... loading ...
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مْلک میں بجلی طلب سے زیادہ ہے، جہاں بجلی چوری ہو گی وہاں لوڈشیڈنگ کی تکلیف برداشت کرنا ہو گی۔کراچی میں بجلی کی مکمل لوڈشیڈنگ کا خاتمہ 100فیصد بلوں کی ادائیگی سے مشروط ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ کراچی میں بجلی کا بحران حل کر دیا ہے۔ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کے درمیان جاری مسائل کو حل کرا دیا ہے،کے الیکٹرک کو جتنی گیس کی ضرورت ہو گی وہ سوئی سدرن گیس کمپنی فراہم کرے گی اِس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔کے الیکٹرک کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کراچی کو ضرورت کے مطابق بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بجلی کی فراہمی پر وفاق اور سندھ حکومت کا کوئی تنازع نہیں، کے الیکٹرک اور دوسرے اداروں کے درمیان واجبات کی ادائیگی کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ وہ اگلے پچیس دِنوں میں مسئلے کا حل کرائیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں 50سے60فیصد بجلی چوری ہو رہی ہے، وہاں بلا تعطل بجلی فراہم نہیں کر سکتے۔کراچی میں اگر بجلی کے بلوں کی ادائیگی موثر طریقے سے کی جائے گی تو لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے اور پانی کی قلت کی وجہ کیا ہے اِس کا فیصلہ ماہرین کو بیٹھ کر کرنا چاہئے اور اسے سیاسی بنانے سے گریز کرنا چاہئے اِس کا پائیدار حل وہی ہو گا جو حقیقی اسباب کو دور کر کے کیا جائے گا، لوڈشیڈنگ کے مسئلے کا جو حل وزیراعظم نے نکالا ہے وہ وقتی اور عبوری طور پر تو کارآمد ہو گا،لیکن اِس کا مستقل حل نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسباب و علل دور کئے جائیں جن کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوتا ہے، کے الیکٹرک کو وفاق کی جانب سے جو بجلی فراہم کی جاتی ہے اس میں تو کوئی کمی نہیں کی گئی،اگر ایسا ہوتا تو وفاق کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا،اصل معاملہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے سوئی سدرن کے80ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں، جس کی وجہ سے گیس کی فراہمی بند کر دی گئی اور گیس سے کے الیکٹرک جو بجلی بناتا ہے وہ نہ بن سکی۔ظاہر ہے ایسی صورت میں لوڈشیڈنگ تو ہونا تھی۔وزیراعظم کے حکم سے اگر عبوری طور پر گیس بحال کر دی گئی ہے تو بھی اصل ضرورت یہ ہے کہ واجبات کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ کے الیکٹرک واجبات کی ادائیگی کیوں نہیں کر رہی اور کب تک اِس معاملے کو لٹکایا جاتا رہے گا،پہلے بھی جب کراچی میں بجلی کا بحران پیدا ہوا تھا تو پنجاب کے حصے کی بجلی کم کر کے کراچی کو پوری بجلی دی جاتی رہی تھی،غالباً کے الیکٹرک کی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ اْسے جو سستی بجلی ملتی ہے اسی کو سپلائی کر کے کمائی کی جاتی رہے اور گیس سے بجلی کم سے کم بنائی جائے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے وعدے کے مطابق اپنے پلانٹ پر وہ سرمایہ کاری بھی نہیں کی جو اَپ گریڈیشن کے لیے ضروری تھی۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بحران پیدا نہ ہوتا، اب وزیراعظم نے اگر اپنے مشیر کی ذمہ داری لگائی ہے کہ وہ ایک معینہ مدت کے اندر مسئلہ حل کرائیں تو بھی واجبات کی ادائیگی تو بہر حال کرنا ہو گی، کیونکہ کے الیکٹرک کاروباری ادارہ ہے وہ بجلی کی فروخت سے معقول منافع کماتا ہے، اِس لیے اسے اپنی ادائیگیوں کا حساب صاف رکھنا چاہئے وہ کوئی رفاہی ادارہ تو نہیں ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم اسے معاف کر دی جائیں، اِس لیے اس سارے معاملے کو مستقل اور درست بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے۔
جہاں تک شہر میں پانی کی قلت کا تعلق ہے وہ آج سے نہیں،عشروں سے موجود ہے،لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مسئلہ حل کرنے کی جانب کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی، اِسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا رہا ہے۔ دس سال سے صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اس وقت تو صوبائی حکومت کو وفاق سے شکایات ہو سکتی ہیں،لیکن جب وفاق میں بھی پیپلزپارٹی حکمران تھی اور پارٹی کے صدر مْلک کے صدر بھی تھے اْس وقت تو پانی کا مسئلہ حل ہو جانا چاہئے تھا، لیکن اس تمام عرصے میں شہری پانی کے سلسلے میں مشکلات کا شکار رہے اس کی بڑی وجہ بظاہر یہ ہے کہ شہر کو جو پانی سپلائی ہوتا ہے، اس کا بیشتر حصہ کثیر المنزلہ عمارتیں لے جاتی ہیں ان عمارتوں میں رہائش پذیر لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انہیں پانی کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اس کا اہتمام تو بلڈنگ بنانے والوں کو کرنا چاہئے،لیکن وہ اس سے احتراز کرتے ہیں نتیجتاً شہر کو سپلائی ہونے والا پانی کم پڑ جاتا ہے اور لوگوں کو احتجاج کرنا پڑتا ہے، احتجاج سے مسئلہ تو سامنے آ جاتا ہے، لیکن حل نہیں نکلتا،حل تو صوبائی حکومت اور شہر کے میئر کو مل بیٹھ کر ہی نکالنا ہو گا،لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت ایک پارٹی کی ہے اور میئر کاتعلق دوسری سیاسی جماعت سے ہے،دونوں کی نہ صرف آپس میں نہیں بنتی،بلکہ وہ ایک دوسرے کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے رہتے ہیں۔میئر وسائل میں کمی کا رونا روتے ہیں تو صوبائی حکومت الزام لگاتی ہے کو جو وسائل میئر کی ڈسپوزل پر ہیں ان کا درست استعمال نہیں ہو رہا اور ان میں خوردبْرد ہوتی ہے۔اب الزام تراشی اور مٹکے توڑ کر احتجاج کرنے سے تو مسئلہ حل نہیں ہو گا، وزیراعظم کراچی میں تھے تو انہیں کوشش کر کے فریقین کو ایک میز پر بٹھا کر پانی کا مسئلہ بھی حل کرانا چاہئے تھا، ویسے تو جسٹس(ر)امیر ہانی مسلم بھی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں،لیکن معاملہ پھر بھی حل ہونے میں نہیں آرہا،اب جس شہر کی دو بنیادی ضرورتیں ہی پوری نہیں ہو رہی ہیں وہ اپنے باقی مسئلے کیسے حل کرے گا اس کا جواب تو حکومت اور آبائے شہر کے ذمے ہے،البتہ بلڈرز اس تمام تر صورتِ حال میں اپنے کاروباری مفادات حاصل کرنے میں کسی نہ کسی طرح کامیاب ہیں ایسی صورت میں احتجاج کی لہر کیا رنگ لائے ۔
رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...
لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...
پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...