... loading ...
آخر کارشام پر امریکی حملے سے مشرق وسطی میں بڑی جنگ کا بگل بج گیا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹرس António Guterres نے اسے دوبارہ سرد جنگ کا آغاز قراردیا ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اس تبصرے کو زمینی حقائق کے برخلاف سمجھا جائے گا کیونکہ حقائق یہ ہیں کہ اب سرد جنگ کی گنجائش باقی نہیں رہی دنیا کے اہم محاذوں پر معاملات گرم ہوچکے ہیں۔ نیٹو نے روس کے گرد واقع بالٹک ریاستوں میں بھاری اسلحے کی ترسیل گذشتہ ایک برس سے جاری رکھی ہوئی ہے تو دوسری جانب روس کرائمیا سے لیکر شام کی طرطوس میں بندرگاہ تک اپنی سپلائی لائن کا پل بنانے میں جتا ہوا ہے۔ ان حالات میں سرد جنگ کی پیش گوئی کرنا انتہائی احمقانہ بات ہے۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی برطانیا اور فرانس نے مل کر شام پر حملہ کرکے اسے بشار الاسد کی جانب سے معصوم شامی عوام پر کیمیائی حملوں کا ردعمل قرار دیا ہے۔تضاد کی انتہا یہ ہے کہ امریکا اور اس کے دجالی صہیونی اتحادیوں نے افغانستان، عراق اور لیبیا میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا ان ممالک کو کھنڈر میں تبدیل کردیا گیااور کون سا ممنوعہ ہتھیار ایسا نہیں ہے جسے استعمال نہیں کیا لیکن شام کے معاملے میں اسے مسلمانوں کی مظلومیت نے پریشان کردیاجس کی وجہ سے بقول عربی چینل الجزیرہ کے مطابق اس نے شام پر میزائل حملہ کی شکل میں ڈونگ رچانے کی کوشش کی ہے۔انہی عرب صحافتی ذرائع کے مطابق امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے کافی پہلے میزائل حملے سے خبردار کرکے لبنانی ملیشیا ئوں کو جنگ زدہ علاقے سے دور جانے کا موقع فراہم کیا،خود لبنانی ذرائع ابلاغ نے یہ خبردی تھی کہ حزب اللہ سمیت دیگر لبنانی ملیشیائوں نے امریکی حملے کے خوف سے دوبارہ لبنان میں داخل ہونا شروع کردیا ہے۔ روس کی جانب سے امریکی حملوں پر سخت مذمت کا بیان آیا جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ میں روس کی جانب سے امریکی حملوں کے خلاف لائی جانے والی قرارداد کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ناکام بنا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اب چاہئے امریکا شام پر حملوں کا ڈھونگ رچائے یا روس کی جانب سے اقوام متحدہ کا پلیٹ فورم استعمال کیا جائے یہ خطہ بڑی جنگ کی لپیٹ میں آنے والا ہے اس سلسلے میں بڑی قوتیں پھونک پھونک کر قدم اس لیے رکھ رہی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے پاس بھی اب ہلاکت خیز ہتھیار ہیں۔اسی وجہ سے فی الحال براہ راست جنگ کی بجائے پراکسی وار نے ہر جگہ جنم لے لیا ہے لیکن یہ کھیل انتہائی مہنگا ہے یہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے مسلمان ملکوں کو اس میں جھونک دیا گیا ہے جو کسی طور بھی اس بڑی جنگ میں فریق بننے کے لائق نہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے وقت صرف چند عالمی طاقتیں ہی ہلاکت خیز روایتی ہتھیاروں سے لیس ہوا کرتی تھیں اس لیے عالمی جنگ تیزی سے دیگر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا کرتی تھی اور جنگ کا دائرہ ملکوں سے براعظم اور ایک بعد دوسرے براعظم تک تیزی سے پھیل جاتا تھا۔