... loading ...
نئے پاکستان کے لیے کپتان کی جدوجہد کا دوسرا یا تیسرا سال تھا ۔ وہ کوئٹہ میں تھے ۔ایک چھوٹے سے جلسے کے بعد کسی کے ہاں کھانے پر مدعو ہوئے ۔ اس سے پہلے عمران خان نے جلسے میں اپنی تقریر کے دوران جن عزائم کا اظہار کیا تھا وہ تقریباً وہی تھے جو آج کل کی تقریر کا بھی لازمی حصہ ہوتے ہیں ۔ کھانے کی دعوت میں موجود سب شرکاء خاص کر بزرگوں کو ان کی کسی کامیابی کا یقین نہیں تھا۔آپس کی چہ میگوئیوں میں عمران خان کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا ۔ ایک صاحب نے کہا کہ آج ان کے جلسے میں دو سو آدمی نہیں تھے اور یہ چلا انقلاب لانے کے لیے ۔۔۔ بعد میں وہ بزرگ کپتان سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔
’’ خان صاحب آپ کو محمود خان اچکزئی کی پارٹی میں آجا نا چاہیئے ۔ بہت بڑی جماعت ہے۔ آپ کے پاس تو پورے پاکستان میں سولوگ بھی نہیں ہیں ۔۔۔اس پر دعوت میں شریک لوگو ں نے ایک قہقہہ بُلند کیا ۔
ایسے مراحل تحریک انصاف کے قیام کے بعد اولین سالوں میں کئی مرتبہ اور کئی مقامات پر آئے جب عمران خان کا اُن کے سامنے ہی مذاق
اُڑایا گیا ۔
اس موقع پر کپتان کا بڑے اعتماد یقین کے ساتھ جواب تھا کہ
’’ حاجی صاحب :۔ آپ دیکھنا ایک دن جب میں ا سٹیج پر کھڑا ہوں گا تو نیچے لاکھوں کا مجمع ہوگا ۔ ‘‘ کپتان کے جواب پر ایک مرتبہ پھر ایسا قہقہہ بلند ہوا جس میں شگفتگی کی بجائے ایک طنز چھُپا ہوا تھا ۔
بعد میں پتا چلا تھا کہ اس مجلس کا احوال محمود خان اچکزئی کے سامنے بیان کیا گیاتو انہوں نے بھی خوب قہقہے لگائے تھے ۔۔۔
2002 ء کی انتخابی مہم کے دوران میانوالی میں ان کے جلسوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی ۔علاقے کے الیکٹیبلز کی چوپالوں پر بیٹھے لوگ عمران خان کے جلسوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ہنسا کرتے تھے اور قہقہے لگایا کرتے تھے ۔ عمران خان اپنے جلسوں میں شریک بچوں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ان سب کو بڑا ہو لینے دو یہی میری طاقت اور میری پارٹی ہوں گے ۔
2002 ء کے عام انتخابات میں کپتان کے آبائی حلقہ میں ان بچوں نے کیا کیا تھا وہ بھی سُنیئے ۔ دیہی اور شہری علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والدین کے ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پر گئے ۔ یہ بچے ضد کرکے اپنے والدین کے ساتھ پولنگ بوتھ میں بھی جاتے تھے اور وہاں اپنے ماں باپ سے اصرار کرتے ، ضد کرتے کہ وہ بلے پر مہر لگا کر انہیں دکھائیں ۔ عمران خان کے آبائی حلقے میں درجنوں پولنگ اسٹیشنوں پر مخالف پولنگ ایجنٹوں نے یہ اعتراض اُٹھایا تھا کہ ووٹروں کے ساتھ بچوں کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت نہ دی جائے ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ’’ پچ ‘‘ عمران خان کے شعلہ بار باؤنسر کی منتظر ہے ۔ اُس دور کے سب بچے بڑے ہو چُکے ہیں ۔ 2014 ء کے دھرنے سے لیکر اب تک کے جلسے اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں ۔
لیکن اس گہرے یقین کے اس باکمال شخص کے مخلص ساتھیوں کو اُس کے اردگرد موجود کھلاڑیوں کو دیکھ کر پریشانی ہوجاتی ہے ایک ایسی پریشانی جس کے تانے بانے بیس سالہ سیاسی جدوجہد کو بے ثمر کرنے کی سازشوں سے ملنے کے خطرات سے جڑے محسوس ہوتے ہیں ۔
خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ سال کامیابی سے پورے کر لیے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کی کوتاہیوں اور من مانیوں کے باوجود اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس صوبے کے عوام ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کو اپنے اعتماد سے نواز کر ایک نئی روایت قائم کریں گے اگر ایسا ہوا تو اس کی سب سے بڑی وجہ صرف اور صرف یہ ہوگی کہ ورکرز اپنے قائد سے سچی اور بے لوث محبت کرتے ہیں اسی محبت کی وجہ سے ان ممولوں نے سیاست کے شاہینوں کے پر فضاؤں میں اُڑا دیئے تھے ۔
سب کو یاد ہے کہ صوبے کی عنان سونپتے ہوئے کپتان نے پرویز خٹک کو ’’ ملنگ ‘‘ قرار دیا تھا ۔لیکن اب جبکہ پانچ سالہ ’’ ملنگی حکومت ‘‘ اختتام پذیر ہوئی ہے تو سب کا یقین ہے کہ یہ ملنگ ’’جلیبی‘‘ کی طرح کا سیدھا سیاستدان نکلا ہے ۔ اُس کے پانچ سالہ دور میں سب سے زیادہ ابتلاء و آزمائش اور بے رُخی کا شکار عمران خان سے پیار کرنے والے ورکرز رہے ہیں ۔ اب ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے میں بھی بیس سال تک عمران خان کے ساتھ خاک چھاننے والوں کو مایوسی کی دلدل میں دکھیلنے والے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز نظر آتے ہیں ۔ کسی کی بھی نیت پرشک اور پارٹی سے وفاداری اور خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن جس انداز اور طریقے سے انہوں نے مختلف ادوار میں اقتدار کے دستر خوان کی لذتوں کو سمیٹے والے الیکٹیبلز کو ان کے علاقوں میں پارٹی کا اثاثہ بنادیا ہے۔ اُس سے وہ سیاسی بصیرت سے عاری اور درست فیصلہ سازی کے ہُنر سے محروم دکھائی ضرور دیتے ہیں ۔
خوشاب کے ملک فاروق بندیال کو پارٹی کا حصہ بنا کر جگ ہنسائی کے اسباب پیدا کیے گئے ایسی درجنوں بے وقوفانہ حرکات کے ازالے کا بوجھ عمران خان اور پی ٹی آئی کے ورکروں کو روزانہ اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ دو دہائیوں سے پاکستان تحریک انصا ف کے ورکرز اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں ۔ عمران خان کی اولین جدوجہد کے ساتھی سرگودھا کے مجید خان اور ان کے بیٹے عنصر مجید خان کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں اس علاقے میں ممتا ز کاہلوں جیسی شخصیت کی خدمات بھی سب کے سامنے ہیں ۔ لیکن یہاں مسلم لیگ ن کی ایک خاتون ایم پی اے کو اپنے ساتھ ملا کر نئے ااُمید وار لائے جا رہے ہیں ۔ ماحول کو بے یقینی کا شکار کیا جا رہا ہے ضلع میانوالی میں ٹکٹوں کی دستاریں جن جن سروں پر رکھنے کے یقینی اشارے دیئے جا رہے ہیں ان کے بارے میں یقیناً عمران خان بھی حیرانی کا شکار ہوئے بنا نہیں رہ سکیں گے ۔
سینٹ کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ کی صورتحال سے جس طرح نمٹا گیا ۔ پرویز خٹک نے جس انداز میں بہت سو ں کو بچایااور کئی ممبران کو پھنسایا اُس کہانی کے نقصانات کا سامنا بھی یقینا پارٹی کوکرنا پڑے گا۔ دانستہ یا دانستہ طور پر ہونے والی بے ضابطگیاں بھی سامنے آئیں گی ۔اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ منظور آفریدی کی بطور نگران وزیر اعلیٰ تقرری کی کہانی ، پنجاب کی پارلیمانی پارٹی اور اپوزیشن لیڈرکی کارکردگی کی ’’ سر دردی ‘‘ عمران خان کے لیے بلاوجہ کی پریشانی کا سبب بھی بنی رہے گی ۔
۔ عمران خان مقدر کا سکندر ہے ۔ اُس کا یقین اس قدر کامل یا پھر خود سر ہے کہ اکثر وہ’’ لاجک ‘‘کو بھی جھُٹلا دیتا ہے ۔وہ دوسرے پر خاص کر اپنے ساتھیوں پر اپنے یقین کی حد تک اعتماد کرتا ہے ۔ سیاست کے بیس بائیس سالوں میں اُسے سب سے زیادہ نقصان اپنے ساتھیوں پر اسی یقین کی وجہ سے اُٹھانا پڑا ہے ۔
عمران خان کی سیاست ایک انتہائی نازک موڑ پر ہے ۔ اُس کے دوستوں اور ساتھیوں پر اعتراض نہیں لیکن اس انتہائی اہم مرحلے پر انہیں فیصلہ سازی مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی ۔ پی ٹی آئی اس وقت سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے ۔ اس بے کنار سمندر کو صرف کپتان ہی سنبھال سکتا ہے۔ کیونکہ اُن جیسا یا اُس کے بے لوث کارکنوں جیسا اُس کے چاروں اطراف لگے ہوئے جھمگٹے میں دوسرا کوئی نہیں ہے ۔