... loading ...
چینی قونصلیٹ پر حملے نے پاکستان کے اندر بھارت کو سمجھنے کے لیے کچھ نئی راہیں کشادہ کردی ہیں۔ بھارت کی برہمن ذہنیت نسلی برتری کے ساتھ کس پست طریقے سے بروئے کار آتی ہے، اس کی تفہیم پاکستان میں ریاستی سطح پر ہی نہیں دانشوروں کی سطح پر بھی دشوار رہی ہے۔ افسوس ناک طور پر پاکستان میں بھارت کو محض ایک روایتی حریف سمجھ کر روایتی طریقوں سے اُسے برتنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مگر بھارت ایسا ملک نہیں۔ اس کی دشمنی روایتی نہیں۔
بھارت نے ایک خطرناک اور تہہ دار پالیسی کے تحت پاکستان کو مستقل اپنا ہدف رکھا ہے۔ یہ محض اتنا نہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اور اِسے ایک بے امن ملک بنا کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ بھارت نے اپنے اندر جاری بدترین نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کے تحت کشاکش کے پرتشدد نتائج کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ایک مکروہ پالیسی بنا رکھی ہے۔ چھ روز قبل یہ انکشاف ہوا کہ اجمل قصاب کے پاس بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع اورایا کی تحصیل بدھونا سے جاری ڈومیسائل تھا۔پاکستان میں اب بھی کوئی یہ تحقیق کرنے کوتیار نہیں کہ بھارت میں 26؍ نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اجمل قصاب کی حملے سے پہلے پاکستان آمداور خاندان کے وجود کی خبریں کیوں چھپی تھیں جب بھارتی پروپیگنڈے کوا س سے تقویت مل رہی تھی۔ یہ تو بھارت کی تہہ دار حکمت عملی کا محض ایک پہلو ہے جس میں وہ اپنے پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے والے عوامل کو خود پاکستان کے اندر پیدا کرنے کی قدرت حاصل کرچکا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اُس نے ’’کرایے‘‘ پر دستیاب ایسے لوگ بھی پیدا کرلیے ہیں جو کہنے کو پاکستانی ہیں مگر جو بھارتی منصوبے کے تحت پاکستان کے اندر بروئے کار آتے ہیں۔ ایسے ہی کرایے پر دستیاب لوگوں کی میزبانی وہ اپنے ملک اور افغانستان میں کررہا ہے۔ انتہائی سنگین طور پر ان کرداروں کو وہ کسی بھی وقت بھارت کے اندر’’ دہشت گردی ‘‘کے کسی خانہ ساز واقعے میں استعمال کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھی مہلک صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔ اسلم اچھو تو محض ایک نام ہے جسے وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے منصوبہ ساز کے طور پر سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسے کئی کردار ابھی بھی بھارتی سرزمین پر موجود ہیں۔ اس اعتبار سے چینی قونصلیٹ پر حملے میں اُس کی ناکامی کوئی واقعہ نہیں ۔ چینی قونصلیٹ پر حملہ آور ہونا ہی زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ بھارت کی طرف سے آئندہ کے لیے پاکستانی زمین گرم کرنے کا ایک اشارہ دیتا ہے۔
یہ بھارتی سازشوں کا ایک بہتر شعور پیدا کرنے کا ایک بہتر موقع ہے۔اس طرح ہم مستقبل کے اندر بھی جھانک سکیں گے۔ بھارت نے ایک گہری اور خطرناک حکمت عملی کے تحت اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو مقامی وجوہات سے کاٹ کر پاکستان کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ اس ضمن میں وہ مجہول کرداروں کو پاکستانی باور کرانے پر تُلا رہتا ہے۔ وہ ایسے عوامل کو دفن کردیتا ہے جو بھارتی سازش کو کسی بھی موقع پر بے نقاب کرسکتے ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی کا پاکستان میں درست تجزیہ نہیں کیا گیا۔ یہ واقعہ بھارت کی مکروہ ذہنیت کی درست عکاسی کرتا ہے۔ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ پر 13؍ دسمبر2001کو ہونے والے حملے کا پاکستانیوں کو بھی یقین دلادیا تھا کہ اس میں کہیں نہ کہیں پاکستانی ملوث ہیں۔ اُس نے نوگیارہ کے بعد پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف عالمی فضا کا پورا پورا لابھ اُٹھایا۔ ہرگزرتے دن اپنا پورا زور اس دعوے کو ثابت کرنے پر لگایا۔ اس ضمن میں جعلی تحقیقات کا پورا پہاڑ کھڑا کردیا گیا۔ یہ تمام’’ تحقیقات‘‘ صرف افضل گورو کے ایک ایسے اقبالی بیان سے جڑی تھی جو خود بھارت میں بھی مشکوک رہا۔ افضل گورو کے ساتھ پاکستان کی دو جماعتوں لشکر طیبہ اور جیش محمد کو اس حملے کے ذمہ داران کے طور پر پیش کیا گیا۔ پھر اس سازش میں بارہ افراد کے ملوث ہونے کی ایک کہانی گھڑی گئی۔بھارت نے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی فوجی نقل وحمل شروع کردی اور برصغیر کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر کھڑا کردیا۔ بھارت نے پاکستان دشمنی میں اپنی فوجوں کو سرحدوں پر پہنچا کر جو سرگرمیاں دکھائیں اُس میں کم وبیش ایک سو ارب روپے خرچ ہوئے۔ آخر میں یہ کہانی جن ناموں پر آکر ٹکی وہ محمد رانا، راجہ ، حمزہ اور حیدر تھے۔ یہ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ ان ناموں کو کس نے شناخت کیا؟ یہ کوئی حقیقی لوگ تھے یا خلائی مخلوق ؟ بھارت کے پاس ان میں سے کسی کا بھی جواب نہیں تھا۔ لے دے کے بس افضل گوروکا وہی اقبالی بیان تھا جس میں ان ناموں کا ذکر تھا۔اس حملے میں گھٹتے گھٹتے پاکستان کے ملوث ہونے کا جو واحد حوالہ رہ گیا وہ بھارتی وزارتِ داخلہ کا ایک بیان تھا جس کے الفاظ کمال کے تھے:حلیے سے لگتا تھا کہ وہ پاکستانی ہیں‘‘۔ چند برسوں بعد ہمیں پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف سے یہ سننا تھا کہ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں میں کوئی فرق نہیں۔ بھارت حلیوں سے اس فرق کو سمجھنے پر قادر تھا۔ مگر ’’بیچارے‘‘ نوازشریف کو کھانے پینے میں بھی کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔ حیرت انگیز طور پر افضل گورو کا ایک بیان بعد میں سامنے آیا جس میں اُس نے کہا کہ ’’میں نے کسی مرنے والے کو شناخت نہیں کیا، پولیس نے مجھے دہشت گردوں کے نام بتائے اور مجبور کیا کہ میں اِن ناموں سے اُن کی شناخت کروں‘‘۔چونکہ یہ پوری کہانی افضل گورو پر کھڑی تھی اس لیے اُسے پھانسی دے دی گئی۔ مگر سچائی لاشوں کے ساتھ دفن نہیں ہوتی۔مظلوم افضل گورو کی پھانسی بھارتی تاریخ میں خنجر کی طرح پیوست ہوگئی۔ یہ اُس بھارت میں ہوتا ہے جس کے اپنے زندہ کردار کلبھوشن کی صورت میں پاکستان میں پکڑے گئے۔ بھارت کے پاس اپنے وضعی محمد رانا، راجہ ، حمزہ اور حیدرکے صرف نام تھے جس کے بل پر اُس نے دنیا کو یقین دلا دیا کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان ہیں۔ بغیر کسی اگوارے پچھواڑے کے ان ناموں کے متعلق بعد ازاں باضمیر بھارتی دانشور ارون دھتی رائے نے اپنی کتاب ’’Listening to grasshoppers ‘‘ میں لکھا:اگر ہمیں بتایا جاتا کہ ان کے نام ہیپی، باؤ نسی، لکی، جولی اور کڈان گامنی تھے اور ان کا تعلق اسکینڈے نیویا سے تھاتو ہم نے یہ بھی قبول کرلینا تھا‘‘۔یہ وہ دنیا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اس مسئلے سے جڑے حقائق زیادہ خطرناک طور پر بھارت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔مثلاً بلوچستان کے وزیر داخلہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بی ایل اے کے حملہ آوروں میں سے ایک نام وہ بھی ہے جو لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ اگر چہ سارے لاپتہ لوگ ایسے نہیں مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے ناموں پر بعض سیاسی جماعتیں مختلف اداروں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ وہ ایک بڑے کھیل کے کل پرزے کی طرح کسی سازشی مشینری کے ذریعے حرکت میں آنے کے لیے خود ہی ’’غائب‘‘ بھی ہیں۔ یہ فقرہ کسی بھی طرح اُس سنگینی کو کم نہیں کرتا جو بے گناہ لوگوں کے لاپتہ ہونے کی صورت میں ریاستی اداروں پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالتا ہے۔ وہ ہر بے گناہ کے غائب ہونے کے لیے جوابدہ ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ یہاں محض اس زیر بحث نکتے کو اجاگر کرنا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں سب کچھ یک رخا نہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جس مسئلے کی بنیاد پر حکومت یا ریاستی اداروں کے خلاف ایک دباؤ پیدا کرتی ہو، اُن میں شامل کچھ افراد دشمن کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین لہولہان کرنے کے لیے کہیں تربیت یا منصوبہ سازی کا حصہ بنے بیٹھے ہو۔ ایسی صورت میں سیاسی جماعتوں کے کردار کو زیادہ گہرائی سے پرکھنے کی ضرورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کہیں وہ اس مسئلے کے ساتھ خود کسی کھیل کا حصہ تو نہیں۔ آخر دہشت گردی اور دہشت گردوں کوبھی ایک سیاسی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ صورتِ حال بھارت کے کردار کو زیادہ گہرائی سے تولنے ٹٹولنے کی ضرورت اجاگر کررہی ہے۔ اس سے جڑے کچھ پہلو اور بھارتی سازشوں کی تہہ داریوں پر بحث آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں اس کا ماتم کرلیتے ہیں کہ پاکستان کے اندر سیاسی تعصبات اتنے قوی ہو گئے ہیں کہ یہ دشمن بھارت کو بھی نظرانداز کرنے پر مائل کردیتے ہیں۔خوش قسمتی سے چینی قونصلیٹ پر حملے نے دشمن کی بدترین ذہنیت کو سمجھنے کی ایک بار پھر تحریک پیدا کردی ہے۔