... loading ...
جس وقت 2016ء میں پوٹن کی قیادت میں روس نے مشرقی یوکرین میں مداخلت کا آغاز کیا تو اس وقت اس کی نظر درحقیقت کرایمیا کی اس واحد بندرگاہ پر لگی ہوئی تھی جسے 1955ء میں اس نے خود ہی یوکرین کے حوالے کردیا تھا لیکن اس مرتبہ اس کا سب سے بڑا ھدف اس اہم ترین بندرگاہ کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنا تھا جو اس نے جلد ہی حاصل کرکے امریکا اور یورپ کو آنے والے حالات سے خبردار کردیا۔اسی بنیاد پر اس نے 1967ء میں مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مشرق وسطی میں تدخل کی پالیسی اختیار کی تھی اور اپنے پرانے اتحادی شام کی اسد حکومت کی مدد کے لیے وہ اس جنگ میں کود گیا۔ 2015ء سے لیکر تاحال تک امریکا، اسرائیل اور یورپ کی پوری کوشش تھی کہ روس بحیرہ اسود کے پانیوں سے دور رکھا جائے تاکہ اسے درہ دانیال سے گذر کر بحیرہ روم میں داخل ہونے کی جگہ نہ مل سکے اس مقصد کے لیے پہلے آب غازیہ اور پھر جارجیا میں عسکری گڑبڑ کرائی گئی لیکن روسی فوج کے جارحانہ اقدامات نے یہاں سے امریکا اور اسرائیل کو پسپا ہونے پر مجبور کردیااس کے بعد مشرقی یورپ کی جانب یوکرین کے مسئلے نے سر اٹھایا تو امریکا اسرائیل اور برطانیا کی پوری کوشش رہی کہ یہاں کر روس کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کروا دی جائے اور اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو یہاں پر روک دیا جائے۔لیکن صورتحال کچھ اس طرح بنی کہ افغانستان کے بعد لیبیا کا محاذ بھی امریکا اور یورپ کے ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے روس کی جانب منسک کے علاقے پر امریکا اور یورپ کی گرفت کمزور پڑنا شروع ہوگئی یوکرین اور کرائمیا میں قدم جماکر روس نے بھرپور انداز میں شام میں مداخلت کا فیصلہ کرلیا ۔امریکیوں کا خیال تھا کہ ترکی کو ساتھ ملاکر شام میںروس کے لیے افغانستان والی صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اس صورتحال کو روس نے اس انداز میں کائونٹر کیا کہ اس نے ایران اور ایران نواز شیعہ ملیشیائوں کو شام میں قدم جمانے کا موقع فراہم کردیا جس کے بعد اس جنگ نے عراق کے بعد شام میںبھرپور انداز میں شیعہ سنی جنگ کا روپ دھار لیا اور دونوں طرف کے مسلمانوں نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کردیا جب عرب ملکوں کی جانب سے جوابی مداخلت کی جانے لگی تو یہ جنگ مسلک کے ساتھ ساتھ قومیت کی جنگ میں تبدیل ہوئی اب دور جہالت کا عرب ایران تنازعہ سر اٹھانے لگااور عالمی صہیونی سرمایہ دار اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے لگے۔ آج اگر جب دنیا میں رائج نظام کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اس دنیا کو بری طرح جکڑ لیا ہے چین جس کے ساتھ سوشلسٹ کا نام آتا تھا اس کے پارلیمانی ارکان اس وقت دنیا کے امیر ترین افراد یعنی سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے ہیں، روس جو کمیونزم کا گھر کہلاتا تھا آج سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہے۔ باقی امریکا اور یورپ کی بات تو پہلے ہی وہ اس نظام کے سب سے بڑے داعی ہیں ۔ نقصان کس کا ہورہا ہے صرف مسلمانوں کا، چاہئے وہ شیعہ ہوں یا سنی۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا نے شام پر کیے جانے والے میزائل حملے مسلمانوں کی حمایت میں نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے روس کو ایک طرح سے اپنی ’’فائر پاور‘‘ظاہر کی ہے۔ امریکا کی عسکری اسٹیبلشمنٹ جس نے متعدد بار سابق امریکی صدر اوباما کو ہلا دیا تھا اور اسے افغانستان سے نکلنے نہیں دیا تھا وہ کسی طور بھی ٹرمپ کے ذریعے اس آگ کو نہیں بجھنے دینا چاہتی۔دوسری جانب امریکی نظام عدل کا پتا لگانا ہو تو امریکی دانشوروں کی ہی زبانی اس نظام کی پول کھل جاتی ہے تو اسے امریکا کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اب واشنگٹن میں کھل کر اس پر بات ہوتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت وائٹ ہائوس بھیجا گیا ہے ۔ سابق صدر کلنٹن نے جس وقت فوجی قوت کے کم سے کم استعمال پر زور دینا شروع کیا تھا تو اس وقت مانیکا لیونسکی کا اسکینڈل سامنے لایا گیا تھا جس کے بعد ہی نوئے کی دہائی میں کلنٹن دور میں افغانستان اور سوڈان پر القاعدہ کو نشانہ بنانے کے نام پر میزائل برسائے گئے تھے۔ باراک اوباما افغانستان اور عراق سے فوجیں نکالنے کا ایجنڈہ لے کر وائٹ ہائوس میں داخل ہوا تھا لیکن ہزار کوشش کے باوجود اسے ان ملکوں سے فوجیں نہیں نکالنے دی گئیں اگر ایسا ہوجاتا تو امریکا کا ہتھیار تیار کرنے والا کمپلکس بند ہوجاتا ، عسکری ٹھیکوں کی شکل میں امریکی صہیونی مافیائوں کو کئی بلین ڈالر کے فوائد نہ حاصل ہوتے ، ایرک پرنس جیسے امریکی دہشت گرد کس طرح اپنی نجی فوجوں تیار کرکے انکے ذریعے تباہی مچاتے اور اربوں ڈالر کماکر امریکی جرنیلوں کو بھاری کمیشن ادا کرتے۔ اسرائیل ان امریکی اور برطانوی سیاسی اور عسکری دہشت گردوں کے ذریعے دنیا بھر میں تباہی مچاکر کس طرح اپنی آئندہ دجالی سیادت کا راستہ صاف کرتا؟
آج خود بہت سے امریکی ذرائع سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص (ٹرمپ) امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے جسے بہت پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔ جیسے ہی وہ لائن سے ہٹتا ہے اسے اس کا رنگین ماضی دکھا دیا جاتا ہے اور وہ پھر لائن پر آجاتا ہے۔ٹرمپ نے اب تک جتنے عہدیدار برطرف کیے عسکری اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے کے کہنے پر کیے۔ اس سارے بین الاقوامی دجالی کھیل میں بدقسمتی سے مسلمان حکمران کسی فریق کی حیثیت سے نہیں بلکہ چارے کے طور پر شامل ہیں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ شام اور بلاد شام میں لڑی جانے والی اس جنگ کے بڑے فریق اسرائیل اور روس ہیںجبکہ اس ساری لڑائی میں مسلمان حکمرانوں کے بنائے ہوئے عسکری اتحاد محض تماش بینی کا شوق پورا کرنے کے لیے ہیں۔ اسرائیل ہر صورت اپنی دجالی سیادت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے کسی وقت بھی وہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیاروں کے ساتھ سامنے آئے گااور مشرقی وسطی میں اپنی سیادت کا مرکز بناکر باقی دنیا کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرے گا لیکن روس کے حرکت میں آتے ہی ’’ملحمۃ الکبری‘‘ وقوع پذیر ہوسکتی ہے جو عالمی سطح پر عسکری اور روایتی ٹیکنالوجی کے زوال کا سبب بن جائے گی اور جو اس میں بچیں گے وہی روایتی جنگلڑ سکیں گے اس کے بعد ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اس جنگ میں باقاعدہ ایک فریق کے طور پر سامنے آئیں گے۔(ختم شد)