... loading ...
(قسط نمبر:2)
ان طبقات کے ساتھ ہی ساتھ مغرب کی تقلید میں ایک وسیع لکھی پڑھی مسلم آبادی نے اپنی گردنوں میں سیکو لر ازم اور لبرل ازم کا طوق ڈال دیاہے یہ طبقہ شدت اور انتہا پسندی میں کسی متشدد ملا یا مولوی سے کچھ بھی کم نہیں ہوتے ہیں۔کہنے کو یہ نرم مزاج اور خوش طبیعت ہو تے ہیں مگر صرف دین بیزاروں کے لیے۔ان کا رویہ اسلام پسندوں کے تئیں انتہائی معاندانہ اور جارحانہ ثابت ہوا ہے۔ مصطفیٰ کمال اتا ترک نے ترکی میں خلافت کے خاتمے کے باضابط سرکاری اعلان کے بعد جس صورتحال سے ترکی کے ساتھ ساتھ سارے عالم اسلام کو دوچار کردیا کے کانٹے اب تک نکالنے میں امت مسلمہ بری طرح گرفتار ہے۔اتاترک کی تحریک کو اگر دو لفظ میں خلافت کے خاتمے کی تحریک کہا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کے بانی اتاترک نہیں بلکہ صدیوں پہلے خود مسلمان تھے۔نام اور ہاتھ ضرور بدلے مگر یہ سب ’’اکبر بادشاہ‘‘کی اولادیں ثابت ہوئیں کل مغلوں کے ہاتھوں مجدد الف ثانیؒ بے دینی کے خلاف آواز بلند کرنے کے پاداش میں مصیبتوں سے دوچار ہو گئے تھے جبکہ ان کے کئی سو سال بعد مصر میں سیکولر ازم کے محافظ جمال عبدالناصر کے ہاتھوں سید قطب شہید سولی پر لٹکائے گئے فرق صرف افراد اور اوقات کا رہا ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں امت انتہا پسندی کے غار میں گر پڑی۔جس سے بعض اسلام پسندمکاتب فکر کے ہاں ایسی متشدد نسل نے جنم لیا جو ہر مسئلے کا علاج بندوق اور گولی قرار دیتی ہے اس کے لیے وہ ایک ہی سانس میں درجنوں مثالیں پیش کرکے مخالف کا منہ بند کر دیتے ہیں اور اب ان نوجوانوں کی پود پورے عالم اسلام میں پھیل چکی ہے۔
مغربی قوتیں ان کے جذبات کا بھر پور ادراک کرتے ہو ئے اپنے مخصوص اہداف کے حصول تک ان کی پشت پناہی کرتی ہیں اور جب ’’شام اور عراق‘‘کی برباد ی کے اہداف حاصل ہو تے ہیں پھر وہ اپنے لذات اور جذبات کے عین مطابق ان ممالک میں اپنے اتحادیوں کی حمایت کرتے ہیں۔اس مقصد کے حصول میں آپ ان مغربی قوتوں کو کبھی سویت یونین کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہو ئے دیکھیں گے اور کبھی انہی مجاہدین کے خاتمے کے لیے طالبان کی پشت پر۔اور جب وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے تو’’اقدار اور شرم و حیا ‘‘کے تمام تر اصول بالا ئے تاک رکھتے ہو ئے آپ انھیں طالبان پر ڈیزی کٹر بم گرانے والوں میں دیکھیں گے۔سوال مغربی لذات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آخر عالم اسلام میں موجود اسلام پسند وں ہی کے لیے ایسے حالات کب تک تخلیق کیے جائیں گے کہ وہی ہر دونوں حالات میں مارے جائیں۔
مغرب کی نظر عرب دنیا کے ’’ سیال سونے‘‘پر تھی اس کے لیے اس نے ہر طرف اپنے تجارتی کارندوں کو پھیلا کر مغرب تک اچھے داموں اور حکمران خاندانوں کے تحفظ کے وعدے کے بعد سبھی معاملات درست کر کے اس کے دروبام پر قبضہ کر لیاہے اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ صرف ایک امریکا کی فوجیں سو ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔دولت کے فراوانی کے نتیجے میں عرب دنیا کو عیاشی کے دروازوں تک پہنچا کر ’’تعلیم اور سائنس ‘‘سے دور رکھ کر ان ممالک کو عسکری اور سیاسی میدان میں تنگ دامن کر کے عالمی سطح پر مسکینوں کے صف میں لا کھڑا کیاہے۔اس سب سے جہاں عالم عرب بالعموم اور عالم اسلام بالخصوص مغرب کو باج ادا کرنے لگا وہی اسے اس کے ’’طفل حرام اسرائیل‘‘کو تحفظ اور یک گونہ راحت میسر ہوئی اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ عیسائیت بیزار سیکولر مغربی لکھے پڑھے تاجر طبقے کو متشدد یہودیوں کے ساتھ مل کر عالم انسانیت کو برباد کرنے میں جارحانہ عزائم کی تکمیل سے کوئی روک نہیں پایا۔ایک طرف مسلمانوں میں سیکولروں اور لبرلوں کی پشت پناہی اپنے لیے لازم اور واجب کردی وہی دوسری طرف اس کی مخالفت کرنے یا راہ میں رکاوٹ بننے والے اسلام پسندوں کو کہیں خود اور کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کراکے بے چینی،اضطراب اور تشدد کو فروغ دیکر یہ بات اسلام پسندوں کے ذہنوں میں بٹھا دی کہ مغربی اور مسلم سیکولروں سے نجات کا واحد ذریعہ صرف بندوق اور بغاوت ہے۔
دہشت گردی کی آڑ میں امت کو تباہ کر نے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ان اسلام پسندوں کے لیے بھی قافیہ حیات تنگ کیا گیا جو پر امن جدوجہد کے
تھے ،اسلامک فرنٹ آف الجزائر کے بعد اخوان المسلمون مصر کو برسوں بعد جب مغربی پیمانے اور لذت کے عین مطابق حکومت کرنے کا موقعہ ملا تو اس کو’’ اپنوں ہی کے ہاتھوں‘‘ایسی وحشت ناک صورتحال سے دوچار کردیا گیاکہ القائد کے سر براہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے طنزیہ انداز میں اخوان کو دہائیاں قبل اپنی کہی ہوئی بات یاد دلائی کہ’’ میں نے بہت پہلے کہا تھا پر امن طریقوں سے مغرب آپ کو کبھی بھی آگے بڑھنے نہیں دے گا‘‘۔امریکی سابق صدر جارج بش نے مسلم دنیا کے خلاف با ضابط جنگ کا آغاز کرتے ہو ئے’’کروسیڈ ‘‘کااعلان کردیا اور اب نصف درجن مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے بعد ایک اور امریکی صدر ’’ڈونالڈٹرمپ‘‘نے ’’آگ کا مقابلہ آگ سے ‘‘کرنے کا فیصلہ لیتے ہو ئے ’’انتہا پسند اور شدت پسند‘‘الفاظ استعمال کرتے ہو ئے دوبارہ پر تشدد طریقے اختیار کرنے کا فیصلہ لیکر یہ ثابت کردیا کہ اسلام پسندوں کی راہیں مسدود کر کے انھیں جان بوجھ کر ’’پرامن ذرائع‘‘سے الگ کر کے پر تشدد راہوں پر چلنے پر مجبور کیا جائے تاکہ عالم اسلام پر قابض حکمران طبقہ’’حقیقی اور غیر حقیقی خوف ‘‘میں مبتلا رہ کر ایک جانب اسلام پسندوں کو راستے مسدود کریں تو دوسری جانب وہ اپنی جھولی مغرب کی طرف ہی پھیلائے رکھیں۔
بد قسمتی سے بڑے بڑے علماء اورمتبحر دانشور بھی اس صورتحال میں شدید ردعمل کے شکار ہو گئے اور انھوں نے بعض مواقع پر طاغوت سے جہاد اور کشمکش پر ابھارتے ہو ئے ’’کافر اور مسلمان حکمرانوں‘‘کے لیے ایک ہی حدت میں علم اور دلائل کے دریا بہا دئیے جس کے نتیجے میں ایسا وسیع لٹریچر منظر عام پر آگیا کہ اسے مستفید ہونے والوں میں ہر نئے دن نئی وحشت اور شدت جنم لیتی ہے۔عالم اسلام میں جہاں غیروں کو مدعو سمجھنے کے برعکس مکمل طور پر واجب القتل قرارہی تصور کیا جا تا ہے وہی اب اس تنفر و تشدد نے ان اپنوں کو بھی گھیر لیا ہے جو مسلکی اور فکری بنیادوں پر ہم سے دوری بنائے ہو ئے ہیں۔اس کا ایک بڑا نمونہ ابو بکر بغدادی سے متعلق اخوان المسلمون عراق کے مرشد عام کا یہ انکشاف ہے کہ ان کے بقول میرے ایک معتبرشخص نے ابو بکر بغدادی سے پوچھا کہ آپ ہر اس شخص کو واجب القتل قرار دیتے ہیں جو خلیفہ نہ مانتے ہو ئے آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے جبکہ آ پ کے استاد اور اخوان کے مرشد عام عراق نے بھی ابھی تک آپ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے اب اگر وہ آپ کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں تو ان کے ساتھ آپ کیا کریں گے ؟ابوبکر بغدادی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اگر وہ میرے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں تو استاد ہونے کے ناطے میں انھیں قتل نہیں کروں گا البتہ اگر میرے کسی ساتھی نے انھیں گرفتار کیا اور میرے سامنے ذبح کیا تو میں اس کو منع نہیں کروں گا۔(ختم شد)