... loading ...
کسی بھی سیاسی رہنما میں ایک رتبے کا احساس مغربی تصورِ سیاست میں مباح ہے۔ مگر عظمت ایک مختلف چیز ہے۔ نکسن نے کمال کا فقرہ لکھا:عظیم قوموں کی رہنمائی کرنے والے ’’چھوٹے لوگ‘‘ کسی بڑے بحران کے دوران عظمت کی کسوٹی پر اپنے آپ کو واضح طور پر کامیاب ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں‘‘۔نوازشریف ا س کی بدترین مثال ہے۔ جن کی انانیت پاکستان سے بڑھ چکی ہے۔ وہ کوئی چرچل بھی نہیں ، عظمت جن پر ٹوٹ کر برستی تھی۔جو اپنی قوم کو عظیم بحرانوں سے نکال لائے تھے۔ جنگ عظیم کا بار جنہوں نے اُٹھایا تھا۔ پھر بھی اُنہیں قوم نے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔چرچل جانتے تھے کہ کس طرح جب کوئی اپنی عظمت کی بلندی سے گرتا ہے تو لوگ اُس کی تکا بوٹی کردیتے ہیں۔ خود ترحمی کے کسی لمحے میں اُن کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
’’مجھے دیکھو! میں تیس سال تک برطانوی دارالعوام کا رکن رہا، مملکت کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہا، اور مجھے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے، میں راندۂ درگاہ ہوں، رد شدہ ہوں،تنہا چھوڑ دیا گیا ہوں، نامقبول ہوں‘‘۔
چرچل کے بیانئے میں کہیں پر بھی ریاست کے بے رحم حقائق اور تضادات کا ذکر نہیں ملے گا۔ وہ شخص جو فنِ گفتگو سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ ریاستی حقائق کے متعلق خاموش رہتا ہے۔ مگر ہمارا ’’چرچل‘‘ تو ’’شیر ہے اور لسّی پیتا ہے۔ جنہیں بولنے کے لیے پرچی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کلبھوشن کے لیے منہ سے بھاپ تک نہیں نکالتا۔ مگر جب بھارت کے حق میں کسی بیانئے کی تشکیل کا مرحلہ آئے اور قومی اداروں کی تذلیل مقصود ہوتو اُن کی زبان اچانک فراٹے بھرنے لگتی ہے اور اُنہیں کسی پرچی کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ درحقیقت نوازشریف انانیت کی ایک پوٹ ہے جنہیں پاکستانی سیاست کے بے رحم حقائق اور حالات کے جبر نے جہاں تک پہنچایا، اُس کے وہ حقدار نہ تھے۔
پاکستانی سیاست کی تین دہائیاں چاٹنے والے اس عجیب وغریب سیاست دان نے معاشرے میں طرح طرح کی عصبیتوں کو زندہ کیا اور پاکستان کے پورے تصور اور تاریخ کو داؤ پر لگا دیا ۔ سریل المیڈا کو دیے گئے تازہ انٹرویو کے مضمرات بہت زیادہ ہیں۔ پہلا سوال ہی یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوازشریف نے اس نوع کی گفتگو کے لیے سریل المیڈا کا انتخاب ہی کیوں کیا؟وہ اس سے پہلے ڈان لیکس کے درونِ خانہ ہنگامے کا سامنا کر چکے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ سریل المیڈا کے ساتھ اُن کی گفتگو مخصوص حلقوں میں ایک خاص طرح کا ردِ عمل پیدا کرے گی؟ اگر نوازشریف اس انٹرویو میں انتہائی گمراہ کن گفتگو سے گریز بھی کرتے اور عام سے سادہ سیاسی حقائق تک محدود رہتے تب بھی سریل المیڈا سے اُن کی گفتگو تیوریوں پر بل لانے کے لیے کافی تھی۔ نوازشریف تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر جلوہ افروز رہنے کے باعث اس کھیل کے تمام بھید بھاؤ جانتے تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ نوازشریف نے جانتے بوجھتے سریل المیڈا اور ڈان گروپ کا انتخاب کیا تھا۔
نوازشریف نے سریل المیڈا اور ڈان گروپ کے انتخاب کے ساتھ اپنا موضوع بھی خود منتخب کیا۔اس بات کو سریل المیڈا نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنے انٹرویو میں اس نکتے کو اُجاگر بھی کیا۔ سریل المیڈا کے مطابق:
Asked what he believes is the reason for his ouster from public office, Mr Sharif did not reply directly but steered the conversation towards foreign policy and national security.
آشکار ہے کہ نوازشریف سے سوال اُنہیں وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل کرنے کی وجوہ جاننے کے حوالے سے کیاگیا تھا ،مگر اُن کا جواب خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے متعلق امور پر مرتکز ہو گیا۔ ’’افغانستان کا موقف سنا جاتا ہے، لیکن ہمارا نہیں۔۔۔۔عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں، جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے۔ مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہئے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں‘‘۔
سوال جواب کی ساخت پر نگاہ ڈالئے تو صاف نظر آتا ہے کہ نوازشریف نے جو کچھ کہا وہ اپنی مرضی سے کہا۔ اُنہیں اُکسایا نہیں گیا، وہ پہلے سے اپنے طے شدہ موقف کے تحت بات کررہے تھے۔ جس کے الفاظ و معانی متعین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نوازشریف کے انٹرویو پر ردِ عمل آیا تو شہبازشریف نے بطور پارٹی صدر یہ کہا کہ نوازشریف کے بیان کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا اور اس تحریف شدہ موقف کی ہم تائید نہیں کرتے۔ مگر نوازشریف نے اس وضاحتی بیان کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ اور اپنے موقف پر قائم رہے۔ سب سے پہلے اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ایک ٹوئٹ کے ذریعے واشگاف کیا کہ ’’میاں صاحب نے جو کہا وہ ملک کے بہترین مفاد میں کہا‘‘۔ گویا مریم نے نوازشریف کے بیان کو ہو بہو درست تسلیم کیا۔ اگلے روز کوئی ابہام نہیں رہا جب ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر نوازشریف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے ڈان اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کیا غلط کہا‘‘؟ نوازشریف نے اس موقع پر اپنے انٹرویو کا متعلقہ حصہ پڑھ کر بھی سنایا۔ گویا نوازشریف نے جو کچھ کہا ، اُس کو کہیں پر بھی توڑا مروڑا نہیں گیا۔ وہ اُن کا سوچا سمجھا موقف ہے۔ اور اس پر شہبازشریف کی وضاحت کی کوئی حقیقت واہمیت نہیں۔
اب ذرا نوازشریف کے موقف کا اجمالی جائزہ لے لیجیے! افغانستان کا موقف کیوں نہ سنا جائے گا کہ امریکا وہاں خود موجود ہے۔ امریکا اپنے ہی موقف کو نہ سنے گا تو کس کاسنے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس موقف کی کوئی اصابت او رحیات ہے۔ یقین نہیں آتا کہ نوازشریف کو ممبئی حملوں کے راولپنڈی میں جاری مقدمے کی عدم تکمیل سے پریشانی ہے۔ احتساب عدالت سے باہر اُنہوں نے انٹرویو سے بھی زیادہ سنگین بات کی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ تاثر یہ ہے کہ بھارت ممبئی حملہ کیس میں شواہد نہیں دے رہا؟ اس پر نواز شریف نے کہا کہ ہمارے پاس بھی شواہد کم نہیں ہیں، بہت شواہد ہیں‘‘۔ گویا اس معاملے میں بھارت کی سرے سے کوئی ذمہ داری نہیں ۔ پاکستان کے پاس ممبئی حملے کے شواہد اپنے طور پر اتنے موجود ہیں کہ ہماری عدالتیں بغیر بھارتی تعاون کے خود ہی کوئی فیصلہ صادر کرسکتی ہے۔ ماشاء اللہ!!!انٹرویو کا جوہری مطالعہ فرمائیں تو سب سے خطرناک نکتہ یہ اُبھرتا ہے کہ نوازشریف غیر ریاستی عناصر کو دراصل ریاستی عناصر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اُن کے بیانیے کے مطابق کیا غیر ریاستی عناصر کو اس کی’’ اجازت ‘‘ دینی چاہئے کہ وہ سرحد پار جاکر 150 لوگوں کو قتل کردیں۔ گویا پاکستان کے غیر ریاستی عناصر دراصل ریاستی اداروں کی’’ اجازت‘‘ سے سرحد پار جاکر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک اتنا سنگین موقف اور فوج کے خلاف اتنا زہریلا مقدمہ نہیں بنایا گیا۔
نوازشریف کا یہ بیانیہ اس قدر سنگین ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں نے فوراً اس پر ایک اجلاس کی ضرورت محسوس کی اور گزشتہ روز وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کے اجلاس میں نوازشریف کے بیان کو مسترد کیا گیا۔ مگر یہ معاملہ محض اتنا سادہ اور استرداد تک محدود رہنے والا نہیں۔ بھارت نے نوازشریف کے اس موقف کے بارود کو پاکستان کے خلاف بچھانا شروع کردیا ہے۔ اور بھارتی میڈیا اس جنگ کا ہر اول دستہ بن چکا ہے۔ پاکستان کو تادیر اس موقف کی قیمت ادا کرنی ہے۔ مگر یہاں اولیّن مسئلہ نوازشریف کا ہے۔ جن میں بانی متحدہ اور شیخ مجیب کی نفسیات انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جانتے نہیں کہ اُن کے موقف کے کیا اثرات قومی اور بین الاقوامی سطح پر پڑ سکتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کررہے ہیں۔ اور اس کا ہدف محض یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ قومی اداروں کو مجبور کررہے ہوں کہ اُنہیں موجودہ حالات میں رستہ دیا جائے۔ نوازشریف کی اس نفسیات کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس سے آگے جاکر سوچ رہے ہیں۔ یہ بات اُن کی بدن بولی سے پوری طرح مترشح ہے۔ جسے پھر کبھی موضوع بنائیں گے۔ یہاں نکتہ صرف یہ ہے کہ نوازشریف کا موقف سوچا سمجھا اور اپنے طے شدہ ہدف کے عین مطابق ہے اور وہ کوئی کام غلطی سے نہیں کررہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کے پاس گنجائش کتنی ہے۔ نوازشریف یہ پہلو شاید نہ سمجھ سکیں کیونکہ وہ عظمت اور انانیت کے فرق کو نہیں سمجھتے۔