... loading ...
کپتان اور ان کی جماعت نے فاروق بندیال کے معاملے پر ایک بڑی آزمائش کا سامنا کیا ہے۔ مبینہ طور پر راولپنڈی کے علاقے ’’ترنول‘‘ میں ایک مسلم لیگی دوست کے گھر فاروق بندیال سے ملاقاتیں اور اُس کی پارٹی میں شمولیت کی راہ ہموار کرنے والے ابھی تک شاد کام نظر آتے ہیں انہیں اپنے اس’’ کارنامے‘‘ پر کوئی ندامت بھی نہیں ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی پارٹی میں ہمیشہ پرانے کارکنوں سے نبرد آزما رہے ہیں ۔اس ’’لابی‘‘ کی جانب سے معاملات کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے سیف اللہ خان نیازی جیسے عمران خان کے جاں نثار ساتھی خاموشی اختیار کرنے میں ہی پارٹی کی بھلائی سمجھنے لگے تھے ۔ اب جہانگیر ترین جن الیکٹیبلز کو گھیر کر پارٹی کا وزن بڑھانے کا بظاہر عندیہ دے رہے ہیں اُس سے پارٹی میں خلفشار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
شاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین کی باہمی رقابت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں اب کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں رہیں ۔ کارکنوں اور پارٹی کے بہی خواہوں نے ان کی اس رقابت پر پرودہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جہانگیر خان ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں پارٹی کو موجودہ مقام تک پہنچانے کی جدوجہد میں دی جانے والی قربانیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی اپنی اناؤں کی تسکین میں مگن ہیں ۔ لیکن اب اطلاعات یہ ہیں کہ مدینتہ اولیاء ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکن ان دونوں بڑوں کی لڑائی کا ایندھن بننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ جن لوگوں نے اپنا عہد جوانی پارٹی کی آبیاری کے لیے صرف کیا ان کے لیے اس خبر نے اذیت اور پریشانی کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے کہ ’’ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے وفاقی وزیر خوراک و زراعت سکند بوسن پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں ۔ ‘‘ان کی شمولیت کے لیے مبینہ طور پر جہانگیر خان ترین کو سرگرم عمل بتایا جا تا ہے۔ ان خبروں نے ملتان میں پارٹی کارکنوں کے اند ر شدید بی چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں ۔ سکند ر بوسن کو پچھلے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کیا تھا لیکن انہوں نے وہ ٹکٹ واپس کرکے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا ۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی سے اپنے اختلافات کے باعث سکند ربوسن کو جہانگیر خان ترین پارٹی میں شامل کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں ۔
اس مبینہ کاوش پر احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور جہانگیر خان ترین کو 1993 ء کے اُس دل دہلادینے والے واقعہ کی تفصیلات ایک بار ضرور حاصل کر لینی چاہئیں جس کی وجہ سے اُس وقت کے وزیر اعظم کو ایک مظلوم خاندان کی داد رسی کے لیے ہیلی کاپٹر پر خصوصی طور پر ملتان کے علاقے جھوک عاربی آنا پڑا تھا ۔۔
دو دن سے اسلام آباد میں تھا ۔ پی ٹی آئی ملتان کی جانب سے شورش کی اطلاعات یہاں بھی سُنائی دیں ۔ شہر اقتدار میں پہلے سورج ڈھلتے ہی خامشی ڈیرے ڈال لیتی تھی ۔ لیکن ان دنوں اس کی چند ایک مارکیٹوں میں قائم ریستوران صبح تک آباد نظر آتے ہیں ۔ ایسی رونقیں اور مجلسیں اس سے پہلے اس شہر میں مجھے کبھی نظر نہیں آئیں ۔ ’’ بنی گالہ ‘‘ میں پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں کی وجہ سے پاکستان بھر سے ٹکٹوں کے اُمید واروں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ جوڑ توڑ اور منت سماجت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے حربے بروئے کار لائے جا رہے ہیں ۔ کہسار مارکیٹ میں بڑی بڑی گاڑیوں کے ہجوم میں گھرے مختلف ریستورانوں میں برپا ہونے والی مجالس کے اکثر شرکاء یہ کہتے بھی سُنائی دیتے ہیں کہ ’’ منڈی ‘‘ لگی ہوئی ہے ۔ ان سے جب خریداروں اور بیوپاریوں کے بارے میں سوال کیا جائے تو صداقت کے لیے مرنے کی اُن کی تڑپ دم توڑ جاتی یا پھر چُپ سادھ لیتی ہے ۔ بڑی آسانی سے یہ کہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے کہ ’’ آپ خود کھوج لگائیں ‘‘۔
ایسی ہی اطلاعات پر عمران خان کی جانب سے یہ ٹویٹ بھی سامنے آیا تھا کہ ’’ اگر تحریک انصاف کا کوئی کارکن پارٹی ٹکٹ دلوانے کے عوض پیسوں کا تقاضا کرے یا آپ کے علم میں کوئی ایسا اُمیدوار ہو جو ٹکٹ کے حصول کے لیے پیشکش کرتا ہوتو اُس کی اطلاع 0303 5375113 پر دیں ۔ ٹکٹوں کا حتمی فیصلہ میں خود کروں گا ۔‘‘‘
کپتان کے اعلان نے کارکنوں اور عام ورکروں کو حوصلہ دیا ہے ۔ عمران خان کی ذات نے اعتبار کا ایک معیار قائم کیاہوا ہے ۔ بہی خواہوں کی خواہش ہی یہی ہے کہ تمام ٹکٹوں کا فیصلہ عمران خان خود ہی کریں ۔ کپتان نے اسلام آباد میں ایک زون کے سربراہ کو ٹکٹ جاری کرکے کارکنوں کے دباؤ پر واپس لینے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس کے بڑے پیمانے پر خیر مقدم کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے شہریوں کی جانب سے اسد عمر کو کراچی بھیجنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے ۔ پارلیمانی بورڈ اور عمران خان اس عوامی مطالبے سے کتنے باخبر ہیں ’’کالم نگار‘‘ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن پارٹی کے اس’’ البیلے ماہر معاشیات‘‘ سے اسلام آباد کے عوام خوش نہیں ہیں ۔ اپنے سابقہ پانچ سالہ دور میں ان کے حلقے کے لوگوں کے لیے اسد عمر کی محبت کی کھیتی بانجھ رہی اور ان کی محبت کے بادلوں نے ووٹ دینے والوں پر برسنے کی کوئی ایک کوشش بھی نہیں کی ۔ وصل کی راحت سے محروم لوگ عامر کیانی کی طرح اسد عمر سے بھی خوش نظر نہیں آتے ۔ اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں اور علاقوں کے سروے کے بعد منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیف اللہ خان نیازی حلقے کا مطالبہ بنتے جارہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاسی جدوجہد میں سیف اللہ خان نیازی کا دبستان نکال دیا جائے تو کہانی ادھوری رہ جاتی ہے۔ لاک ڈاؤن کی ناکامی پر یارلوگوں کو سیف اللہ نیازی کی یاد شدت سے آئی ہوگی جب پارٹی کے دو ’’زونز‘‘ کی قیادت فیلڈ میں رہنے کی بجائے بنی گالہ میں عمران خان کے پیچھے چھُپنے کی ناکام کوشش کرتی دکھائی دے رہی تھی ۔
بے یقینی اور مایوسیوں کے منڈ لاتے بادلوں میں ’’بنی گالہ کا مکین ‘‘ اُمید کا دیا بنا ہوا ہے ۔ وہ اس وقت جس محنت اور عرق ریزی سے ٹکٹوں کی چھان بین میں مصروف ہے اُس سے کارکنوں کو اطمینان رکھنا چاہیئے ۔ ایک ایک نام کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ٹکٹو ں کا اعلان قریب تر ہے۔ ایسے فیصلہ کن موڑ پر جہانگیر ترین کو الیکٹیبلز کو بلا سوچے سمجھنے گھیر کر لانے کی کوششوں کو ترک کرتے ہوئے اپنی توجہ بلوچستان تک محدود کر دینی چاہیئے اور عمران خان کے لیے آزادی سے فیصلہ کرنے کی راہ ہموار کرنی چاہیئے۔۔
ایک دیا اُمید کا رکھ دے
گوری آنکھ بنیرے پر
بھولے بھٹکے لوگ ہیں جتنے
آجائیں گے ڈیرے پر
ہو سکتا ہے ان لوگوں میں
تیرا مسافر آ نکلے
آس کا جُگنو ٹانک دے گوری
ماتھے کے چوبارے پر
ہارے ہوئے سب آجائیں گے
تیرے جیت دوارے پر
ممکن ہے اِس بھیڑ میں گوری
پگلا شاعر آ نکلے