جنگ عظیم کی ابتداء یورپ میں ہوئی تھی لیکن یہ شمالی افریقہ سے پھیلتی ہوئی جنوب مشرقی ایشیا میں فلپائن سے جاپان تک جاپہنچی تھی لیکن اب جبکہ تیسری جنگ عظیم کا عفریت منہ کھولے دنیا کے سامنے کھڑا ہے تو صورتحال بہت مختلف ہے اب معاملہ روایتی جنگ سے ہٹ چکا ہے۔ بڑی قوتیں جن میں امریکا اور روس کے بعدچین، برطانیا، فرانس شامل ہیں جانتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند کے علاوہ شمالی کوریا، جنوبی افریقہ تک جوہری ہتھیار موجود ہیں اور تیزی سے پھیلنے والی جنگ کسی کو بھی عجلت پسندی پر مجبور کرکے دنیا کو ہولناک تباہی سے دوچار کرسکتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک امریکا کو ایک سہولت حاصل تھی کہ وہ جغرافیائی طور پر ’’بہت دور‘‘ تھا لیکن اب یہ دوری کا فاصلہ بہت سے ملکوں کے بلاسٹک میزائلوں (بین البراعظمی) نے پاٹ دیا ہے۔
اس کے علاوہ دوسری جنگ کے بعد جب برطانیا کے بعد امریکا کو عالمی قوت کا اسٹیٹس حاصل ہوا تو اس نے اپنے بحیری بیڑے پر خاص توجہ دی اسے برطانیا کا تجربہ حاصل تھا کہ بحیری قوت خصوصا طیارہ بردار جہاز وں کے ذریعے ہی تیرتے ہوئے عسکری جزیرے بناکر دنیا کے کسی بھی ملک کو جنگی صورتحال سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے پر کھڑے ہوکر کہیں بھی میزائل داغے جاسکتے ہیںشاہد یہی وجہ ہے کہ امریکا کو دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی کہا گیا۔۔!! اس حوالے سے روس کی تاریخ مختلف رہی ہے ۔ تاریخ میں روس نے ہمیشہ سے جغرافیائی جارحیت کو ترجیح دی اور جارجیا کے بعد سے وسطی ایشیا تک ہر ریاست کو ہڑپ کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا اور اخرکار افغانستان کی شمالی سرحد پر جاکر اس نے اس وقت دم لیا جب ’’گریٹ گیم‘‘ کے زمانے میں دوسری جانب افغانوں کے ہاتھوں برطانیا کا حشر دیکھ لیا۔اس زمانے میں قدرت نے برطانیا کو ایک مثال بنا یاتھا بڑھتے ہوئے روس کے لیے، داغستان میں امام شامل کے سامنے تیس برس تک جان توڑ عسکری جدوجہد کرنے والے روس کے لیے برطانیا افغانستان کے حوالے سے ایک بھیانک مثال بن چکا تھایہی وجہ ہے جس وقت روس نے 1917ء کے بعد سوویت یونین کا روپ دھارا اس سے اسی برس بعد تک اسے دریائے آمو پار کرنے کی جرات نہ ہوئی تھی جبکہ دوسری جانب وہ تمام مشرقی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ بحیرہ اسود کی جانب کرائمیا کی واحد بندرگاہ تھی جسے انتہائی پراسرار انداز میں 1955ء کو یوکرین کے حوالے کرکے سوویت یونین اپنے آپ کو بحیرہ روم کی جانب کھلنے والے بحری دروازے سے محروم کرچکا تھا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا تھا کہ سوویت یونین کی ایوان بالا پولٹ بیورو میں کمیونسٹوں کے روپ میں زیادہ تر تعداد روسی نژاد یہودیوں کی تھی جو نہیں چاہتے تھے کہبحیرہ اسود سے راستہ کھلا دیکھ کر بحیرہ روم میں داخل ہونے والے روسی بحری بیڑا اسرائیل کے لیے مستقبل میں خطرہ ثابت ہو۔ اسی لیے اس زمانے تک روس کی ساری بحری عسکری سرگرمیوں کا مرکز بالٹک کی ریاستوں کے گرد پھیلا ہوا سمندر ہی تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے صرف ایک ہی بحری بیڑا بنایا تھا جبکہ دوسری جانب امریکا نے جزائر ہوائی سے لیکر یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں جاپان تک سینکڑوں کی تعداد میں بحیری بیڑے بنا رکھے تھے۔ (جاری ہے )