وجود

... loading ...

وجود

ایٹمی پاکستان کے خلاف غلیظ سازشیں

جمعه 01 جون 2018 ایٹمی پاکستان کے خلاف غلیظ سازشیں

پاکستان 57اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جو کہ ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے اسی لیے تمام سامراجی واسلام دشمن قوتوں بالخصوص یہود و نصاریٰ اور ہندو گماشتوں کی نظر وں میں کھٹکتا رہتا ہے سبھی اسلام دشمن قوتیں پاکستان کے بطور نظریاتی مملکت وجود میں آجانے کے پہلے دن سے ہی اسے مٹاڈالنے کے لیے کوشاں رہی ہیں گو جناب بھٹو نے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے پرا قتدار سنبھالا تھا اور حمود الرحمٰن کمیشن نے اس وقت کے فوجی آمر یحیٰی خان بنگلہ بدھو مجیب الرحمٰن اورخواہش اقتدار رکھنے والے پاکستانی سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھاتاہم بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان میں1970کے انتخابات اکثریت سے جیت لیے تھے اس لیے انہیں ہی باقی ماندہ پاکستان کی قیا دت سونپ دی گئی انہوں نے ہندوستان کی طرف سے پاکستان کے فوجیوں کو رہا کروایا اور بعدازاں اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر کسی سامراجی قوت کی طرف سے پاکستان کی فوجی صلاحیت بڑھانے میں رکاوٹوں کو برداشت نہیں کریں گے گویا کہ ایٹمی پاکستان بنانے کے لیے کو ششیں بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہو گئیں اور عبدالقدیر خان کو بیرون ملک سے بلوا کر یہ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں مگر سا مراجی اسلام دشمن قوتوں کو پاکستان کی ایسی سرگرمیاں ایک آنکھ گوارانہ تھیں ۔

بھٹو صاحب نے پاکستان میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں سعودی عرب کے مایہ ناز سربراہ شاہ فیصل شہید کی کوششیں انتہائی قابل تعریف تھیں وہ عالم اسلام کو متحد کرنے کے زبردست حامی تھے اس لیے انہیں شہید کرواڈالا گیا ۔بعد ازاں بھٹو کی منتخب حکومت کو ختم کرکے فوجی آمر ضیاء الحق نے قبضہ کرلیاگو کہ اس کے دیگر عوامل بھی تھے مگر پی پی پی اور 1977کے سیاسی پارٹیوں کے اکٹھ پاکستان قومی اتحادہی اس کے ذمہ دارقرار پائے کہ نظام مصطفیٰ کی تحریک میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف جلسے جلوس کیے سینکڑوں کارکن زخمی اور درجنوں شہید ہو گئے جس پر بالآخر فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا سامراج چونکہ اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے بعد بھٹو صاحب کو نشان عبرت بنا نے کا فیصلہ کرچکا تھا اس لیے بھٹو صاحب پر سابقہ درج شدہ مقدمہ قتل پاکستانی عدالتوں میں چلاجس پر بالآخر انہیں پھانسی کے پھندا کو چومنا پڑا۔ اس طرح ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھنے والے مسٹر بھٹو نشان عبرت بن گئے۔ دریں اثناء آمر ضیا الحق کے دور میں افغانستان میں روسی افواج گھس کر قابض ہو گئیں تو صدر پاکستان سے “جہاد اسلامی”کروا کر افغانستان کو آزاد کروایا گیا جس کی امریکنوں نے بھرپور مالی و فوجی امداد کی۔سامراج کا مشن مکمل ہو چکا تھا اور ہر طرف امریکا کا ڈنکا بج رہا تھا کہ انہیں اب جنرل ضیا الحق کی قطعاً ضرورت نہ رہی تھی اس لیے ان کی بھی اقتدار سے چھٹی کروانے کے مختلف پروگرام ترتیب دیے جانے لگے ۔

راقم نے خود مل کر انہیں بتا یا کہ ان پر اسلامی اقدار کا حامل اور جماعتیاہو نے کا لیبل ہے اس لیے وہ سبھی حفاظتی گارڈز نظر یاتی لو گوں کو رکھیں مگر وہ لاپرواہی کر گئے بالآخر بہا ولپور کے نزدیک فوجی مشقوں کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ان کا طیارہ1988میں کریش ہو گیا (کرواڈالا گیا)اور سامراج کا ان سے جان چھڑوانے کا پروگرام بھی پایہ تکمیل تک پہنچ گیا محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ بذریعہ انتخاب اقتدار میں آگئیں تو بھی ایٹمی پروگرام جاری رہا۔ان پر بھی قاتلانہ حملہ کروا کر انہیں راستے سے ہٹا ڈالا گیا۔ انتخابی عمل کے ذریعے ہی میاں نواز شریف مقتدر ہوئے تو بھارت نے چار ایٹمی دھماکے کر ڈالے جس پر ان کی حب الوطنی جو ش میں آئی اور انہوں نے ایٹمی دھماکے کرنے کی ٹھان لی صدر امریکا گھنٹوں منتیں ترلے کرتے رہے کہ ایسا عمل مت کرو اور ذاتی طور پر پانچ ارب ڈالرز بطور رشوت کی بھی آفر کی مگر سبھی سابقہ محب وطن مقتدر افراد کی طرح انہوں نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے واحد ایٹمی ملک ہونے کا اعلان کر ڈالا۔پاکستان کے خلاف آج تک بھیانک سازشیں جاری ہیں جس میں ہندوستان برابر ملوث چلاآرہا ہے کبھی کشمیر کے اندر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جاتا ہے اور کبھی دریاؤں کا پانی مکمل بند کرکے پاکستان کو مکمل ریگستان بناڈالنے کی سازش کی طرف غلیظ قدم بڑھائے جاتے ہیں حالت بہ ایں جا رسید کہ پاکستا ن کی سرحدوں کے اردگرد ہندو بنیوں اور سامراجی قوتوں نے گھیرا کر رکھا ہے اور اندرون ملک بھی را اور دیگر تخریبی قوتیں سیاسی انتشار بڑھانے و مسلکی علاقائی جھگڑوں کو ابھارنے میں مسلسل کو شاں رہتی ہیں ایٹمی پاکستان کے خالق عبد القدیر خان کو اپنے خاص بندے پرویز مشرف کے دور میں نظر بند کروائے رکھا جسے بالآخر ٹی وی پر آکر ایٹمی پھیلاؤ کے بڑے جرم کا اعلان کرنا پڑا اوروہ معافی کابھی طلبگار ہوا۔

پاکستان میں ایٹمی دھماکے کرنے کے دن کو بطور یوم تکبیر ہر سال منایا جاتا ہے جو کہ20سال سے مسلسل جاری ہے چونکہ یہ” بڑا جرم “میاں نواز شریف نے کیا تھا اس لیے اسے بھی اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے “جرم عظیم “کا مرتکب ہونے پر ہٹایا جا چکا ہے اور مزید جیل یاترا بھی ہو سکتی ہے غرضیکہ بغیر کسی تعصب اور پارٹی پولیٹکس کے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایٹمی پاکستان بنا نے کے” تمام کردار مجرموں ” کوراستے سے ہٹانے کی مکمل پلاننگ اسلام دشمن قوتیں کرتی چلی جارہی ہیں اور ٹارگٹ صرف پاکستان کا “اسلامی بم “ہی صرف ہے۔ خدائے عز وجل کی خصوصی مدد شامل حال رہی تو شاید ایسا کبھی ممکن نہ ہو سکے گا اور پاکستان کے آئندہ مقتدر ہو جانے والے افراد اسلامی بم کے محافظ ہوجانے کے ناطے راستہ سے ہٹائے جاتے رہیں گے کہ سامراجیوں کے لیے ایسا کرنا” آسان عمل” رہتا ہے مگر پاکستان بدستور عالم اسلام کے رکھوالے کے طور پر زندہ و سلامت رہے گا اوربالآخر اللہ اکبر کی تحریک اسے اسلامی فلاحی مملکت بنا کر رہے گی جس میں تمام بنیادی سہولتیں عوام کو مفت مہیا ہوں گی اور دیرینہ مسائل غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری ،دہشت گردی، ختم ہوں گے اوراندرونی انتشار و لسانی مسلکی علاقائی جھگڑوں کا مستقل حل تلاش کر لیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر