... loading ...
مملکت خدا ددا پاکستان کا پلاننگ کمیشن غالباً گہری نیند سویا پڑا رہتا ہے کوئی تو ایسا پیداواری پروجیکٹ شروع کیا جا تا جس سے کوئی آمدن بھی ہوتی رہتی ہر بڑے پروجیکٹ کی تجویز غالباً ناشتہ کی میز پر خاندان ِ شریفاں و دیگر ناشتہ کیبنٹ کے افراد کے ذہن میں آتی ہے اور پھر اس پر عملدر آمد کا حکم جاری ہو جا تا ہے پچھلے سالوں میں تمام ایسی ا سکیمیں شروع کی گئی ہیں جن کے مکمل ہو جانے پر بھی ایک دھیلہ کی واپسی ممکن نہیں ہے کاش کالا باغ ڈیم یا اس طرح کے دوسرے منصوبے شروع ہو جاتے ان کا نام خواہ کوئی اور ہی رکھ لیا جاتا جن کی تکمیل پر ملک بھر کی بجلی3.5روپے تک فی یو نٹ یا اس سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہو جاتی اور پانی کا ذخیرہ بھی جمع ہو جاتا اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ مکعب ایکڑپانی بارشوں اور سیلابوں والا سمندر کی نظر نہیں ہو تااور سارا سال ہمارے کام آتا رہتا۔مگر جونہی ہم کسی ایسے پیداواری منصوبے کو شروع کرنے کا نام لیتے ہیں ہندو مہاشوں کی پروردہ تنظیم “را”فوراً میدان میں آن ٹپکتی ہے ہماری ہی صفوں میں گھس بیٹھئے چند ملک دشمن افراد اور بھارتی پرا پیگنڈا سے متاثر میڈیا کے نمائندگان کو رقوم بانٹنا شروع کردیتی ہے اور چاروں طرف ایسا مخالف پرا پیگنڈا سر اٹھا لیتا ہے کہ جو تھمنے کا نام نہیں لیتا،جب تک کہ ہم مذکورہ منصوبے کے مکمل خاتمہ کرنے کا باقاعدہ ا علان نہیں کرڈالتے ساری قوم کی اس وقت آہیں نکل جاتی ہیں، جب اصل حقیقت واضح ہو تی ہے کہ نئے اعلان کردہ بجٹ کی تکمیل کے لیے کم و بیش13.5بلین ڈالرز کا قرض لینا ہو گااور یہ پاکستان کی71سالہ تاریخ میں سب سے بڑاقرضہ ہو گاموجودہ حکمرانوں نے پونے پانچ سالہ دور حکومت میں اب تک 40.3بلین ڈالرزسے زیادہ قرضہ لیا ہے اس طرح سے موجودہ لیگی حکمران ہمیں تقریباً54ارب ڈالرز کے قرضوں تلے روند کر جارہے ہیںتازہ بجٹ 5.24ٹریلین رقوم کا ہے 1.5ٹریلین کی رقوم اس بار قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں خرچ ہونگی۔ یعنی کل بجٹ کا تقریباً30فیصد یہ رقوم ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہیں دفاعی بجٹ کل بجٹ کا 23فیصد ہے باقی تقریباً47فیصد بجٹ کی رقوم سے ہم نے پورا ملک چلانا ہے جب کہ حکمرانوں کے اللے تللوں کے لیے رقوم بھی یہیں سے خرچ ہونی ہے اور لوٹ کھسوٹ کے ذریعے بھی بیرونی ممالک میں موجود لیکس میں یہیں سے مال متال نکال کر باہر بھجوایا جانا ہے قوم یاد رکھے کہ صرف دفاع اور قرض کی رقوم 53فیصد کل بجٹ کا حصہ ہیں۔
غرضیکہ ہمارے زیادہ نئے قرضے صرف پرانے قرضوں کواتارنے کے لیے لیے جارہے ہیں معیشت ڈوب رہی ہے۔اور ہمارے سیاستدان ایکدوسرے پر تبرے بھیجنے گالی گلوچ اور مغلظات کے نئے نئے ترانے گار ہے ہیں ،یہ تو کوئی بھی غور نہیں کر رہا کہ جن 10/11ممالک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات دنیا کے نقشہ میں موجود ہیںان میں ہم ٹاپ تھری یا فور میں پہنچے ہوئے ہیں، میرے منہ میں خاک اگر ایسا ہو گیا تو قوم کا کیا حشر نشر ہو جائے گا؟قرض خواہ سامراجی تنظیمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تو ہمارے گلے پڑ جائیں گے اور نجکاریوں کے نام پر ہمارے اہم ترین ادارے اونے پونے داموں زبردستی خرید لیں گے پھر بھی ان کے قرضے پورے نہ ہوسکے تو ان کی للچائی ہوئی نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں کی طرف اٹھیں گی کہ چلو پھر انہیں ہی گروی رکھ دو مستقبل کامنظر انتہائی خطرناک نظر آرہا ہے۔
دنیا کے غلیظ ترین کا فرانہ نظام ِ سودسے جان مکمل طور پر چھوٹ رہی تھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر اور پھر وفاقی شرعی عدالت کے اس کو ختم کرڈالنے کے فیصلوں کے بعد اس کافرانہ نظام کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ سے حکم امتناہی بھی سابقہ ادوار میں نواز شریف صاحب کی حکومت نے ہی لے رکھا ہے جو کہ اب کئی سال بعد بھی نافذ العمل ہے سعودی عرب میںخود ساختہ جلا وطنی کے دور میں خانہ کعبہ کے اندر بیٹھے ہوئے ان کے وہ چند دوست احباب آج بھی زندہ ہیں جن کے سامنے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر آئندہ پاکستان کی خدمت کا موقع ملا تو سود کی لعنت سے جان چھڑوائیں گے اور مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی بھی دل وجان سے کوشش کریں گے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو گیا !۔
سابقہ کمانڈو جنرل حکمران پرویز مشرف تو الٹا سامراجیوں کے ان داتا اسرائیل کو ہی تسلیم کرنے کی طرف گامزن رہے اور موجودہ شریفین مودی جیسے موذی کی دوستیوں کا دم بھرتے نہیں تھکتے گھریلو تقریبات میں مودی جہازبھر کر آ دھمکا تھاوہاں کسی پردہ کی گنجائش کہاںہوتی؟ خواتین نے آپس میں تحائف تک تبدیل کیے خود مودی کی بطور وزیر اعظم حلف برادری میں بغیر اسمبلی میں بحث مباحثہ اور سیکیورٹی کلیرنس لیے بغیر خود جا پہنچے اور وفد میںشامل عز یز و اقارب ورشتہ داروں نے زیادہ وقت بھارتی کاروباری حضرات کو ملنے میں گزاراور اب جو “را” کا سرپرست اعلیٰ کلبھو شن بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے پکڑا گیا تو اسے فوری قرار واقعی سزا نہ دینا اور اس کے مسئلہ پر وقت کٹائی کرنا حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا تھا۔
ادھر میٹر وبسوں جیسے پراجیکٹس پر روزانہ ایک کروڑ روپے سبسڈی دینا پڑ رہا ہے ویسے یہ سکیم جتنے میں بھی تکمیل ہو گی عرصہ20سال میں ادائیگیاں کرنا ہیں آئندہ حکمران قرضوں کی واپسیاں کرتے کرتے دم توڑ جائیں گے پھر جو بھاری قرضے لیے جاتے ہیں انہیں صوبائی حکومتیں مکمل طور پر خرچ ہی نہیںکر پاتیں اور سود در سودکے بھاری پتھر کا بوجھ ہم پر لدا چلا رہتا ہے تا بہ کہ یہ عمل جا ری رہے گا؟ اس وقت تک 17بلین ڈالرز قرض کی رقم خرچ ہی نہ کی جا سکی ہم بطور آئی ایم ایف 93بلین ڈالرز کے مقروض ہو چکے ہیں بیرونی دوروں پر ہی زیادہ وقت اور اسمبلیوں کو سابق وزیر اعظم نے کم وقت دیا ۔ دوروں پر110کروڑ روپے اور موجودہ وزیر اعظم نے صرف 9ماہ میں68کروڑ روپے خرچ کرڈالے حکمران ایسے عیاش ہوں گے اس کا تصوربھی کرنا محال ہے معیشت سسکیا ں لے رہی ہے جب کہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق سابقہ تین سالوں میں 16بلین ڈالرز نا جائز ذرائع سے بھارت منتقل کیے جا چکے غالباً یہ حکمرانوں یا ان کے دوستوں کے کاروباروں کے لیے خطیر رقوم بھیجی گئی ہوں گی۔