... loading ...
کرتارپور راہداری کے افتتاح نے بابا گورونانک اور سکھ مت کو ایک مرتبہ پھر ذرائع ابلاغ کا موضوع بنا دیا ہے۔ ہندوؤں کے حوالے سے سکھوں کی تاریخ اور سکھوں کے حوالے سے ہماری تاریخ تلخ یادوں سے بھری پڑی ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مظالم اپنی جگہ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں سکھوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے وہ بھلائے نہیں بھولتے ۔بہر حال پاکستان کی جانب سے جو قدم اُٹھایا گیا اُس نے بھارتی حکومت کو چاروں شانے چِت کر دیا ہے۔
سکھ مت کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کرتاپور میں واقع گوردوارہ میں ایک سمادھی کے ساتھ ساتھ ایک قبر بھی ہے۔ یہ سکھوں اور مسلمان دونوں کے لیے احترام کی جگہ ہے ۔ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کا 1539ء میں جب انتقال ہوا تو مقامی مسلمان، سکھ اور ہندو آبادی میں ان کی آخری رسومات کے سلسلہ میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔
دونوں اپنی اپنی مذہبی روایات کے مطابق ان کی میت کو دفنانا اور ارتھی کو جلانا چاہتے تھے۔ آگے کیا ہوا، اس پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں ، مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ بابا گُرو نانک کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہو گئی اور اس کی جگہ مقامی افراد کو محض پھول پڑے ملے۔ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ مسلمانوں نے اپنی روایت کے مطابق دفنایا تو پاس ہی دوسرا ہندوؤں اور سکھوں نے احتراق کیا۔ لگ بھگ اسی مقام پر آج گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی عمارت کھڑی ہے۔
گورونانک سے پہلے سکھ مذہب کا کوئی وجود نہیں تھا۔ گورونانک (1469 تا 1539) برصغیر پاک و ہند کی ایسی شخصیت تھے جن کو تقریباً سبھی نے اپنا کہا ۔تاریخی حوالوں اور روایات کے مطابق وہ پاکستانی پنجاب کے علاقے تلونڈی کے ہندو جاٹ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باپ کا نام کلیاں چند عرف کالو مہتہ تھا جبکہ ماں کا نام ترپتا اور بڑی بہن کا نام نانکی تھا۔ گورو نانک نے سنسکرت پنڈت شاستری تلونڈی سے سیکھی اور عربی فارسی مولوی قطب الدین سے پڑھی، گورونانک مذکورہ تینوں زبانوں کے اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گورونانک ہندو گھر میں پیدا ہوئے مگر وہ اپنی تبلیغ اور تعلیمات کی رو سے اس حد تک مسلمان تھے کہ ان کے مسلمان دوست احباب ان کی بحیثیت مسلمان تدفین پر بضد تھے۔ گورونانک کے ہندو رشتہ دار انہیں ہندو رسم و رواج کے مطابق جلانا چاہتے تھے جبکہ مسلمان انہیں نو مسلم مجذوب سمجھتے تھے اور ان کی میت کو جلانے کے مخالف تھے۔ القصہ انکی میت جلائی گئی، نہ دفنائی گئی۔ یہ معاملہ تاحال اک مُعمّہ ہے۔
گورونانک مسلمان تھے یا ہندو، اس امر کا فیصلہ مشکل ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سکھ قوم ہندو ہے نہ مسلمان، یہ ایک علیحدہ جداگانہ تشخص کی عکاس اور غماز ہے۔ سکھ بھارتی آبادی کا اڑھائی فیصد ہیں اور دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ بھارتی پنجاب میں ان کی آبادی 54 سے 56فیصد ہے۔ سکھ تاریخ میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے کھلے عام یہ اعلان کیا تھا کہ سکھ ہندو نہیں، سکھ موحد ہیں اور بت پرست ہندو برہمن کے دشمن ہیں۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا موقف تھا کہ سکھ مشرک ہندو برہمن کے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ ہندو برہمن سکھ قوم کے جداگانہ تشخص کے خاتمے کیلئے مختلف سیاسی، سماجی، آئینی اور دھرمی حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لہذا سکھ قوم کو مسلمان قوم کی طرح علیحدہ شناخت اور ریاست دی جائے آج کا نوجوان سکھ چاہتا ہے کہ جس طرح 14 اگست1947 ء میں ہندی مسلمانوں نے پاکستان بنایا ہے، بھارتی سکھ بھی اسی طرح دو قومی نظریے کی بنیاد پر خالصتان ریاست کی بنیاد رکھیں۔
گورونانک کو ان کے مسلمان دوست احباب اس لیے مسلمان سمجھتے تھے کہ باباگورونانک سال سے زیادہ مکہ و مدینہ یعنی حرمین شریفین میں رہے۔ حج اور عمرے کیے بعد ازاں تقریباً دس سال بغداد شریف میں مقیم رہے۔ بابا بہلول کے مرید بنے۔ ہندوستان واپسی (مراجعت) کے وقت ان کے مذکورہ بالا مرشد نے انہیں کلمات الٰہی اور کلمہ طیبہ سے منقش چغہ (چولا) عطا کیا تھا۔ جس کی زیارت عامہ چولا دربار کے تہوار کے طور پر آج بھی منائی جاتی ہے۔ بابا نانک کا آخری دور کرتار دربار (نارووال) میں گزرا۔ جہاں انہوں نے اپنے مسکن میں مسجد بھی بنائی۔ بعض متنازع روایات کی رو سے بابا نانک کی دوسری شادی علاقے کی مسلمان رئیس زادی سے ہوئی۔ قصہ مختصر بابا نانک کے مسلمان ہونے کے شواہد کم نہیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کے 36 ابواب ہیں،جن میں30 ابواب میں قرآن کے پارے شامل کیے گئے ہیں جبکہ باقی 6 ابواب بابا نانک، بابا فرید شکر گنج ؒ اور دیگر مسلمان روحانی شعرا کا کلام ہے۔ اسلامی احکامات کی روشنی میں کوئی غیر مسلم حرمین شریفین کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا۔ لہذ اسی لیے کہاجاتا رہا ہے کہ بابا نانک کا بحیثیت غیر مسلم حرمین شریفین جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سکھ قوم مسلمان حکمرانوں کے دور میں طاقتور اور باعزت رہی ہے۔ سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد معروف روحانی مجذوب اور بزرگ حضرت میاں میرؒ نے رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سکھ قوم مسلمانوں کے دور حکومت میں مضبوط رہی اور محفوظ بھی۔ مسلمانوں نے کسی دور میں بھی سکھ قوم کو اسلام کا فرقہ، گروہ یا حصہ قرار دیکر ضم کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ اس کے برعکس ہندو برہمن نے سکھ قوم کو ہندو بنائے رکھنے کی سازش ہر دم جاری رکھی۔ مغل دور میں ہندو برہمن چندو لال وغیرہ کے لبادے میں مسلم سکھ روابط میں ناراضی، بدگمانی اور بداعتمادی کیلئے ہمہ وقت ساز باز کرتے رہے۔ انگریز دور میں ہندو برہمن نے سکھوں کو ہندو فرقہ اور گروہ بنا کر ختم کرنے کی بھرپور سعی کی حتیٰ کہ گوردوارہ ننکانہ صاحب کے متولی بابا نانک کے ہندو رشتہ دار تھے جن کے خلاف جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی طرح سکھ نوجوانوں نے بغاوت کی، سینکڑوں سکھ مارے گئے اور گوردوارہ ننکانہ صاحب کو ہندو متولی گھرانے سے نجات دلا دی۔ 1925ء میں انگریز سرکار نے سکھ گوردوارہ ایکٹ جاری کیا۔ جس کی رو سے سکھوں کا ہندوؤں سے جداگانہ تشخص آئینی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
مذکورہ گوردوارہ ایکٹ 1925ء کے بعد بھی ہندو برہمن کی سکھوں کے خلاف سازش جاری رہی اس سازش کا رخ مسلمان اور پاکستان تھا۔ یہ سازش ماسٹر تارا سنگھ اور کانگرس قیادت کے سرکردگی میں پروان چڑھی اور قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کے قتل عام پر منتج ہوئی۔ یاد رہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کی ماں ہندو برہمن تھی۔ قیام پاکستان کے وقت کرم داس گاندھی نے سکھ قوم کو یقین دہانی کرائی کہ آزاد بھارت میں سکھ قوم کی مذہبی آزادی اور آئینی جداگانہ تشخص بحال رکھا جائے گا۔ گاندھی نے مزید کہا تھا کہ اگر بھارتی سرکار سکھوں کو مذکورہ آئینی تحفظ اور مذہبی آزادی دینے سے انحراف یا لیت و لعل کرے تو سکھ قوم کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے شمشیر بکف ہو جائیں۔ بھارتی برہمن ہندو سرکار نے پہلی بار 1950ء اور دوسری بار 1966ء میں سکھوں کو آئینی طور پر ہندو مت میں ضم کرنے کی کوشش کی جو باعزم سکھ عوام اور قیادت نے ناکام بنائی۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے گاندھی کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں بھارتی ہندو برہمن سرکار کے خلاف اور آزاد سکھ ریاست خالصتان کے حق میں ہتھیار اٹھائے۔ گو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت کانگرسی وزیراعظم اندرا گاندھی کے آپریشن بلیو سٹار1984ء میں مارے گئے مگر ان کا مشن اور تحریک آج بھی کونسل آف خالصتان اور دیگر سکھ تنظیموں کے نام سے بھارت، امریکا، کینیڈا، یورپ وغیرہ میں جاری ہے۔ یہ تنظیمیں بابا نانک اور جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی برسی بصد احترام اور جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ گو بھارتی برہمن سرکار نے سکھ قوم کو ہندو مت میں مدغم کرنے کی پالیسی تاحال ترک نہیں کی اور2008ء میں ہائیکورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دیا ہے جو یہ طے کرے گا کہ سکھ کون ہیں؟ ان کی تعریف اور تاریخ کیا ہے؟ کونسل آف خالصتان کے چیئرمین (سربراہ) ڈاکٹر گورمیت سنگھ اولکھ کا کہنا ہے کہ سکھ گوردوارہ ایکٹ 1925ء میں سکھ قوم کی تعریف اور تاریخ واضح الفاظ میں درج ہے اور موجودہ ہائیکورٹ ججز کے بینچ کی تشکیل بھارتی ہندو سرکار کی بدنیتی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس امر کا فیصلہ وقت کرے گا کہ آیا سکھ اپنے عزم ارادہ اور استقامت سے منزل پا لیتے ہیں یا راہ میں مارے جاتے ہیں یعنی کیا سکھ اپنے جداگانہ تشخص کو بحال رکھ سکیں گے یا ہندو مت کا حصہ بن کر ختم ہو جائیں گے۔ فیصلہ سکھ قوم کا عزم اور وقت کرے گالیکن پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا دُنیا بھر میں ڈنکا بج رہا ہے اور مودی سرکار سٹپٹا رہی ہے۔