... loading ...
ایک بے گناہ کی پھانسی کے ہنگام کسی نے جلاد سے پوچھا کہ اُسے کیامحسوس ہو رہا ہے؟اُس نے فوراً کہا کہ صاحب پیٹ کی بات اور ہے اور دل کی بات اور!!!قومی صحافت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ ہمارے تجزیہ کار روسی دانشور لیمو نوف کی طرف منقسم ہیں۔ مگر ان میں لیمونوف کی مانند دانش بھی نہیں چھلکتی کہ اُن کی حمایت و مخالفت کو ایک دانشورانہ آہنگ میں بُھگت لیا جائے۔جُگت بازیاں، پھبتیاں اور الفاظ کی میناکاریاں ان کا طرہ امتیاز ہے۔کسی کے ہاں اچانک املتاس کے پھولوں سے دانشوری کا پیلارنگ چڑھا ہے۔کوئی پنجاب کے وزیراعلیٰ سے گزارشات کی دُکان بڑھا رہا ہے۔ کسی نودولتیے کو فکر لاحق ہے کہ اُس سے حساب نہ مانگا جائے سو اُسے سادگی سے چڑ ہے۔وہ کرتے کا حساب مانگنے کو ماضی کا قصہ سمجھتا ہے اور ایسی باتوں کو نفاق کی تعبیر دیتا ہے۔ قلابازیوں اور نکتہ آفرینیوں کے یکساں شوقین ایک بوڑھے نے اچانک حسن عسکری کی حمایت میں ایسا نکتہ نکالا ہے کہ خود اُن کے اپنے کیمپ کے لوگ حیران ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر اُن سے نئے دور کے نئے اہداف کی بابت دریافت کررہے ہیں۔جس کا بندہ ہو وہ زیادہ جانتا ہے کہ اُس کے ساتھ آخر سودا کیسے پَٹتا ہے۔ ہمارے کچھ لیمونوفوں کو احتساب کا دھڑکا ایسا لگا ہے کہ وہ دوماہ کی نگراں حکومت میں بھی کلمۂ حق کہنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ سو وہ’’ باغباں بھی خوش رہے اور خوش رہے صیاد بھی ‘‘کی مانند طرح طرح کی پھلجڑیاں چھوڑرہے ہیں اور حیرت وعبرت کی تصویر بن گئے ہیں۔ افسوس اُن کے کان میں کوئی یہ سرگوشی بھی نہیں کرتا کہ جلوت میں مسخرے کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ خلوت میں عبرت کی زندگی گزاری جائے۔
پاکستان بھر میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی تقرری پر تبصرے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اگلی حکومت کا ڈول یہیں سے ڈلے گا۔چنانچہ سندھ میں حکومت اور حزب اختلاف کی طرف سے متفقہ امیدوار بننے والے نگراں وزیراعلیٰ فضل الرحمان خوش قسمتی سے نظروں میں آنے سے بچے رہے۔ اُن کے لیے بھی کہنے سننے کو کچھ کم نہیں مگرصحافتی اُفق پر بلوچستان اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کا چرچا ہے۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی ڈگری تک کو نشان تمسخر بنانے کی کوشش جاری ہے جبکہ حسن عسکری سے متعلق وہ سب کچھ کہا جارہا ہے جوسوچا جاسکتا ہے۔ اُن کی تقرری کو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسترد کیا تھا۔ ایک سادہ اطوار پروفیسر کو مسلم لیگ کے تمام اکابرین کی طرف سے اجتماعی طور پر ’’عزت‘‘ دینے کا مطلب سب کو ہی سمجھ میں آتا ہے کہ اتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کہ معمولی خطرہ بھی مول نہیں لیا جاسکتا۔ ایسے میں ہمارے لیمونوف کو نکتہ سوجھا کہ عملی ذمہ داری کوئی اور چیز ہے اور فکری جانب داری کوئی اور چیز۔ لہذا اس میں ایسی کوئی خطرے کی بات نہیں۔ ان کے بھاری بھرکم جثے کو بیش قیمت انداز سے سنبھالنے والے مسلم لیگی اکابرین اس نکتے پر کچھ مشتعل دکھائی دیے۔ جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہوا۔ اُن سے مسلم لیگ کی شناخت رکھنے والے کھاتوں سے پوچھا گیا کہ نیا کھاتا کتنے میں کُھلا۔ ان کے ساتھ زندگی میں وہی کچھ ہورہا ہے جو احمد فراز کے ساتھ اُن کی موت کے بعد ہوا۔ احمد فراز نے محبت کے ارفع جذبے کو ہوس کے پست احساس سے مملو کیا تو اُن کی شاعری کو اُسی تعبیر کی ارزل سطح پر لے جاکر بگاڑا گیا اور یہ کام شاعروں نے نہیں بلکہ ادھر اُدھر بیٹھے ہوئے بگڑئے جوڑوں اور بچوں نے کیا۔ اب ہمارے لیمونوف کی رائے کو اسٹاک ایکسچینج کی زبان میں سودے پَٹانے والے انداز میں دیکھا جارہا ہے مگر ظاہر ہے کہ ذلت کو سمجھنے کے لیے بھی سینے میں دل چاہئے بینک کا کھاتہ نہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون کو تمام’’ لیمونوف‘‘ اس قماش کے میسر نہیں آئے۔ کچھ الگ بھی ہیں۔ جو مسلم لیگ نون کے انجام کی آخری تحریر پڑھنے تک ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کی مانند بروئے کارہیں۔ ان کے متعلق ایک الگ تعبیر بھی ہے کہ انہیں یا تو پہلے والوں کی طرح چولا بدلنے کا سلیقہ نہیں یا پھر اُن کے پاس یہ موقع بھی نہیں رہا۔ وہ شریفوں کی حمایت میں اس طرح گردن گردن حرص و ہوس کی تباہ کاریوں کے شکار رہے کہ کسی بھی دوسرے کے لیے وہ اثاثہ نہیں بوجھ ہیں۔ خود شریف بھی اُن سے جان چھڑانا چاہیں تو وہ اُن کی جان نہیں چھوڑتے۔ درحقیقت یہ دانشوروں کی وہ قسم ہے جو شریفوں کے سیاسی پیمپرز کی صفائی پر مامور تھے۔ مگر خود ایسی صحافتی بدکاریوں کے شکار ہوئے کہ اُن کے پیمپرز شریفوں کو صاف کرنے پڑ رہے ہیں اور یہ معمولی بھی نہیں قے آور پیمپرز ہیں۔ابھی تک جمہوری نظام کی آڑ میں وہ شریفوں کی بدعنوانیوں کی بھی وکالت کرتے رہے۔ یعنی جمہوری نظام ایک ایسی قدر ہے کہ جس کے لیے ہر نوعی بدعنوانیوں کو گوارا کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ مگر جب اسی جمہوری نظام کے متعین طریقے سے نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر ڈاکٹر حسن عسکری کا تقرر ہوا تو انہوں نے اپنی ناکیں سکیڑنا شروع کردیں۔ پہلے تو وہ اُن سے گزارش کر رہے تھے کہ وہ خود ہی مستعفی ہوجائیں۔ مگر ڈاکٹر کچھ زیادہ سخت جان ثابت ہوئے۔تو اب اُنہیں اپنی اُس ’’ غیر جانبداری ‘‘کو برقرار رکھنے کے مشورے دیے جارہے جو وہ پہلے سے اُن میں دیکھ ہی نہیں رہے۔یہی نہیں اُن کے خلاف جگت بازی کی جارہی ہے، اُن کے نام کا مخفف ڈھال کر تضحیک کی جارہی ہے۔ اُنہیں ابھی سے ڈرایا جارہا ہے کہ وہ انتخابات جو ابھی ہوئے بھی نہیں اُس کے نتائج اُن کی ذاتِ شریف کے خلافِ شریف ہونے پر مشکوک ہو چکے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جمہوریت کی پَری وَش اور انتخابی دوشیزہ کی حیا مسلم لیگ نون کی تسلی نہ ہونے سے تو باقی نہیں رہتی مگر اِس پر دوسری سیاسی جماعتوں کے عدم اطمینان سے کوئی حرف نہیں آتا۔ یہ دانشوروں کی ایک ایسی قسم ہے جو آئین کی دستاویز پر عمل درآمد کی تمام ذمہ داری جرنیلوں پر لادتے ہیں اور خود اس کے کسی حرف کا پاس نہیں کرتے۔ ان کی جمہوریت کی تمام تقاضے بھی ان پر نہیں ان کے مخالفین پر واجب رہتے ہیں۔ یہ اپنے جمہوری تصورات کے مطابق خود اپنی فردِ عمل پیش کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوتے۔ شریفوں کا انجام نوشتۂ دیوار ہے۔ مگر اُن کے کچھ لیمونوف ماننے کو تیار نہیں۔ ہر لفظ کی قیمت دینے والے شریف خاندان سے اُن کی وفاداری ایسی ہے کہ وہ جلاد کے حال کو پہنچ گئے ہیں۔ پیٹ کی بات اور ہے اور دل کی بات اور!!