وجود

... loading ...

وجود

پروفیسر محمد رفیع بٹ نے بندوق کا انتخاب کیوں کیا

جمعه 18 مئی 2018 پروفیسر محمد رفیع بٹ نے بندوق کا انتخاب کیوں کیا

آج کل ہر گلی اور گھر میں ایک ہی موضوع پر بحث جاری ہے کہ پروفیسر محمد رفیع بٹ نے اعلیٰ ترین سرکاری نوکری چھوڑ کر انتہائی پر خطر راستہ کیوں اختیار کیا تھا؟کوئی کہتا ہے یہ مایوسی کی علامت ہے کہ ایک پی،ایچ،ڈی اسکالر اچھی نوکری ملنے کے بعد اس کو ٹھوکر مار کر وہ راستہ اختیار کرے جس کے قدم قدم پر موت سایے کی طرح پیچھا کرتی ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ یہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ میرا منصب کیا ہے اور میری پوزیشن کیا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اس کی وجہ مسئلہ کشمیر کی طوالت ہے جس نے اب کشمیر کی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگوں کو قلم چھوڑ کر بندوق کی طرف مائل کردیا ہے ،گویا جتنے منہ اتنی باتیں۔بی، بی، سی (اردو)نے 7مئی2018ء کو اس واقع پر اس طرح تبصرہ کیا کہ’’ ڈاکٹر محمد رفیع بٹ چند روز قبل سلجھے ہوئے دانشور، مقبول پروفیسر اور بہترین محقق کے طور جانے جاتے تھے۔انھوں نے پانچ مئی کی دوپہر کو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں اپنا آخری لیکچر دیا اور روپوش ہو گئے۔ صرف چالیس گھنٹے کے بعد حزب المجاہدین کے چار مسلح شدت پسندوں کے ہمراہ وہ جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں محصور ہو گئے اور مختصر تصادم کے بعد مارے گئے۔ان کی نئی شناخت ان کی سابقہ اہلیتوں پر غالب آ گئی۔ لوگ اب انھیں ’مجاہد پروفیسر‘ کہتے ہیں۔سری نگر کے مشرقی ضلع گاندر بل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر رفیع غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک تھے۔انھوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد انڈیا کے قومی سطح کا امتحان نیشنل ایلیجیبلٹی ٹیسٹ دو مرتبہ پاس کیا اور اس کے لیے انھیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے فیلو شپ بھی ملی۔ انھوں نے بعد میں اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور گذشتہ برس ہی کشمیر یونیورسٹی کے سوشیالوجی شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ڈاکٹر رفیع کے اکثر طلبا بات کرنے سے کتراتے ہیں اور جو بولنے پر آمادہ ہیں وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے چند طلبانے بتایا کہ ڈاکٹر رفیع کے بارے میں ایسا خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ وہ مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔’وہ تو ہمیں تحفے میں کتابیں دیتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مابعد جدیدیت پر مجھے ایک کتاب دیں گے۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے کہ یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا؟‘

بی ، بی، سی نے اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر رفیع کے رشتہ داروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب وہ میڈیا میں ہلاکتوں یا زیادتیوں کی تفصیلات دیکھتے تھے تو پریشان ہوجاتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کوئی اشارہ کبھی نہیں دیا کہ وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنا چاہتے ہیں۔جموں کشمیر پولیس کے سربراہ شیش پال وید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رفیع کے دو کزن مارے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہو گئے ہوں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انتہا پسند رحجان بھی ڈاکٹر رفیع کے ذہنی ارتقا کا باعث ہو سکتا ہے۔چند ماہ قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر منان وانی بھی روپوش ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے تھے تاہم ڈاکٹر رفیع پہلے پروفیسر ہیں جنھوں نے باقاعدہ مسلح گروپ میں شمولیت کی۔
تیس سال قبل جب یہاں مسلح شورش شروع ہوئی تو کئی پروفیسر مسلح گروپوں کے حمایتی ہونے میں پراسرار حالات میں مارے گئے

۔ ان میں ڈاکٹر عبدالاحد گورو، پروفیسر عبدالاحد وانی، ڈاکٹر غلام قادر وانی اور ایڈوکیٹ جلیل اندرابی وغیرہ قابل ذکر ہیں(بی،بی،سی اردو 7مئی 2018ء)۔میرے خیال میں بے شمار اسباب میں ڈاکٹر محمد رفیع بٹ کے بندوق کا پر خطر راستہ اختیار کرنے میں کئی ایک اسباب اور عوامل شامل ہو سکتے ہیں مگر اصل مسئلہ تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ ہونا نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کشمیری نوجوان بندوق اٹھا کر’’ بھارت کی ریاستی رٹ ‘‘قبول کرنے کے لیے آمادہ کیوں نہیں ہیں ؟اعلیٰ تعلیم یافتوں کے بندوق اٹھانے پر بحث صرف اس وقت ہلچل پیدا کرتی ہے جب بھارتی فلم انڈسٹری سے متاثر ٹیلی ویژن اینکرس اور پینلسٹس اب تک کے جھوٹے اور پرفریب تجزیوں سے خوف کھاتے ہوئے عوام الناس میں ننگے ہونے سے پریشان ہو جاتے ہیں اس لیے کہ ان جھوٹوں نے بھارت کی عوام کو یہ کامیاب تاثر دیدیا ہے کہ کشمیر کی وادی اورچمبل گھاٹی کے بندوق برداروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے سوائے زبان کے ۔چمبل گھاٹی کے ڈاکو عوام کو بندوق کی نوک پر لوٹ کر قتل کرتے ہیں پھر انہی کے مال سے اپنے عیش و آرام کا سامان جمع کر کے عیاشی کی زندگی گذارتے ہیں ۔ہندوستانی میڈیا کے اس پروپیگنڈے کا اثر فلم انڈسٹری پر بھی مرتب ہوا تو انھوں نے ہزاروں فلموں میں ہر جگہ دہشت گردی کے رول کے لیے داڑھی والے مسلمان کا حلیہ چن لیا جبکہ شرافت و نجابت کے لیے دھوتی اور زنار پہنے پنڈت جی مہاراج کا حلیہ منتخب کر لیا ۔اس پروپیگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ اب تک بھارت کی سوا ارب آبادی یہی سمجھتی رہی ہے کہ کشمیر میں ہندوستان کے ساتھ برسرپیکار لوگ انتہائی سنگ دل ڈاکو ؤں کی کوئی ایسا گروہ ہے جو ان پڑھ ،گنوار اور جاہل بھی ہیں ۔

اگر بھارتی پروپیگنڈا باز میڈیا نے اب تک جھوٹ نہ بولا ہوتا تو آج’’ پروفیسر محمد رفیع بٹ کی شہادت‘‘پر بھارتی عوام و خواص کو حیرت نہیں ہوتی ۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر اتنا لکھا پڑھا اور اچھی نوکری کرنے والا شخص کیوں گھر کا آرام چھوڑ کر پر خطر راستہ اختیار کرے ۔بھارت کی غریب عوام جہاں ساٹھ کروڑ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کھانے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان جیسے واقعات کو ’’خواب یا جنون‘‘سمجھنے پر مجبور ہیں ۔بھارت کے عوام کا یہ رویہ اس لیے بھی حیران کن نہیں ہے کہ ان کے خواص ستر برس کے بعد بھی کشمیر کے حوالے سے جہالت کے شکار ہیں ۔میڈیا کا ظالمانہ اور مجرمانہ رول اپنی جگہ مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ بھارتی عوام دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں اس لیے بھی بے حس ہے کہ ان کے نزدیک صرف وہی سچائی اور علم ہے جو ان کے من کو بھاتا ہے ۔پروپیگنڈا کے باوجود بھارت کی عوام اتنا تو جانتی ہی ہے کہ کشمیر بھارت کے ساتھ مطمئن نہیں ہیں اور وہ آزادی چاہتے ہیں چاہیے مانگنے والے لکھے پڑھے ہوں یا ان پڑھ۔سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آزادی لکھے پڑھے مانگتے ہیں بلکہ یہ ہوناچاہیے تھا کہ کون اور کتنے مانگتے ہیں اس لیے کہ جب بھارت کی عوام (مسلم یا غیر مسلم) نے آزادی مانگی تو اس وقت ان کی تعلیمی شرح کیا تھی ؟1947ء کے وقت بھارت کی شرح خواندگی17%تھی جبکہ 2011ء کی مردم شماری اعداد و شمار کے مطابق 70%سے بھی زیادہ ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کے برعکس جموں و کشمیر کی شرح خواندگی ہر دور میں اسے بہتر اور اچھی رہی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشمیری آزادی کیوں مانگتے ہیں ؟اور بھارت کے ساتھ اطمینان کے برعکس عدم دلچسپی کا مظاہراکیوں ہیں؟اگر بھارتی میڈیا نے اپنی عوام کے سامنے یہ سوالات چھیڑ کر سچائی پر مبنی جوابات تلاش کیے ہوتے تو شاید صورتحال کافی مختلف ہوتی ۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر