... loading ...
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے دورہ کراچی کے دوران پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانوں اور بنگالیوں کے پاکستانی شہریت کے حق کی بات کی۔ اس پر 18ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ، رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے اسمبلی میں نکتہ اعتراض اٹھایا۔ جواب میں عمران خان نے کہا کہ 1951ء کے قانون کے مطابق جو بچہ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اس کا حق ہے کہ اسے پاکستان کی شہریت دی جائے۔اس میں شک نہیں کہ یورپ سمیت دیگر کئی ممالک کے قوانین کے تحت وہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دے دی جاتی ہے۔ عمران خان نے بنگالی اور بہاری مہاجرین کی بات خصوصیت سے کی ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ نہ وہ کسی ملک کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ لہٰذا بنگالی اور بہاری مہاجرین سے متعلق حکومت کو بہرحال جلد سے جلد اقداماتاٹھانے چاہئیں تاکہ انہیں پاکستانی شہریت ملے اور دوسرے پاکستانیوں کی طرح وہ بھی باعزت زندگی بسر کرنا شروع کردیں۔
البتہ افغان باشندوں کا معا ملہ مختلف ہے، اور ان کی شہریت کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس کا تعین کرنا بہت مشکل ہوگا کہ کون مہاجر ہے اور کون نہیں۔ بات اگر بلوچستان کی کی جائے تو یہاں بھی 1978ء کے افغان انقلاب کے بعد لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے آئے، جنہیں صوبے کے جنگل پیر علیزئی، سرانان، گردی جنگل اور دوسرے مہاجر کیمپوں میں بسایا گیا۔ مگر رفتہ رفتہ ان خاندانوں نے صوبے کے مختلف علاقوں کا رخ کرلیا۔ بالخصوص صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور پشتون آبادی والے دوسرے اضلاع میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں محنت مزدوری کرنے لگے۔ صاحبِ حیثیت لوگوں نے جائیدادیں خریدنا اور بنانا شروع کردیں۔ اپنی محنت اور جفاکشی کی بدولت بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے اور بڑی تعداد میں پاکستانی شہریت کی دستاویزات بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان افراد کی بڑی تعداد اب بھی افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کا آنا جانا رہتا ہے، بلکہ خاندان کے کچھ افراد اگر یہاں رہتے ہیں تو کچھ وہیں رہائش اختیار کرچکے ہیں۔ ان کے کاروبار پاکستان اور افغانستان میں یکساں طور پر قائم ہیں۔ بلوچستان میں مقیم ہیں تو افغانستان میں بھی اپنی زمینوں کو آباد کرچکے ہیں، یعنی زرعی زمینوں کے مالک ہیں۔ یقیناًغریب لوگوں کی کمی نہیں ہے جو یہاں بھی محنت مزدوری کرکے بال بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ گویا دو ملکوں کی شہریت کے حامل ہیں۔ چاہے پشتون افغان ہوں یا ہزارہ افغان، دونوں قومیں یکساں طور پر مستفید ہورہی ہیں۔ البتہ زیادہ تر ازبک، ترکمان اور مغل افراد بطور افغان مہاجر کے اقوام متحدہ اور پاکستان کے ریکارڈ میں درج ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ریکارڈ کے مطابق 3 لاکھ 21 ہزار447 افغان مہاجرین بلوچستان میں مقیم ہیں۔ خیال رہے کہ جو ریکارڈ میں درج ہیں وہ بھی افغانستان میں اپنے آبائی علاقوں میں جاتے رہتے ہیں اور وہاں رشتے داریاں نبھا رہے ہیں۔وہاں جائیدادوں کے مالک ہیں۔ چناں چہ حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ آیا اس صورت میں اُن کو پاکستانی شہریت دینے کا حق بنتا ہے جو دو ممالک میں یکساں طور پر آزادانہ رہائش رکھتے ہیں، تجارت کرتے ہیں۔ اب جبکہ افغانستان میں بقول پشتون قوم پرست جماعتوں کے، جمہوری حکومت قائم ہے اور یہ کہ افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر قائم ہے تو پھر پاکستان میں مقیم افغانوں کو اپنے ملک چلے جانا چاہیے۔ بلکہ یہ جماعتیں بھی مہم چلائیں کہ یہ لوگ باعزت طریقے سے اپنی واپسی یقینی بنائیں۔ اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ مرحلہ وار ان کی واپسی کا بندوبست کرے۔ ماضی میں اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے تحت کئی خاندان واپس جاچکے ہیں۔ریکارڈ کے مطابق یکم مارچ2018 سے 30 جولائی2018 تک664 خاندانوں کے 2843 افراد بھیجے جا چکے ہیں۔ ان کو مخصوص رقم دی جاتی ہے، ان کی نقل مکانی کے لیے ٹرکوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ افغانوں نے اس رضاکارانہ واپسی کو بھی کاروبار بنالیا۔ یعنی رقم اور دوسری امدادی اشیاء لے کر چلے جاتے اور کچھ عرصے بعد واپس پاکستان لوٹ آتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اَن گنت افغان باشندے غیر قانونی ذرائع سے پاکستانی دستاویزات حاصل کرچکے ہیں۔رواں سال کے آغاز سے اب تک 326 افغان باشندوں نے پاکستان میں سیاسی پناہ کے لئے درخواستیں دے چکے ہیں۔غرض وزیر اعظم کے اعلان کے بعد اس کی موافقت اور مخالفت شروع ہوگئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان البتہ وضاحت کرچکے ہیں کہ انہوں نے افغان اور بنگالی مہاجرین کو شہریت دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ تجاویز مانگی ہیں اور یہ بات اس لیے کہی کہ اس پر بحث کی جائے۔ کوئی بھی فیصلہ مشاورت سے کریں گے کہ یہ بھی انسان ہیں۔جماعت اسلامی پاکستان نے بنگالیوں کے ساتھ افغانوں کو بھی شناختی کارڈ کی فراہمی کی بات کا خیر مقدم کیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی افغانوں کو شہرت دینے کی تجویز کی حمایت کی۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کے لئے پشتون افغان مہاجرین کی شہریت تو دور کی بات وہ ان کی سرے سے صوبے میں مزید قیام و رہائش ہی کے مخالف ہیں ۔ صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی سردار اختر مینگل کہہ چکے ہیں کہ ’’وزیراعظم نے کراچی میں ایک بیان دیا ہے کہ افغان مہاجرین اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ اور شہریت دی جائے گی، جب وزیراعظم اعلان کرتا ہے تو اسے ریاست کی پالیسی تصور کیا جاتا ہے، اور ہمارے ساتھ حکومت نے چھے نکاتی معاہدہ کیا تھا جس میں ایک نکتہ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا بھی ہے، اگر پہلے ہی دن ایک نکتے کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو ہم یہاں بیٹھ کر کیا کریں گے! (19ستمبر2018ء)بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے بھی وزیراعظم کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں وزیراعظم کے بیان کو مضحکہ خیز، اشتعال انگیز، غیر ذمے دارانہ اور ملک کو مزید بحرانوں میں مبتلا کرنے کی دانستہ و شعوری کوشش قرار دیا گیا، کہ پاکستان کثیر القومی وحدتوں پر مشتمل فیڈریشن ہے، ہر قوم کی الگ شناخت، تشخص، زبان اور سرزمین ہے۔ کوئی بھی قوم یا قومی وحدت لاکھوں کی تعداد میں موجود مہاجرین کو اپنی سرزمین پر شہریت دینے یا مکمل بسانے کی کسی صورت اجازت نہیں دے گی۔ پاکستان پہلے ہی سنگین معاشی، اقتصادی، داخلی، خارجی اور سیاسی بحرانوں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ ملک میں موجود لاکھوں غیر ملکی جو ہماری قومی معیشت پر بوجھ، امن وامان کی خرابی کے ذمے دار اور بے روزگاری کا باعث ہیں، انہیں باعزت طریقے سے ان کے آبائی وطن واپس بھجوائیں، لیکن وزیراعظم نے الٹا انہیں شہریت دینے کا اعلان کرکے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ وزیراعظم کا اعلان بلوچستان اور قومی شناخت و سرزمین کے خلاف گھناؤنی سازش ہے، جس کے خلاف بھرپور سیاسی مزاحمت کی جائے گی۔ (18ستمبر2018ء) یہاںیہ مغالطہ بھی دور ہونا چاہیے کہ افغان باشندے امن وامان کے لیے مسئلہ ہیں۔ بلوچستان میں امن کا مسئلہ علیحدگی کی بات کرنے والی شدت پسند تنظیموں سے پیدا ہوا ہے، اور مذہبی مسلح دہشت گرد تنظیمیں بھی مقامی افراد پر مشتمل ہیں،مقامی نوجوان ان سے وابستہ ہیں۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ بالخصوص پشتون و ہزارہ افغان باشندوں کی اکثریت صوبے کے پشتون اضلاع میں مقیم ہے۔