... loading ...
میرے ایک صحافی دوست دوماہ قبل بے روزگار ہو ئے تو انہوں نے ’’ ویج بورڈ ‘‘ کے حصول کے لیے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا ۔
ویج بورڈ کے معاملے پر قلمکاروں اور مالکان کے درمیان تصفیہ کروانے ، معاملات طے کرنے یا انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے ادارے نے ’’اسٹے آرڈر‘‘ جاری کردیا ۔ اخبار کی مینجمنٹ نے ماننے سے انکار کر دیا ۔ اور ساتھ ہی مدعی صحافی کے اخبار کی عمارت تک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ۔ مدعی کو تاریخ پر تاریخ والا معاملہ درپیش ہے ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دوست سے دریافت کیا کہ آپ اور دوسرے ملازمین کو کیوں برخواست کیا گیا تھا ۔۔ اُس کا جواب تھا کہ اب حالات بدل رہے ہیں ۔۔ امریکا افغانستان سے معاملے کی بساط تقریباً لپیٹ چُکا ہے۔ اب گرانٹیں بند ہو رہی ہیں ۔۔ میں اُس سادہ لوح کی جانب سے بھری بزم میں راز کی بات کہنے پر چونکا ۔۔ اور دریافت کر بیٹھا کہ آپ کے ادارے کو ماہانہ کتنی گرانٹ ملتی تھی ۔۔ اُس نے اپنے ادارے کے ایک چینل اور اخبارات کا نام لے کر بتایا سب کے لیے ساڑھے سات کروڑ ماہانہ ۔۔۔ میں حیران ہونے کی منزل پر پہنچنے والا ہی تھا کہ یہ سُن کر پریشان بھی ہو گیا کہ اخبار کی سرکولیشن تو اب پانچ ہزار تک پہنچنے والی تھی ۔۔۔۔معاملہ میری حیرانی اور پریشانی پر ہی ٹل جاتا لیکن مجھے لاہور کا ایک ریجنل اخبار یاد آگیا جسے پانچ سالوں سے 43 سے 44 کروڑ کے ہندسوں کے درمیان کی رقم کے سرکاری اشتہارات دیے گئے تھے ۔۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سارا معاملہ ’’ نیب ‘‘ کے علم میں بھی ہے۔۔۔۔۔۔
آج کل بڑے میڈیا ہاؤسسز سے لے کر چھوٹے اخبارات اور چینلز میں ملازمین پر خزاں رُت آئی ہوئی ہے ۔۔ اس وقت جبکہ کالم سُپردِ قلم کیا جا رہا ہے اطلاعات ملی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان آج دوپہر نامور کالم نگاروں سے ملاقات کر رہے ہیں ۔ کالم کی اشاعت کے ساتھ ہی اس ملاقات کی تفصیلات بھی قارئین تک پہنچ جائیں گی ۔ دو دن قبل وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہوا تھاجس میں وفاقی وزیر اطلاعات سمیت پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے اربابِِ وزارت اطلاعات و نشریات شریک تھے ۔ اس بیٹھک میں فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کے لیے اشتہارات کے بقایا جات کی ادائیگی کا آغاز کیا جائے ۔۔ یہ بقایا جات سابقہ حکومتوں کے ادوار سے چلے آ رہے ہیں ۔۔ کیا ان ادائیگیوں سے اخبارات میں کام کرنے والوں کا بھی کُچھ بھلا ہوگا ۔۔ کیا ہزاروں نہیں توسینکڑوں بے روزگار ہونے سے بچ جائیں گے ۔۔۔ ایسے میں انگریزی کے مایہ ناز شاعر کمیونٹری پیٹمورComvanty Patmore کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔۔
’’ شاعر اپنے کم سن بچے سے ناراض ہوگیا اور اُسے تھپڑ رسید کر دیے ۔۔ بچہ پھولوں اور سکوں سے کھیل کھیل کر آخر کار سو گیا ۔ جب شاعر اُس کے کمرے میں داخل ہواتو اُس نے بچے کے رُخسار وں پر تازہ جگمگاتے ہوئے آنسو دیکھے۔۔ اس بچے کی آہوں اور آنسوؤں کو شاعر برداشت نہ کر سکا ۔۔ وہ بچہ جس کی ماں بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی تھی ۔۔۔ شاعر اتنا رویا کہ اس کے آنسو بچے کے رُخساروں پر تیرنے لگے۔۔۔ پیٹمور Patmore کہتا ہے کہ جب ہمیں لحد میں ا‘تارا جائے گا اور ہم ابدی نیند سو رہے ہوں گے تو خالق حقیقی اپنی بے پایاں شفقت کی بدولت اپنی مخلوق کو ضرور معاف کر دے گا۔ جو ساری عمر پھولوں اور سکوں سے کھیلتے رہے۔۔۔ اسی قسم کی درد کی کسک اور اُمید کی کرن اُسی وقت پنہاں ہوگی جب حکومت اشتہارات کے بقایا جات کی ادائیگی کو ’’ ویج بورڈ ‘‘ دینے سے مشروط کر دے ۔۔۔۔ ورنہ ویج بورڈ کو ترسنے والے کارکنوں کو آسودگی اُسی وقت میسر آئے گی جب وہ زندگی کی مشقتوں سے آزا د ہوں گے اور عالمین کے رب کی جانب سے رحمت ، شفقت اور معافی کے سزاوار ٹھہریں گے ۔۔
نئی حکومت کے آنے کے بعد ابھی سو دن بھی نہیں گزرے کہ ہماری صحافت کے تیور بدل گئے ۔ ٹاک شوز کے اینکرز آج سے ایک سال پہلے والی پوزیشن اور اسکرپٹ پر آ گئے ۔ بس پہلے ان کا مخاطب نواز شریف یا ن لیگ کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔۔ اب عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جسے تبدیلی سرکار کے نام سے پُکارا جا رہا ہے۔۔ جو عمران خان سے وضعداری کا اظہار کر رہے ہیں وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار یا کسی دوسرے ارباب حکومت کو نشانا بنا کر طعنہ زنی میں مصروف ہیں ۔۔۔
معاملہ وہی ہے جس کے سیاق و سباق بالا سطور میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بتا یا جا رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ معاملات میں بہتری کی اُمید ہے۔کاغذ کی مارکیٹ میں کھڑا کیا گیا مہنگائی کا طوفان جلد تھمے گا ۔ آسودگی آنے پر صحافتی کارکنوں کی ادارہ بدری اور بے روزگاری کا سلسلہ بھی تھم سا جائے گا۔ لیکن اس شعبے کے سنجیدہ طبقات ایسی اصلاحات کے متمنی ہیں جن سے میڈیا انڈسٹری کے آجر اور اجیر کے درمیان معاملات میں بہتری آئے ۔۔اس صائب خواہش کی تعمیل اُس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک ویج بورڈ کا درست طریقے سے نفاذ نہ ہو ۔۔حکومت اور دیگر ذمہ دار ریاستی اداروں کو اس شعبے کو ملنے والی سبسڈی اور خفیہ گرانٹوں کا احتساب بھی کرنا ہوگا ۔۔ دنیا جانتی ہے نائن الیون کے واقعات کے بعد سے وفاقی دا رلحکومت، صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں اخبارات و جرائد سے وابستہ لوگوں پر ’’ ڈالر ‘‘ خاصا مہربان رہا ہے۔ صوبے میں نام نہاد قوم پرستی کی آڑ میں حکایت خونچکاں لکھنے والے صحافیوں کا استحصال بھی کیا گیا ۔۔
نئے پاکستان کی جدوجہد سے جن لوگوں نے آس اور اُمید باندھی تھی اُن میں اخباری صنعت اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ وہ بے زبان کارکن بھی شامل ہیں جن کی صدائیں نہ تو کسی منہ پھٹ اینکر کا اظہاریہ بنتی ہیں اور نہ ہی ان کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیمیں دلجمعی سے ان کے لیے کوئی لڑائی لڑتی دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ تمام ادارے صلاحتیوں کے قبرستان اور اشنان گھاٹ بن چُکے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں میڈیا سے وابستہ لوگ بہت زیادہ تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں ۔۔ ہمیں تو ان میں ہمیشہ وطن اور اہل وطن پر نثار ہونے والا ایک ایسا شخص نظر آیا ہے جیسا کسی کالر کا پھول دکھائی دیتا ہے۔ رہا اس گلاب کے ساتھ چسپاں کانٹوں کا سو اُن کا شُمار وہ کریں جو عمران خان کو گوارا نہ کرنے والے شُمار ہوتے ہیں۔۔ وہ جہاں بھی ملا ہے جب بھی دکھائی دیا ہے زندگی سے مسکراتی آنکھوں اور کھلکھلاتے ہونٹوں سے نباہ کرنے والا شخص ہی دکھائی دیا ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ کوئی عام سی بات نہیں ۔۔۔ اور ایسی سرشت رکھنے والے عام نہیں قدرت کے انعام یافتہ لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ معاملہ دیکھنے والے کی آنکھ اور سوچنے والے کی فہم کا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