... loading ...
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سو دن ہوئے!ان سو دنوں میں عمران خان نے پوری محنت کی کہ اُن کی رہی سہی حمایت بھی باقی نہ رہے۔ اُنہوں نے خود پر اعتماد کے چراغ اپنی بے تدبیریوں کی پھونکوں سے ایک ایک کرکے بجھائے۔ یہ سودن نئے پاکستان کا دیباچہ تھے، اب شاعر کی زبان میں پوچھ رہے ہیں کہ
نیا چار دن میں پُرانا ہوا
یہی سب ہوا تو نیا کیا ہوا
درحقیقت عمران خان کے سو دنوں کے بعد اب وہ دن آگیا ہے کہ اس حکومت کے متعلق ایک حتمی اور منصفانہ رائے قائم کی جائے۔ آج 3؍ دسمبر کو جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو دنیا اِسے معذوری کے عالمی دن کے طور پر منا رہی ہے۔ اس موقع پر اپنی اس ’’معذوری‘‘ کا ضرور اعتراف کرنا چاہئے کہ ایسا کوئی سانچہ اور زاویہ عمران خان نے باقی نہیں رہنے دیا جس میں اس حکومت کو جانچا ،پرکھا ، تولا اور ٹٹولا جاسکے۔ عمران خان نے تمام پیمانوں، ترازؤں اور سانچوں کو ہی توڑ دیا۔ ایک حکومت کی ناکامی اس سے بڑی کیا ہوگی کہ وہ کسی پیمانے سے سمجھنے کے قابل بھی نہ رہ جائے۔
کوئی سرخی ہو تو افسانہ سمجھ میں آئے
ہائے وہ دل کی خلش جس کا کوئی نام نہیں
عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ اُن کا طرزِ فکر ہے۔ اسی طرزِ فکر نے اُن کی حکومت کے اعمال و اطوار کو گمراہ کن بنیادیں فراہم کی ہیں۔ اس کا نقد نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اُن کی حکومت کا کوئی اچھا کام بھی برگ وبار لانے کے بجائے خاروخس پیدا کردیتا ہے۔ عشروں پر محیط بھارت کی جارحانہ پالیسی نے پاکستان سے پیش قدمی ہی چھین لی تھی، بھارت نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی آگ مسلسل جلائے رکھنے کے باوجود اپنے ملک کے مشکوک حملوں کے حوالے سے پاکستان کو ’’ذمہ دار‘‘ ٹہرانے کی عالمی سطح پر کوششوں میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ پاکستان کو بھارت کے باب میں ایک ’’بدنیت‘‘ ملک کے طور پر پیش کرنے کی بھارت کی مکروہ حکمت عملی اس قدر تہہ دار تھی کہ یہ دنیا میں ہی نہیں خود پاکستان کے اندر بھی مخصوص عناصر کے لیے گمراہ کن طور پر قابل قبول بنتی چلی گئی۔ اس پالیسی نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھارت نے گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کو ایک چھوٹے ملک اور خود کو ایک برتر نفسیات کی تال میل کے ساتھ پیش کیا۔ پاکستان کے اندر پیپلزپارٹی ہی نہیں مسلم لیگ نون بھی اس کی شکار ہوئی۔ دوسری طرف پاکستان کے طاقتور حلقوں کے لیے یہ صورتِ حال ایک موقع بن کر رہی کہ وہ سیاسی قیادت کو بے توقیر اور ناقابل بھروسا کے طور پر باور کرائیں۔ کچھ شخصیات کے حوالے سے دستیاب شواہد اُنہیں مشکوک بھی بناتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر یہ پورا تناظر پاکستان کے اندر طاقت کی مرکزی قوت بننے کی اندرونی کھینچا تانی سے آلودہ رہا۔ یوں یہ ایک بیانیہ بن گیا کہ پاکستان کے اندر تمام قوتیں ایک صفحے پر نہیں۔
عمران خان نے کرتار پور سرحد کھولنے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا کہ پاکستان میں فوج، حکومت اور باقی قوتیں اب ایک صفحے پر ہیں۔یہ بحث اس موضوع کے دائرے سے باہر ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے ایک صفحے پر جانے کی کوشش عمران خان کی حکومت میں ہی کیوں کی۔ کیا یہ کوشش ماضی کی دیگر سیاسی حکومتوں کے ساتھ ثمربار نہ رہتی۔ کیا یہ کوشش عمران خان کی حکومت کے لیے اُٹھا رکھی گئی تھی؟ پھر خود عمران خان اس ایک صفحے پر رہنے کے لیے کس حیثیت میں تیار ہیں؟بحث سے خارج ان تمام پہلوؤں سے قطع نظر عمران خان کی حکومت کا طاقت ور حلقوں کے ساتھ بھارت کے معاملے میں ایک صفحے پر ہونے کا واقعہ ایک مثبت روش کی تمہید بننا چاہئے تھا۔ درحقیقت کرتار پور سرحد کھولنے کا واقعہ دو عشروں پر محیط بھارت کی پالیسی کو اُتھل پتھل کردینے کا محرک بن رہا تھا۔ پھر اس کے نتیجے میں خود بھارت کے اندر سردیوں کی آمد پر بدن میں موجود پرانے درد کی طرح کچھ پرانے مباحث جاگ اُٹھے تھے۔ بھارت کی حکومتوں پر اعتراضات اُٹھ رہے تھے۔ مودی حکومت پاکستان کی اس’’ دوستانہ جارحیت ‘‘کا جواب دینے سے عاجز ہوتی جارہی تھی۔ سامنے انتخابات تھے اور مودی اپنی پیدا کی ہوئی عصبیت کے خود شکار ہونے جارہے تھے۔ پاکستان کا درست اقدام وقت کے درست انتخاب کے حوالے سے بھی بے مثال تھا۔ مگر عمران خان کے اوپنر بلے باز شاہ محمود قریشی نے اس اقدام کو عمران خان کی ’’گگلی‘‘ قرار دے کر بھارت کو موقع دے دیا کہ وہ کرتار پور سرحد کھولنے کے معاملے کو پاکستان کا بدنیتی پر مبنی اقدام ثابت کرے۔اب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے حملوں کا جواب دینے پر مجبور ہیں۔ پانی پت کا میدان پامال ہوگیا۔ دوعشروں کے بعد ملنے والی تسکین کافور ہونے لگی۔ یہ ایک اچھے کام سے پھول کھِلنے کے بجائے کانٹے پیدا ہونے کی محض ایک مثال ہے جو اس حکومت کے طرزِ فکر کی خرابی سے تازہ ترین سامنے آئی ہے۔ اس لیے اس تجزیے میں اِسے سب سے پہلے بیان کردیا گیا۔صرف شاہ محمودقریشی کی زبان کے باعث بھارت کو عمران خان کی گگلی گیند پر چھکا لگانے کا موقع مل گیا۔ اِسے بدترین نہیں بلکہ منحوس صورت حال کہا جاتا ہے جس میں پارس کو بھی ہاتھ لگایا جائے تو وہ پتھر بن جاتا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اِن الفاظ نے عمران خان کی حکومت کو سکھ برادری کے سامنے ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ پاکستان میں اپنے مخالفین کے درمیان پہلے سے کھڑے تھے۔ عمران خان کی حکومت کا پہلے دن سے سب سے بڑا مسئلہ اعتبار کا تھا۔ شومئی قسمت سے بھارت موجودہ حکومت کے خلاف یہی نکتہ اب بیرونی دنیا کے لیے بھی پیدا کررہا ہے، یعنی ایک ناقابل اعتبار اور بدنیت حکومت۔ یہ امر اس لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے کہ خطے کی موجودہ صورتِ حال ایسی نہیں جس میں امریکا اور اتحادی بھارت کو نظرانداز کریں اور پاکستان کو ذرا سی بھی رعایت دیں۔ عمران خان کی حکومت اس حال کو پہنچی تو اس کا سب سے بڑا سبب اُن کی بسیارگوئی ہے۔ کسی بھی دوسری حکومت اور حکمران سے زیادہ عمران خان کی حکومت ہے جو سب سے زیادہ بولتی ہے۔ اس کا نتیجہ خود عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک نکل رہا ہے۔ کالم اپنی تمہید میں ہی نبڑ گیا،عمران خان کے سودن اپنے اثرات میں اس قدر محیط ہیں کہ اس پر مستقل نوعیت کی ایک بحث درکارہے۔ یہ اس کا نقطہ آغاز سمجھئے!سرخی کے بغیر افسانہ سمجھنے کی کوشش۔