انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا جو فوری طور پر منظور کر لیا گیا اور اعظم سواتی کی وزارت قصہ پارینہ ہو گئی ہے ۔ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ۔ فیصلے سے پہلے ہی ’’ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے ‘‘ والی صورتحال اس ارب پتی سیاستدان کو درپیش ہے ۔
اس موقع پر سب کو پاکستان تحریک انصاف کی سرگرم خاتون رہنما عنبرین سواتی کے آنسو یاد آ گئے ہیں ۔ اعظم سواتی نے جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے لیے ٹکٹ کے معاملے پر عمران خان کی اس مخلص اور بے ریا کارکن کو آنسو بہانے پر مجبور کر دیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر آج عنبرین سواتی کے حوالے سے محترمہ فلک ناز چترالی کی پوسٹ نے خیبر پختونخواہ کی ان تمام بہنوں اور بیٹیوں کے دُکھ تازہ کر دیے جو اپنی سماجی ، علاقائی اور خاندانی روایات سے بغاوت کرکے نئے پاکستان کی جدوجہد کے لیے میدانِ عمل میں نکلیں تھیں ۔ لیکن پارٹی میں موجود روایتی سیاستدانوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ ہمیشہ سے عمران خان کا یہ المیہ رہا ہے کہ اُن جیسا ان کی پارٹی میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔ آج وفاقی کابینہ اور صوبوں کی حکومتوں میں شامل ارباب پر نظر دوڑائی جائے تو ’’ قافلہ عمران ‘‘ میں کوئی دوسرا ’’ عمران ‘‘ نظر نہیں آتا ۔
خیبر پختونخواہ میں ٹکٹوں کی تقسیم میں نا انصافی کا معاملہ صرف جولائی 2018 ء کے عام انتخابات تک ہی محدود نہیں ۔ سینٹ الیکشن 2018 ، سینٹ الیکشن 2015 ء اور اس سے پہلے مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں بھی خواتین کے لیے ٹکٹوں کے معاملات پرویز خٹک ، شاہ فرمان ، اسد قیصر اور دوسرے لیڈروں کی صوابدید تک ہی محدود رہے۔ 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخواہ میں وجود میں آنے والی صوبائی اسمبلیوں کو محترمہ فرزانہ زین ، اور فلک ناز چترالی جیسی قیادت سے محروم رکھا گیا ۔ اسمبلی میں جن خواتین کو ٹکٹ دیا گیا انہوں نے جس قسم کا پارلیمانی کردار ادا کیا تھا وہ بھی سب کے سامنے تھا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ، اسپیکر اسد قیصر، وزیر اطلاعات شاہ فرمان اور عاطف خان کی رشتہ داریاں آگے رہی تھیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ جب عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی تو سرحد اسمبلی کی بہت سی خواتین ارکان بیرونی دورے پر روانہ ہو گئی تھیں۔
خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی خاتون قیادت میں سب سے معتبر نام محترمہ فرزانہ زین کا ہے۔ انہوں نے اس صوبے کی خواتین میں تبدیلی کا شعور پیدا کرنے کی جدوجہد کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ وہ اُس وقت سے اس تحریک کا حصہ ہیں جب تحریک انصاف کی پارٹی کے اقتدار میں آنے کو ناممکنات میں نہیں تو مشکل ضرور تصورکیا جاتا تھا ۔ وہ پشاور کی نائب صدر بھی رہی ہیں۔ اُن کے خاندان کی شہرت اور نیک نامی کی وجہ سے انہیں صوبے کی تمام پارٹیوں کی جانب سے اپنی جماعت میں شامل ہونے، عہدے اور ٹکٹ تک کی آفرز بھی کی گئی تھیں ۔ لیکن سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین کی اس بیٹی کے حوصلے ، عزم اور ارادے بھی فلک بوس پہاڑوں کی طرح بُلند ہیں انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اور سابق حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود نہ صرف اپنا حوصلہ بُلند رکھا بلکہ موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک ، گورنر شاہ فرمان ، اسپیکر اسد قیصر اور صوبائی وزیروں کی رشتہ داروں اور چہیتیوں کی بھینٹ چڑھنے والی دیگر مخلص خواتین کارکنوں کے حوصلے بھی بُلند رکھے جس کی وجہ سے 25 جو لائی 2018 ء کے عام انتخابات میں اس صوبے کی خواتین نے ماضی کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عمران خان نے خیبر پختونخواہ میں خواتین کیلئے مخصوص نششتوں پر ہونے والی ان ناانصافیوں کا نوٹس لیا تھا ۔ وہ وہاں کی قیادت کی رشتہ داروں اور چہیتیوں کو دیے گئے، ٹکٹوں پر نظر ثانی بھی چاہتے تھے اس مقصد کے لیے انہوں نے الیکش کمیشن تک سے رجوع کیا تھا لیکن خیبرپختونخواہ کے پارلیمانی بورڈ کی چالاکی نے عمران خان کی جانب سے متاثرہ اور نا انصافی کا شکار ہونے والی خواتین کی داد رسی کی خواہش پوری نہیں ہونے دی تھی ۔ ’’گویا خاک ہوگئی تھیں سب کپتان کو خبر ہونے تک ۔
اُس وقت بھی فرزانہ زین ، فلک ناز چترالی ، عنبرین سواتی اور زاہدہ ظہور سمیت تمام متائثرہ خواتین کا موقف تھا کہ تمام تر نا انصافیوں کے باوجود عمران خان کی شخصیت اُن کے لیے اُمید کا چراغ روشن کرتی ہے ۔ سب نے ٹکٹوں کی تقسیم میں ذاتی مفاد ، گروپ کی سیاست اور رشتہ داریاں سامنے رکھیں لیکن ہمارا قائد ایسا ہے کہ اُس نے اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کوترجیح نہیں دی ۔2013 ء کے عام انتخابات سے لیکر آج تک کے معاملات میں اقربا پروری کے الزامات سے کپتان کا دامن صاف ہے ۔کالم نگار نے اُس وقت بھی لکھا تھا کہ عمران خان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے اُس سے اسے منافق سیاسی سماج میں پرخُلوص بہنوں اور بیٹوں کے’’ جزیرے‘‘ کی حمایت حاصل ہے۔
انتخابات کے بعد مرکز اور خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں وزارتوں اور مشاورتوں پر جنہیں فائز کیا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر کا بوجھ جناب وزیر اعظم کو خود اُٹھانا پڑھ رہا ہے۔ اس وقت مرکز اور صوبوں میں بہت سے اداروں کے نئے سربراہوں کے تقرر کے معالات زیر غور ہیں ۔ ان عہدوں کے طلب گاراُسی طرح سے جناب وزیر اعظم تک رسائی رکھنے والوں کے گرد منڈ لا رہے ہیں جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت پارلیمانی بورڈز اور پارٹی کے مقتدر افراد کے گرد ہجوم دیکھے جاتے تھے ۔ ان دنوں بھی مختلف کہانیوں کو طول مل رہا ہے۔ ایک با خبر کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان اپنی مصروفیات میں سے کُچھ وقت نکال کر ٹکٹوں کی تقسیم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا جائزہ لیں اور اس سلسلہ میں چھان بین کروائیں اُس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک تو آئندہ کے لیے پارٹی میں ایسے لوگوں کو دوبارہ کھُل کر کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا اور دوسرے اس وقت مختلف عہدوں اور اداروں کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے گھورنے والے بھی اپنی ’’ بد نظریں ‘‘ بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
مستعفی وزیر اعظم سواتی ، وزیر دفاع پرویز خٹک ، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر گورنر خیبر پختونخواہ شاہ فرمان اور صوبائی وزیر عاطف خان کے گروپ اقتدار کا حصہ ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک کمیٹی بنا کر خیبر پختونخواہ میں نظر انداز کیے جانے والے مخلص اور با صلاحیت کارکنوں خاص کر خواتین رہنماؤں کو مناسب طریقے سے ایڈجسٹ کرنے کا جائزہ لیں تا کہ جناب عمران خان سے محبت کرنے والوں کو نظر انداز کرنے سے پہنچنے والے دُکھ اور کرب کا ازالہ ہو سکے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر