... loading ...
جب کسی قوم کے عقل وشعورمیں بگاڑ آجاتا ہے اور وہ فی الفور ہوش کے ناخن نہ لے توتسلسل کے ساتھ بگڑ تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ بے عقلی اور بے شعوری کے کاموں کو بھی عقلمندی کے کام سمجھنے لگتی ہے ،یہی حال ہمارا ہے ۔ہم بگاڑ میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ اب مذہب اور اس کے احکام بھی ہمارے اس ظلم سے نہیں بچ پاتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم سراپا بگاڑ اور فساد ہیں اور ہماری وجہ سے ہر سو بگاڑ اور فساد پھیل جاتا ہے ۔یہ ہمارا اصل مرض ہے جس کو ہم تاویل کر کے چھپاتے پھرتے ہیں ۔مگر وقت وقت پر ہمارا یہ مرض ظاہر ہو ہی جاتا ہے ۔مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ تراویح کی نماز کی تعدد رکعت پر علما ء کے بیچ اختلافات نہیں ہیں اور نہ ہی مجھے اس بات سے انکار ہے کہ دونوں طرف دلائل ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جب بھی ماہ مبارک رمضان کا رحمت بھرا مہینہ سایہ فگن ہو جاتا ہے تو تراویح کی نمازکی رکعتوں پر منبر ومحراب سے لیکر بازاروں تک ہر جگہ زور دار بحثیں شروع ہو جاتی ہیں اور اپنی اپنی فکر اور سوچ کے لوگوں میں چھوٹے چھوٹے رسائل تقسیم کیے جاتے ہیں اور ہر عالم دوسروں کے دلائل کو رد کرتے ہوئے صرف اپنی بات پر بہت اصرار کرتا ہے کہ گویا حق صرف اسی کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ہمیں بے نمازیوں کی کوئی فکر نہیں ہے بلکہ ہم نمازیوں کے ہی پیچھے پڑے ہو ئے ہیں اور ہماری توتو میں میں سے وہی منتشر اور پریشان ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر انجام دیا جاتا ہے ۔ایک تبلیغی جماعت کے سوا کوئی بھی جماعت ان کے لیے بحیثیت مجموعی پریشانی اور اضطراب کا مظاہرا نہیں کرتی ہے اور اگر کوئی بے چینی کا اظہار کر بھی لیتا ہے مگر عملی طور پر ’’بے نمازیوں کو مسجد تک لانے کے لیے ‘‘کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ایک تبلیغی جماعت ہی متحرک نظر آتی ہے ۔ہم سب جانتے ہیں کہ تراویح سنت ہے فرض نہیں ،جبکہ تارک صلوٰۃ کافر نہ صحیح عندالکفر ضرور پہنچ جاتا ہے مگر افسوس یہ کہ ہم میں کسی کا دل ان کے لیے رنجیدہ نہیں ہے بلکہ سارا زور تراویح پر لگادیا جاتا ہے جو سنت ہے ۔
یہ صورتحال قابل برداشت ہوتی اگر دونوں طرف کے علماء بردباری کا مظاہراہ کرتے ہوئے اپنے ’’علمی اختلافات‘‘کو کارکنان تک نہ پہنچاتے ۔اختلافات اپنی ذات میں برے نہیں ہو تے ہیں یہ بسا اوقات فائدہ مند بھی ہو تے ہیں مگر کھبی کبھار نقصان دہ بھی ۔تراویح میں تعدد رکعات کا اختلاف اتنا سنگین بن چکا ہے کہ جہاں مسجدیں مخلوط ہو تی ہیں وہاں اگر احتیاط نہ برتی جائے تو روز کے جھگڑے کبھی نہیں رکیں گے مگر ماہ مبارک رمضان میں یہ اختلافات اور بھی طول پکڑتے ہیں ۔یہ صورتحال اور اختلاف تب اور بھی سنگین بن جاتا ہے جب دو مخالف مسالک یا فکر کے لوگ ایک دوسرے کو گمراہ ،ملحد ،زندیق اور نہ معلوم کیا کیا شمار کرنے لگتے ہیں پھر برادریاں ٹوٹ جاتی ہیں بلکہ بسااوقات رشتوں تک کو نقصان پہنچ جاتا ہے ۔عام رفقاء اورر کارکنان اس سب کو کار دین سمجھتے ہوئے اعلیٰ قسم کا جہاد خیال کرتے ہیں اور بعض ’’مبلغ‘‘اسکو ہوا دیکر صورتحال کو مزید خوفناک بناتے ہیں پھر مصالحت پسندوں کی کوششیں بھی بے کار ہو جاتی ہیں ۔ہمارے علاقے میں ایک ناعاقبت اندیش مبلغ سے عوام نے تراویح کی تعدد رکعت پر سوال پوچھا تو جناب نے عوام کے مسلک و مشرب کا اعتبار کیے بغیر اپنی رائے اور مسلک پر شدید اصرار کیا جس سے عوام مشتعل ہوگئی کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء ہم سے جھوٹ بولتے ہیں یا گمراہ کرتے ہیں۔ توتو میں میں سے معاملہ آگے بڑھکر لڑ جھگڑنے تک پہنچ گیا ،پولیس نے دونوں جماعتوں کو گرفتار کر کے تھانے پہنچا دیا اور موقع پر موجود ’’ہندؤپولیس آفیسر‘‘معاملہ سن کر بہت پریشان ہوا کہ اس مسئلے کو حل کیسے کردے تو اس نے دونوں جماعتوں سے تحکمانہ لہجے میں کہا سنو آئندہ اس مسجد میں نہ کوئی آٹھ پڑھے گا نہ بیس بلکہ دونوں جماعتیں صرف بارہ پڑھیں گے اس لیے کہ یہی بیچ کی راہ ہے ۔آخر ایک ہندؤآفیسر کس طرح دین کے اس نازک مسئلے کو حل کر سکتا ہے جس کی اس بے چارے کو ابجد بھی معلوم نہیں ہے ۔یہ تو واعظین اور مبلغین کو سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ کس طرح اختلافی امور میں اپنی رائے ’’مخلوط ماحول‘‘میں پیش کریں ۔وہ اپنی روزی روٹی اور تنظیمی نوکری کے لیے مسلمانوں کا اتحاد تو درکنار ان کا قتل عام بھی برداشت کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں ،
نمازتراویح کی رکعتوں میں اختلاف آج کانہیں بہت پرانا ہے ۔ ائمہ اربعہ سے تروایح کم از کم بیس رکعات ثابت ہیں البتہ امام مالکؒ سے ایک روایت اکتالیس اور ایک چھتیس کی مروی ہیں جبکہ ان کی ایک روایت جمہور کے مطابق ہے ۔اکتالیس والی روایت میں بھی تین وتر اور دو نفل بعد الوتر کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل بیس اور چھتیس رکعات ہی ہیں اور چھتیس کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ اہل مکہ کا معمول بیس رکعات تراویح پڑھنے کا تھا لیکن وہ ہر ترویحہ کے درمیان ایک طواف کرتے تھے ۔اہل مدینہ چونکہ طواف نہیں کر سکتے تھے ،اسلیے انھوں نے اپنی نماز میں ایک طواف کی جگہ چار رکعتیں بڑھا دیں اور اس طرح اہل مکہ کے مقابلے میں سولہ رکعتیں زیادہ ہو گئیں اسے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی رکعات تراویح کی تعداد بیس تھیں گویا بیس رکعات پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ۔امام ابن خزیمہؒ اور امام ابن حبانؒ دونوں نے اپنی صحیح میں یہ روایت درج کی ہے کہ حضور ﷺ انھیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماََ نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے تھے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیامکرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دئے جاتے ہیں پھر حضور ﷺ کے وصال تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابو بکرؓ اور خلافت عمرؓ کے اوائل تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے انھیں حضرت اُبی بن کعبؓ کی اقتدأ میں جمع کردیااور وہ انھیں نماز(تراویح) پڑھایا کرتے تھے ۔لہذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازتراویح کے لیے اکٹھے ہوئے تھے (ابن حبانؒ الصحیح جلد اول 353،امام ابن خزیمہؒ جلد3،833)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے فرمایا کہ حضورﷺرمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے (طبرانی ،المعجم الکبیر ،11،311،ابن ابی شیبہ ،المصنف،2،164)حضرت سائب بن یزیدؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے (بیہقی ،السنن الکبریٰ،2:699) ۔امام مالک ؒ اپنی موطا میں حضرت یزید بن رومان کی روایت نقل کی ہے کہ رمضان میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے(اس روایت پر بعض علماء نے کلام کیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے )۔ اگر حضرت عمرؓ کے فعل ہی کو تنہا لیا جائے کہ انھوں نے صحابہ کی کافی بڑی تعداد کی موجودگی میں سارے مسلمانوں کو بیس رکعت پر جمع کر دیا تو یہ اپنی ذات میں بہت بڑی دلیل ہے اس لیے حضڑت عمرؓ سے بڑا ’’بدعت کا دشمن‘‘کون ہو سکتا تھا ؟اور اگر بالفرض ایسا بھی ہوتا کہ ان میں کسی طرح کا کوئی تساہل ہی پیدا ہو جاتا تو وہ صحابہ جو حضور ﷺ کی سنتوں پر اپنی جانیں نچھاور کرتے تھے کیا اس چیز کو کسی بھی طرح برداشت کرتے کہ حضرت عمرؓ انھیں کسی ایسی چیز پر عمل کرائیں جو حضور ﷺ ثابت ہی نہ ہو ۔ (جاری ہے )