وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں تسلسل سے ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی

بدھ 09 مئی 2018 بلوچستان میں تسلسل سے ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی

بلوچستان کے علاقے خاران میں شرپسندوں نے نجی موبائل فون کمپنی کے ٹاور پر کام کرنیوالے دو بھائیوں سمیت اوکاڑہ کے چھ مزدوروں کو گزشتہ روز فائرنگ کرکے قتل اور ایک کو زخمی کر دیا۔ لیویز حکام کے مطابق خاران شہر سے 90 کلومیٹر دور لجے کے پہاڑی مقام پر موبائل کمپنی کا ٹاور لگانے میں مصروف مزدوروں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائر کھول دیا۔ اس واردات میں قتل اور زخمی ہونیوالے تمام مزدوروں کا پنجاب کے علاقے اوکاڑہ سے تعلق ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی اسسٹنٹ کمشنر خاران مشتاق احمد اور تحصیلدار ہاشم لیویز فورس کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچے اور نعشوں اور زخمی شخص کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا۔ بعدازاں ضروری کارروائی کے بعد نعشیں اوکاڑہ روانہ کردی گئیں۔ لیویز نے نامعلوم ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرکے سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں چار کا تعلق اوکاڑہ کے نواحی گاوں 49۔ٹو۔ایل سے ہے جبکہ زخمی مزدور بھی اسی گا?ں سے تعلق رکھتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جاں بحق ہونیوالے مزدور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھر بار چھوڑ کر مزدوری کی خاطر دو روز قبل ہی کوئٹہ آئے تھے جبکہ مقتول مظہر کی شادی تین سال قبل ہوئی تھی۔

اگرچہ بلوچستان کو ملک کے پسماندہ ترین صوبے میں شمار کیا جاتا ہے جہاں قومی اور صوبائی ترقی میں بلوچستان کے عوام کا عمل دخل نہ ہونے کے ناطے ان میں محرومی کا احساس دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے تاہم بلوچستان کے قوم پرست لیڈران بلوچستان کی محرومیوں کو اپنے پاکستان مخالف ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے اجاگر کرتے اور اس پر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت تک بلوچستان اور کے پی کے ایک ہی صوبائی حکومت کے ماتحت تھے جو مفتی محمود کی قیادت میں تشکیل پائی تھی۔ اس وقت بھی حکومت مخالف عناصر بالخصوص بلوچ قوم پرست لیڈران بلوچستان کی محرومیوں کو اپنے حق میں کیش کرانے میں کامیاب ہوتے رہے اور آج بھی یہی عناصر اپنے پاکستان مخالف ایجنڈے پر سرگرم عمل ہیں۔ تاہم بلوچستان میں اب عوامی شعور و آگہی کے حوالے سے فضا خاصی حد تک تبدیل ہوچکی ہے اور بلوچستان کی مبینہ محرومیوں پر سیاسی دکانداری چمکانا صرف بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کا ہی خاصہ نہیں رہا بلکہ اب بلوچستان کے حکمرانوں کی جانب سے بھی بلوچستان کی محرومیوں کے تناظر میں وفاق مخالف سوچ اجاگر کی جاتی ہے۔ سابق جرنیلی آمر مشرف کے دور حکومت میں ہونیوالے امریکی نائن الیون کے سانحہ سے پاکستان کے عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن پر انسداد دہشت گردی کے نام پر درحقیقت دہشت گردی مسلط کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنایا تو اس سے قومی خودمختاری بھی جھٹکے کھاتی نظر آتی رہی اور عوام کی ہزیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ مشرف کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار میں لاپتہ کیے گئے ملک کے زیادہ تر شہریوں کا بلوچستان سے تعلق تھا جس پر بلوچ قوم پرست رہنما?ں کی جانب سے ردعمل بھی سامنے آنے لگا۔

اسی پس منظر میں بلوچستان کے بزرگ قائد اور سابق گورنر و وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اکبربگٹی مشرف کی پالیسیوں سے مایوس ہو کر قوم پرستی کو ابھارتے ہوئے حکومت کی مزاحمت کے لیے سرگرم ہوگئے جنہوں نے بالخصوص بلوچ قوم کی نئی نسل کو زیادہ متاثر کیا۔ مشرف نے نواب بگٹی کیخلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا تو وہ ڈیرہ بگٹی میں اپنے جنگجو ساتھیوں کے سمیت ایک سرنگ کے اندر چلے گئے جہاں سے وہ جرنیلی حکمران کی مزاحمت کے اعلانات کرنے لگے چنانچہ مشرف نے بگٹی کے خفیہ ٹھکانے پر اپریشن شروع کرادیا جسکے دوران انکی اپنے ساتھیوں سمیت سرنگ کے اندر ہی ہلاکت ہوئی تو فوجی اپریشن کی بنیاد پر بلوچ قوم پرستوں نے وفاق اور اسکی اکائی پنجاب کیخلاف علاقائی منافرت کی فضا ہموار کرنا شروع کردی۔ اسی فضا میں بلوچستان کے ناراض قوم پرست لیڈران بالخصوص بگٹی خاندان کے براہمداغ بگٹی اور مری اور مینگل قبیلے کے ناراض قوم پرست نوجوان لیڈروں نے بلوچستان میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے پلیٹ فارم پر پاکستان مخالف تحریک شروع کی جسے جلد ہی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی سرپرستی اور فنڈنگ دستیاب ہوگئی۔ اسی تحریک کے ماتحت بلوچستان میں پاکستان کے پرچم نذر آتش کرنے اور بالخصوص پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ایف سی اہلکار بھی ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آنے لگے۔ اس طرح بلوچستان میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوئی جو ملک کی سلامتی کے تناظر میں انتہائی خطرناک صورتحال تھی مگر مشرف نے دانستہ طور پر اس فضا کو مستحکم ہونے دیا‘ نتیجتاً علیحدگی پسند عناصر کو مکمل کھل کھیلنے کا موقع ملتا رہا جبکہ براہمداغ بگٹی اور دوسرے علیحدگی پسند بلوچ لیڈران نے پہلے کابل اور پھر لندن کو اپنی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جہاں بیٹھ کر وہ بھارتی سرپرستی میں اقوام متحدہ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اسی طرح انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگرس تک بھی رسائی حاصل کرلی جہاں وہ اپنی پاکستان مخالف تحریک کے حق میں قرارداد منظور کرانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ اسی تحریک کے دوران علیحدگی پسند عناصر نے زیارت میں موجود بانی¿ پاکستان قائداعظم کی ریذیڈنسی کو بھی نذر آتش کیا۔

مشرف کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو اسکی حکومت کو بلوچستان میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا جہاں علیحدگی پسندی کی تحریک کے علاوہ فرقہ ورانہ کشیدگی اور منافرت کو بھی انتہاء تک پہنچایا جا چکا تھا اور دہشت گردی کی وارداتیں اور ٹارگٹ کلنگ روزمرہ کا معمول بن چکی تھیں۔ چنانچہ اقتدار میں آنے کے بعد آصف علی زرداری نے سب سے پہلے کوئٹہ جاکر بلوچ قوم سے معافی مانگی اور پھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لیے خطیر رقم کیساتھ آغاز حقوق بلوچستان کے نام پر فنڈ قائم کیا مگر بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے حکومت کی کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی بلکہ پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی کئی نامور شخصیات کی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کو بلوچستان میں اپنی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذ کرنا پڑا مگر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق امن کی بحالی کی کوئی نوید نہ لاسکا۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی تو میاں نوازشریف نے سب سے پہلے بلوچستان کی صورتحال پر توجہ دی جہاں انہوں نے بلوچ قوم پرستوں کیساتھ مل کر حکومت تشکیل دی اور پھر بلوچستان کی محرومیوں کے ازالہ کے لیے ایک جامع پیکیج کا اعلان کیا جبکہ انہوں نے فرقہ ورانہ کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کیا۔ اسی دوران بلوچ قوم پرستوں کی علیحدگی پسندی کی تحریک میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے عملی کردار کے شواہد ملے جبکہ نوازشریف کی حکومت اس وقت چین کی معاونت سے گوادر پورٹ اور اس سے منسلک اقتصادی راہداری منصوبے کا بیڑہ اٹھا چکی تھی جس کی تعمیر و تکمیل بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کی متقاضی تھی۔ چنانچہ حکومت نے بلوچستان میں ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا جس کا دائرہ بعدازاں کراچی تک وسیع ہوا‘ اس اپریشن کے نتیجہ میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں کافی حد تک قابو پالیا گیا اور پھر سکیورٹی فورسز کے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجہ میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی امن کی بحالی کی نوید ملنے لگی۔ اگرچہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بلوچستان میں اپنا منظم نیٹ ورک قائم کیا تاہم اسکے جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری سے یہ نیٹ ورک غیرموثر ہوگیا۔

اس تناظر میں توقع تو یہی تھی کہ بلوچستان اب امن و امان کی مستقل بحالی کی منزل سے ہمکنار ہو جائیگا تاہم گزشتہ دو ماہ سے جس تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کو پاکستان میں پیدا ہونیوالی سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے جسکے باعث اسکی ایجنسی ’’را‘‘ نے بھی بلوچستان کو اپنی تخریبی سرگرمیوں کا دوبارہ مرکز بنالیا ہے اور مذہبی و صوبائی منافرت پیدا کرنے کے لیے پھر غیربلوچ آباد کاروں بالخصوص پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کی گئی ہے۔ ملکی سلامتی کے حوالے سے یہ صورتحال اسلیے بھی تشویشناک ہے کہ اب ملک میں انتخابی عمل کا آغاز ہوچکا ہے جسکے دوران خاران کی گزشتہ روز جیسی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں اضافہ ہوا تو اس سے انتخابی عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے اور ہمارے دشمن بھارت کو ملک کی سلامتی سے کھیلنے کا مزید موقع بھی مل سکتا ہے۔ اگر بلوچستان کی نئی حکومت کو اس صورتحال اور دشمن ملک کی سازشوں کا ادراک نہیں تو یہ ملک کی سلامتی کے حوالے سے انتہائی سنگین صورتحال ہے۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ تمام سیاسی اور عسکری قیادتیں ملک کی سلامتی کی خاطر بالخصوص بلوچستان کے معاملہ میں یکسو ہو جائیں اور ایک متفقہ جامع حکمت عملی کے تحت بلوچستان کی بدامنی پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔ ابھی دوروز قبل ہی آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی کوششوں سے ہزارہ کمیونٹی کا احتجاجی دھرنا ختم ہوا ہے مگر اسکے بعد پنجابی مزدوروں کی ٹارگٹ کلنگ سے بلوچستان میں حالات مزید گھمبیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہرگز نہیں کہ اس پر محاذآرائی کی جاری فضا میں ایک دوسرے پر پوائنٹ ا سکورنگ کی کوشش کی جائے۔ سی پیک کے درپے ہمارا دشمن درحقیقت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اس لیے ملک کی سلامتی کے تقاضوں کو مقدم سمجھ کر دشمن کو قومی اتحاد و یکجہتی کا ٹھوس پیغام دیا جائے بصورت دیگر ہمارا اندرونی انتشار ملک کی سلامتی کیخلاف جاری دشمن کی سازشوں کو تقویت ہی پہنچائے گا۔


متعلقہ خبریں


طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے وجود - هفته 19 اپریل 2025

  اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم وجود - هفته 19 اپریل 2025

قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 18 اپریل 2025

وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر