... loading ...
موضوع شہبا زشریف کی گرفتاری ہی ہے، مگر کم بخت علی مختارنقوی مقطع میں سخن گسترانہ بات کی طرح آٹپکے ہیں!
علی مختار نقوی بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے، سیاست میں جھکولے کھاتے رہے، اُبھر سکے نہ کہیں باریابی پاسکے۔ کسی نے سمجھایا کہ جیل جانے کی صورت نکالیں ، کامیابی قدم چومنے لگے گی۔ عامل سنیاسی باوا ٹائپ سیاسی کامیابی کا فارمولا پاکر شادماں شادماں اپنے دوست ایس ایس پی نیو ٹاؤن کے پاس جا پہنچے۔یہ فیلڈ مارشل ایوب کا عہد آمریت تھا۔ علی مختار نقوی نے اپنی مشکل بیان کرتے ہوئے جیل جانے کی خواہش کا اظہارکیا۔ دوست ایس ایس پی نے کہا اس میں کیا مشکل ہے۔ ایوب خان فلاں فلاں دنوں میں کراچی آنے والے ہیں۔ بس ذرا سا ایک مظاہرہ فرما دیجیے۔آپ نقضِ امن میں دھر کر’’ باعزت‘‘ جیل پہنچا دیے جائیں گے۔ ہفتہ بھر کی جیل یاترا کے بعد ’’باعزت ‘‘ رہائی پاکر ’’بے عزت‘‘ سیاست دان کے طور پر تشریف لے آئیے گا۔علی مختار نقوی خوش خوش مظاہرہ ترتیب دینے لگے۔ نیوٹاؤن کے اطراف میں ایک مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی آئین پاکستان کی کتاب بھی جلادی۔بس پھر کیا تھا! پولیس اہلکار بگڑ گئے۔ اور لاٹھی چارج کرنا شروع کیا۔ علی مختار نقوی نے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ ’’مجھے نہ ماریں ، میری بات ہوگئی ہے‘‘۔ پولیس والے کہاں سنتے ہیں۔ سو اُنہوں نے علی مختار نقوی کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔موصوف لاٹھیاں کھا تے کھاتے پھول کر کُپّا ہو گئے۔ مگر یہی کہتے رہے کہ’’ میری بات ہوگئی ہے، میری بات ہوگئی ہے‘‘۔شہباز شر یف کی گرفتاری کے موقع پر رانا مشہود کی باتیں علی مختار نقوی کے الفاظ ’’بات ہوگئی ہے‘‘ کی طرح کے لگے۔ رانا مشہود نے تو یہ کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب اندازا ہو رہا ہے کہ اُنہوں نے گھوڑے پر نہیں خچر پر داؤ لگا دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما کی سوچ گلی کے اُس پولیس مخبر سے زیادہ کی نہیں لگتی،جو کسی ایس ایچ او کی دوستی کے بعد خود کو محلے کا ایس ایچ او سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ ایک امید پر باندھ کر رکھے جاتے ہیں۔ انہیں قابو میں رکھنا مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کی طرح ہوتا ہے۔ رانا مشہود تک باتیں جیسے پہنچتی ہوں گی ، اس کاانداز ا اُس اسلوبِ سیاست سے لگایا جاسکتا ہے جو خود مسلم لیگ نون میں شہبازشریف کی پہچان ہے۔مگر جس کی حالیہ دنوں میں پرچار کی اجازت نہیں۔ بس پھر کیا تھا، چاروں طرف سے ایک طوفان اُٹھا۔ شہباز شریف کو خود اپنے اُسلوبِ سیاست کے عین مطابق اس طرزِ گفتگو کو سنبھالنا مشکل ہوتا گیا۔ ابھی رانا مشہور کے موقف سے لاتعلقی اختیار کیے زیادہ دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ شہبازشریف کو بساطِ سیاست پر شہ مات کی آواز سنائی دی۔اب اُن کا حال علی مختار نقوی سے مختلف دکھائی نہیں دیتا جو ’’بات ہوگئی ہے‘‘ کے بھرّے میں دھر لیے گئے ۔
درحقیقت شہبازشریف کی گرفتاری عام اندازوں کے بالکل برعکس انتہائی مضمرات کی حامل ہے اور یہ شریف خاندان کی سیاست میں یقینی پسپائی کے تاثر کو گہرا کرتی ہے۔ مسلم لیگ نون میں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد وہ طبقہ اپنا راستا بنانا شروع کرے گا جو نوازشریف کی گرفتاری کے باوجود شہبازشریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ’’یاری‘‘ کے فریب میں بیٹھا تھا۔ نوازشریف کے خلاف مقدمات کے طوفان میں بھی اس طبقے کو اس مغالطے میں رکھا گیا تھا کہ یہ ایک عارضی فضا ہے ۔ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول شہبا زشریف کی صورت میں امکانات کی دنیا ختم نہیں ہوئی۔ رانا مشہود کا پورا بیانیہ اسی سے عبارت تھا۔ اس کے بین السطور میں یہی تعفن زدہ امید’’ووٹ کو لات مارو‘‘ کی مانند کروٹیں لے رہی تھی۔ شہبازشریف کی گرفتاری اس خواب محل کو دھڑام سے گرانے کا باعث بنی ہے۔ اب اُنہیں وہ تمام وقت نیب کی تحویل میں گزارنا ہے جتنے عرصے میں اقتدار ملنے کی امید رانا مشہود لگائے بیٹھے تھے۔ ’’بات تو ہوگئی ہے‘‘، مگر کس کی کس سے ہوگئی ہے، یہ ابھی کسی کے علم میں نہیں۔
ایک ذرادھیان دیجیے! یہ مسئلہ محض شہبازشریف کی گرفتاری کا نہیں ایک خاص طرزِ فکر کا ہے۔ اگر شہبازشریف کی گرفتاری پر ردِعمل کا جائزہ لیں تو یہ طرزِ فکر ایک سیاسی مسلک کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کی رسی میں بندھے یہ تمام دھڑے باز سب سے پہلے تو یہ یقین ہی نہیں کرتے کہ شریف خاندان اور پھر وہ بھی شہباز شریف بدعنوان ہو سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ شہبازشریف کے اس بیانیے پر پورا ایمان رکھتے ہیں جس میں وہ انگلی نچا نچا کر اپنے ایماندا ر ہونے کی خود ہی گواہی دیتے ہیں۔ اور ایک دھیلے کی کرپشن پر چور کی سزا کو اپنی سزا کا اعلان کرتے ہیں۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ شہبازشریف کے ساتھ مفادات کی دوڑ میں بندھے ہیں اور اُنہیں اس امر کا یقین ہے کہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ گویا شہبازشریف کی ایماندرای کا ڈھندوڑا پیٹنے اور ان عناصر کے مفادات کے درمیان ایک نامیاتی رشتہ ہے۔ جو ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے کہیں زیادہ تیزرفتاری سے پروان چڑھا اور اُنہیں طفیلی کیڑوں سے یکدم پروان چڑھا کرکرپشن کے اژدھوں میں بدل دیا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو شہبازشریف کو ایماندار قرار دینے والے اُس کالم نگار کی تحریر کے ساتھ محکمہ پنجاب کے شعبہ اشتہارات کی جمع وتفریق بھی دیکھ لیجیے جس میں اُس کے اخبار کو یکم جولائی 2015سے جون 2018 تک 36کروڑ 74 لاکھ 982 روپے کے اشتہارات ملے ہیں۔ کیا یہ رقم کم ہے؟ اُس ہوس سے تو کہیں کم جو موصوف اپنے بچوں سمیت رکھتے ہیں۔مگر اس چادر سے کہیں زیادہ جو صوبائی خزانے کی حد ہے۔ ایسے لوگ دلائل دے رہے ہیں کہ شہباز شریف ایماندار ہیں۔ اُنہیں یہ بھی تکلیف ہے کہ نیب کے اختیارات کو محدود کیوں نہیں کیا جارہا اور اُسے قانون سازی کے ذریعے لگام کیوں نہیں ڈالی جارہی؟مگر ان تحریروں پر زیادہ دھیان نہ دیںیہ بھی علی مختار نقوی کی طرح کی نفسیات رکھتے ہیں اور آج کل عمران خان کی حکومت سے’’ بات ہوگئی ہے‘‘کی منزل سر کرنے کے لیے پنجابی محاورے کے مطابق لور لور پھررہے ہیں۔جب تک اِدھر بات ہو نہیں جاتی، وہ اُدھر بھی بات بنائے رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ یہ ایک پورا سیاسی مسلک ہے جس سے بچوں کے پیمپر سے زیادہ بُو آتی ہے۔