... loading ...
ہر مسلم اور غیر مسلم ملک میں گذشتہ کئی سو برس سے صرف ہم مر رہے ہیں آخر کیوں؟ کچھ احباب اس کو اعزاز کی بات سمجھتے ہیں اور مجھے ایسوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔ کچھ فکر مند ہیں صرف ان مسلمانوں کے لیے جو ان کے ہم مسلک ہیں یا ہم فکر ہیں یہ بھی ایک نئی لعنت ہے کہ ہم مسلمانوں سے محبت صرف اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلک یا مکتبہ فکر کے ہیں ! جبکہ انسانیت اور اسلام اسے بہت بلند وبالا تصور لیکر آیا ہے۔ قرآن کا خطاب یاایھاالناس اور یاایھاالانسان اس کی مثالیں ہیں مگر کیا کیا جائے اس مسلکی اور تنظیمی کینسرکا جس نے ملت کے وجود کو ناسور بنادیا ہے۔ ہم بلا لحاظ مسلک و مشرب ہرجگہ اور ہر ملک (مسلم یا غیرمسلم) میں دہشت گردی کے نام پر مارے جاتے ہیں مگر افسوس یہ کہ ہم چونکہ مختلف مسالک میں منقسم ہیں اور مخالفین کے مرنے یا مارے جانے پر خوش ہوجاتے ہیں اور ہمارا دشمن اس صورتحال سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ اسلام پسندوں کو چن چن کر جانوروں کی طرح مختلف نام دیکر مار رہا ہے جہاں خود موقع نہیں ملتا ہے وہاں لبرلوں اور سیکولروں کے ذریعہ مرواتا ہے۔ تو کیا ہے اس کا علاج ؟ کیسے روکا جا سکتا ہے اس قتلِ عام کو؟اس کے ساتھ ساتھ پچاس سے زیادہ منقسم مسلم ممالک پر مشتمل عالم اسلام کواس وقت بہت سارے چیلنجوں کا سامنا تو ہے ہی مگر انتہا پسندی نے اس کے لیے بقاء کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔عالم اسلام ہی کیا اب اس مسئلے نے ’’عالم انسانیت ‘‘کوبھی خوف میں مبتلا کردیا ہے اس لیے کہ اب عالم اسلام میں بڑھتی ہو ئی انتہا پسندی کا شکار خود عالم اسلام ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی زد میں روئے زمین کا چپہ چپہ آرہا ہے۔تمام تر اجتماعی کو ششیں مکمل طور پر نا کا م ثابت ہو رہی ہیں۔ مسلم ممالک کا بنیادی ڈھانچہ تک اس کی زد میں آچکا ہے۔معصوم بچے اس کے سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں۔بے شمار ماؤں بہنوں کی عزتیں تک اس رویہ سے پامال ہو چکی ہیں۔نوجوان نسل انتہائی تیزی کے ساتھ ان اثرات کو قبول کرتی ہو ئی نظر آتی ہے حتیٰ کہ ’’انسانی اور دینی اقدار ‘‘اس کی زد میں آتی جا رہی ہیں۔تہذیب و تمدن پر اس کے مہلک اثرات مرتب ہو تے جا رہے ہیں۔ مالی اور جانی نقصانات کا اندازہ لگانا تقریباََ ناممکن ہے۔عالم اسلام اب دشمنوں کو بھول کر آپس میں گتھم گتھا ہے۔اور خون مسلم کی ارزانی بالکل ویسی ہی ہے جیسے چنگیز خان کے دور میں تھی۔نفرتوں ،کدورتوں اور بغض و حسد نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کوئی کسی کی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔عربی اور عجمی نفرتیں پھر اپنا سر ابھار رہی ہیں خود عرب ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں مصروف ہیں اور حد یہ کہ ہر جگہ قوم و ملت ایک دوسری سے ہی الجھی ہو ئی ہے۔
دورِ حاضر میں اس مسئلے کا باربار تجزیہ کیا گیا بعض اس کے لیے نظام تعلیم کوذمہ دارٹھہراتے ہیں ،بعض خلافت کے خاتمے کو اور بعض مذہبی تنظیموں اور ان کے لٹریچر کو اور بعض سیکولر اور لبرل حضرات کو۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ سبھی عوامل بہت اہم ہیں۔مغرب نے عالم اسلام سے متعلق پروپیگنڈے کی بدولت ایسی قبیح اور مکروہ تصویر پیش کر رکھی ہے کہ مغرب کا عام انسان بھی انھیں ’’بربرقوم‘‘تصور کرنے پر مجبور ہے۔ہوبھی کیوں نہیں آپ پوری روئے زمین پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے صرف مسلمان ممالک ہی جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہیں افغانستان ،شام ،عراق،یمن،لیبیا ،سوڈان ،پاکستان اور صومالیہ براہ راست مسلم انتہا پسندی کے نرغے میں ہیں۔جن دوسرے ممالک میں حالات قدرے ٹھیک ہیں وہاں کا معاملہ سعودی عربیہ ،بحرین، مصر اور تیونس جیسا ہے۔انتہا پسندی نے ہمارے کم سے کم ایک درجن ممالک کو تباہ و برباد کر کے رکھدیا ہے۔لاکھوں انسانوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔شام و عراق میں انسانیت کوکچل کے رکھ دیا گیاہے۔کروڑوں انسان ہجرت کر کے مسکینی اور محتاجی کی زندگی گذارنے پر مجبور کیے جا چکے ہیں۔نئی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ آخر سیاسی اور مسلکی رسہ کشیوں کے بھینٹ انھیں کیوں چڑھایا جا رہا ہے۔عالم اسلام کو اس جنگ جیسی صورتحال سے نکالنے کے لیے نہ ہی کوئی پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی ’’اہمیت اور حساسیت‘‘کا ادراک کرنے کی کوشش کی جا تی ہے۔پھر حیرت بلکہ المیہ یہ کہ اس میں مذہبی ’عقائد اور جذبات‘ کوبے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔حد یہ کہ اس ’’وحشیانہ جنگ‘‘میں قاتل اور مقتول دونوں خوش ہیں اور شہید ،مجاہد اور جنتی ہونے کے بھی مدعی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صورتحال صرف امریکی مداخلت اور اسرائیلی سازشوں سے ہی پیدا ہو گئی یا اس کے عوامل کچھ اور بھی ہیں۔
یہ صورتحال ایک رات یا دس بیس سال میں پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اس پر ایک عرصے سے کام برابر جاری ہے۔اس میں کفار کی سازشوں کا عمل دخل تو ہے ہی مگر اپنوں کی سنگ اور تنگ دلی بلکہ بے شعوری نے بھی ہمیں تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔خلافت کا خاتمہ نہ 1923ء میں ہوا نہ کہ کل بلکہ یہ المیہ ٹھیک نبی پاکﷺکی پیش گوئی کے عین مطابق صرف تین دہائیاں بعد حضرت علیؓ کی شہادت کے ساتھ ہی پیش آیا۔ پورے چودہ سو برس ملنے کے باوجود مسلمان حکمرانوں نے ایسی صورتحال کو جنم دیا کہ اجتماعی قیادت کا تصور ایک خواب بن گیا اور فی الحال اس کی تعبیر ممکن نہیں ہے اس لیے کہ جو مذہبی طبقہ اس کے قیام کا قائل ہے وہ سب یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ خلیفہ اور نظام ان کے مسلک ،فکر اور تنظیم کے گود سے جنم لے لے نہیں تو باطل اور گمراہ ہی نہیں بلکہ ملحد اور کافربھی قرار دیئے جانے کے امکانات اور خطرات واضح ہیں۔مسلمان نسلوں میں خلافت کا زخم اب تک اتنا عمیق ہے کہ ہردور میں علماء اور دانشوروں نے اس تصور کو زندہ رکھا چودہ سو برس گذرجانے کے بعد بھی مسلمانوں نے اس تصور کو زندگی دی اور اس کی واپسی کے لیے صرف تمنائیں اور آرزوئیں ہی نہیں پالی بلکہ اس کے لیے آنسوں بہانے کے ساتھ ساتھ اپنا خونِ جگر بھی پیش کیا۔حیرت یہ کہ پورے چودہ سو برس میں کفار سے زیادہ ’’تصور خلافت اور قیام خلافت‘‘کی راہ میں مسلمان ہی زیادہ مزاحم ثابت ہو ئے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک ہر جگہ جاری ہے۔
اس کشمکش نے ایک خاص ذہنیت کو جنم دیا ہے عرصہ دراز تک اسلام پسند اور علماء اپنوں سے ہی دست و گریبان رہے مگر اب گزشتہ ایک سو سال سے اسلام پسند دوسروں کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی گتھم گتھا ہیں۔اس کشمکش نے سخت گیر طبقات کو جنم دے کر ایسا ’’زہر آلود ہ لٹریچر ‘‘تخلیق کیا ہے کہ ہر مسلک اور مکتبہ فکر دوسرے کو کافر قرار دیکر گردنیں اڑاتا پھرتا ہے اور اس جنگ میں ایک دوسرے کی بہو بیٹیوں کی عزتیں بھی حلال کر دی جاتی ہیں اور مال و جان کو مال غنیمت کے دائرے میں لانے کے لیے بعض ’’تفردات اور سطحیت‘‘سے کام لیکر کامیاب کوششیں کی گئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی مصیبت یہ بھی ہے کہ اب حکو متیں اپنے مخصوص سیاسی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے اس لٹریچر سے جنم لینے والے لوگوں کی کھلے عام پشت پناہی کرنے شروع کر دی ہے۔مسلمان پہلے دو بڑے مسالک ’’شیعہ اور سنی‘‘میں منقسم تو تھے ہی مگراب شیعوں اور سنیوں میں تقسیم در تقسیم کی صورتحال پیدا ہو کر یہ کمزور عمارت ڈھ جانے کی قریب پہنچ چکی ہے۔پہلے متشدد شیعہ سنی ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے تھے مگر اب دوبارہ ماضی ہی کی طرح خود شیعوں اور سنیوں میں درجنوں ایسے متشدد مکاتب فکر نے جنم لیا ہے کہ وہ ہر مخالف چاہیے وہ شیعہ ہو یا سنی کافر اور واجب القتل قرار دے رہے ہیں۔(جاری ہے )