وجود

... loading ...

وجود

جام کمال کے خلاف محاذ کی کو ششیں !

جمعه 23 نومبر 2018 جام کمال کے خلاف محاذ کی کو ششیں !

نواب اسلم رئیسانی بطور وزیراعلیٰ کئی حوالوں سے دبنگ ثابت ہوئے۔ وہ اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنے کا فن بھی جانتے تھے اور مخالفین سے نمٹنے کا گُر بھی ۔ من کی بات ببانگ دہل کہہ ڈالتے۔ انہیں ضرورت پڑی توگویا اسمبلی کے تقریباً سب ہی اراکین کو وزیر مشیر مقرر کردیا۔ کسی کے دباؤ اور مخالفانہ حربوں کو خاطر میں نہ لاتے۔ اپنی جماعت کے لوگوں کی تو پہلی فرصت میں ہی خبر لے لیتے۔ حتیٰ کہ آصف علی زرداری تک کے آگے کبھی زیر نہ ہوئے۔ اسلم رئیسانی کو پہلے دن ہی سے اپنی جماعت کے لوگوں کی مخالفت، ریشہ دوانیوں کا سامنا تھا۔ آصف زرداری بطور صدر پاکستان جب پہلے دورے پر کوئٹہ آرہے تھے تو پیپلز پارٹی کے چند وزراء نے، جن میں صادق عمرانی، امین عمرانی، جان علی چنگیزی ، اسفند یار کاکڑ اور آغا عرفان کریم شامل تھے ، نواب اسلم رئیسانی کے رویے کے خلاف کابینہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ یہ کہا کہ وہ اپنے استعفے صدر آصف علی زرداری سے رو برو ملاقات میں پیش کرینگے۔ ظاہر ہے ہدف نواب اسلم رئیسانی تھے۔ چنانچہ اسلم رئیسانی نے دباؤ میں آنے کی بجائے ان پانچوں کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ پیپلز پارٹی کے چند وفاقی وزراء درمیان میں آگئے، یوں نواب اسلم رئیسانی نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ لیکن ’’کش و بگر‘‘ کایہ سلسلہ پورے پانچ سال تک چلتا رہا۔
پیپلزپارٹی کے چند لوگوں نے علی مدد جتک جن کے پاس خوراک کی وزارت تھی کو شیشے میں اُتارا کہ وہ آگے آکرقیادت سنبھال لیں گے اور عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے ، یعنی علی مدد جتک وزیراعلیٰ بنائے جائیں گے۔ علی مدد جتک ان کے فریب میں آگئے اور برملا نواب رئیسانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں کرنے لگے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ،نتیجتاً نواب اسلم رئیسانی نے ان سے وزارت کا قلمدان لے لیا۔ یوں عدم اعتماد کی درپردہ باتیں کرنیوالے بھی خاموش ہوگئے۔ میر صادق عمرانی کے پاس مواصلات و تعمیرات کا محکمہ تھا وہ بھی نواب کے ناقدین میں سے تھے۔ نواب نے ان سے بھی رعایت نہ کی۔ وزارت سے فارغ کردیا چونکہ علی مدد جتک کو سمجھ آگئی تھی اس طرح مواصلات و تعمیرات کا قلمدان پھر سے ان کے حوالے کردیا گیا۔
شوخ سیاستدان اسلم بھوتانی بھی تھے۔ وہ خوداُس حکومت میں اسپیکر کا منصب سنبھالے ہوئے تھے۔اپنی شوخی طبع کی بناء وہ نواب رئیسانی کے ساتھ چل نہ سکے۔ رفتہ رفتہ کشیدگی بڑھتی گئی ،آخر کاراسمبلی اجلاس وزیراعلیٰ کے کہنے کے باوجود بلانے میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ عذر پیش کرتے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی کوئٹہ رجسٹری کے عبوری حکم کے تحت اجلاس نہیں بلاتے۔ یہ عبوری حکم عدالت عظمیٰ نے 12 اکتوبر 2012ء کو دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس حکم کو جواز بناکر اسلم بھوتانی نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ آخر کار نواب رئیسانی نے انہیں 26 دسمبر 2012 ء کو عدم اعتماد کے ذریعے بے منصب کردیا۔ نواب رئیسانی کی حکومت پر گورنر راج نافذ ہوا۔ آصف علی زرداری تمام تر مخالفت کے باوجود انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے پر مجبور نہ کرسکے۔ گویا وہ جانتے تھے کہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے۔ وہ کمزوری دکھاتے تو شاید اگلے ڈیڑھ سال ہی میں اُن کی حکومت ڈھیر ہوجاتی۔ نواب ثناء اللہ زہری قیام و استقامت دکھاتے تو شاید اپنی مدت پوری کرلیتے۔
غرض امتحان جام کمال عالیانی کا آن پڑا ہے۔ بہت ساروں کو ناگوار ہیں بلکہ ایک دو تو انہیں وزیراعلیٰ کے طور پر آغاز میں ہی دیکھنا نہیں چاہتے تھے جن میں عبدالقدوس بزنجو شامل ہیں۔ چونکہ وہ خود وزیراعلیٰ بننے کے خواہشمند تھے،اب بھی یہ خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے ۔ وہ اس امر سے آگاہ تھے کہ جام کمال ہر لحاظ سے وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے موذوں شخص ہیں، لہٰذا اُنہوں نے آغاز ہی میں اختلاف کی فضاء بنانے کی کوششیں کیں۔ یوں 18 نومبر کو عبدالقدوس بزنجو نے ایک بار پھر مستعفی ہونے کا شگوفہ چھوڑ دیا ہے کہ انہیں بہ حیثیت اسپیکر اور پارٹی رہنماء کے ہر معاملے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ کہ وہ جلد دوستوں سے مشورہ کرکے آئندہ کے پروگرام کا اعلان کر یں گے ۔ ذرائع ابلاغ کو یہ بھی کہا کہ ان کے لیے عہدے معنی نہیں رکھتے۔ دیکھا جائے تو تنازع ہی عہدوں کا ہے۔ تاہم جام کمال کو چاہیے کہ انہیں پارٹی معاملات میں شریک مشورہ کرلیا کریں۔ویسے بھی تنظیمی اُمور سے متعلق پارٹی کے متعلقہ فورمز سے مشاور ت بہرحال لازم ہے ، جس میں جام کمال کے لیے آسانیاں ہوں گی ۔آگے بلدیاتی انتخابات آرہے ہیں ۔چناں چہ تیاریوں کے پیش نظر پارٹی میں اوپر تا نیچے تقسیم کار کا مربوط طریقہ وضع کیا جائے تاکہ کام میں آسانی ہو ۔ہاں تو اصل مسئلہ رامین محمد حسنی کا ہے جنہیں حال ہی میں جام کمال نے اپنا معاون خصوصی کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اس شخص کا تعلق عبدالقدوس بزنجو کے ضلع آواران سے ہے ۔اب ان کا خاندان عبدالقدوس بزنجو کا سیاسی حلیف نہیں رہا۔مسئلہ دو ہزار اٹھارہ اُنیس کے بجٹ کی پی ایس ڈی پی کا بھی ہے کہ عبدالقدوس بزنجو جب وزیراعلیٰ تھے تو اپنے حلقے کیلئے بڑا فنڈز لے کرگئے تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جام کمال وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے انتہائی موزوں شخصیت ہیں۔ ایک دو کے سوا فضاء ان کے موافق ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ انہیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ کام کرنے دیا جائے ان سے تعاون کیا جائے۔ پچھلے دنوں ایک اور وزیر صاحب نے مستعفی ہونے کی بات کی، پتہ چلا کہ وہ اپنے حلقے میں ایک تحصیلدار کا تبادلہ کرانا چاہ رہے ہیں۔ ایک اور بڑی حکومتی شخصیت نے کسی سے گلہ کیا تھا کہ ان کے ضلع کے ڈی پی او کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں جام کمال کو اُلجھانے کی کوششیں ہوں گی تو وہ مطلوب ہدف تک کیسے پہنچیں گے۔ ضروری ہے کہ جزیات کے بجائے قومی مفاد کو د یکھا جائے ۔ فی الوقت عبدالقدوس بزنجو کو جام کمال ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ بزنجو زمینی حقائق کے برعکس معاملات میں رخنہ ڈالنے اور محاذ قائم کرنے کی مساعی کریں گے تو یقینی طور نقصان اُ ن کا ہی ہوگا۔اوراگر قدوس بزنجو پارٹی کے اندر یا حزب اختلاف سے اس ضمن میں روابط کر چکا ہے تو اس کا جام کمال کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔نواب رئیسانی نے اراکین اسمبلی سے متعلق کہا تھا کہ انہیں سنبھالنا مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کے مترادف ہے۔ گو یاکہنے کا مقصد یہ کہ مشکل کام کو کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ وگرنہ بقول شاعر’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ ۔ اسپیکر کے لیے بھی بہتر راستا یہی ہے کہ وہ ذاتی مفاد، سیاسی دھونس و دباؤ کی پالیسی چھوڑکر اپنے منصب پر توجہ دیں۔ ایرے غیرے کی باتوں پر کان نہ دھریں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر