وجود

... loading ...

وجود

اپوزیشن کے خلاف بھارتی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے

جمعه 27 اپریل 2018 اپوزیشن کے خلاف بھارتی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے

ریاض احمد چوہدری

حقیقت یہ ہے کہ بھارتی سرکاری این آئی اے ایجنسی اپنے مخالفین کو دبانے کیلیے استعمال کرتی ہے۔ بہت سے واقعات میں ثابت ہوا ہے کہ مذکورہ ایجنسی نے اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف کرپشن، بدعنوانی اور دیگر مقدمات کی تفتیش شروع کی۔ حکومتی مفاد میں بیان دینے یا حکومت کی مخالفت ترک کرنے پر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ ان پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ حکومت کی بات نہ مانیں انہیں بدترین مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ جب تک کہ وہ حکومتی دائرہ میں نہ آجائیں۔ اس کے علاوہ بھارتی سرکاری مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر شورش زدہ علاقوں میں عوامی لیڈران کو رام کرنے کیلیے بھی این آئی اے ایجنسی کا استعمال کرتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمیں سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ بھارتی حکمران تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور وہ اس کے ذریعے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو کمزور کرانا چاہتے ہیں۔ بھارتی حکمران جموں وکشمیر کی مسلمہ قیادت کو ہراساں اور بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس سلسلے میں تحریک حریت کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے اور اس کے رہنماؤں کے خلاف باضابطہ مہم شروع کی گئی ہے۔

تحقیقاتی ایجنسی این ائی اے (NIA)کی طرف سے بعض’’ آزادی پسند ‘‘لیڈروں اور کئی دوسرے لوگوں کے گھروں پر چھاپے ڈالنے کی کارروائی پر سخت ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے بزرگ لیڈر سید علی شاہ گیلانی،یٰسین ملک اور مولوی عمر فاروق نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے’’ کشمیری قوم کے اتحادواتفاق اور جبری قبضے کے خلاف واضح اعلانِ برات نے دلی کے پالیسی سازوں کو بوکھلاہٹ کا شکار بنادیا ہے اور اب انہوں نے آزادی پسند لیڈروں کے خلاف سازشوں کا ایک جال تیار کیا ہے، جس کے تحت انہیں تنگ اور ہراساں کرنے اور ان پر جھوٹے الزامات دھرنے کی کوششیں رو بہ عمل لائی جارہی ہیں‘‘۔

علی گیلانی نے کہاکہ بھارت کا ظلم اور جبر اس جدوجہد کو روک نہیں سکتا اور نہ این آئی اے کے ذریعے چلائی جانے والی مہم اس پر اثر اندازہوسکتی ہے۔ انہوں نے بھارتی پالیسی سازوں پر زوردیا کہ وہ ان ہتھکنڈوں کو بار بار آزمانا بند کردیں جو ناکام ثابت ہوچکے ہیں اور جن کا 7دہائیوں میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ تنازعہ کشمیر کی سنگینی میں اضافہ ہورہا ہے اورکشمیری عوام کا عزم اور جذبہ آزادی مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ دہلی کے پالیسی ساز ہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کر ہمیں اپنے نصب العین سے دستبردار کرانا چاہتے ہیں۔ جب تک کشمیریوں کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا اور انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا جاتا اس وقت تک ہماری جدوجہد ہر قیمت پر اور ہر صورت میں جاری رہے گی۔

بھارتی فوج جموں کشمیر میں جن سنگین قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کررہی ہے۔ ان کا ایک عکس سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے دنیا تک پہنچنا شروع ہوگیا ہے اور نہتے شہری کو جیپ سے باندھ کر انسانی ڈھال کے طور استعمال کرنے اور نوجوانوں کو حراستی تشدد کا نشانہ بنانے کے ویڈیوز عام ہونے سے کشمیر کی سنگین صورتحال سے متعلق ایک بیانیہ زیرِ بحث آنے لگا ہے۔کشمیر سے متعلق اس بیانیہ کو تبدیل کرانے کے لیے اب(بھارت نے) ایک نیا محاذ کھولاہے اور وہ اپنی فوج کے جنگی جرائم کو چھپانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے آزمانے پر آگیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے (NIA)کے چھاپے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کے ذریعے سے آزادی پسند لیڈرشپ کی کردار کشی کرنے اور اس کو خوف زدہ اور مرعوب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، تاکہ وہ اپنی مبنی بر حق جدوجہد سے دستبردار ہوجائے اور جبروزیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانا بند کرے۔

حریت قیادت نے مرکزی سرکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی نت نئی سازشوں اور چالوں سے کشمیری قیادت کو سرینڈر کرانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور نہ اس طرح سے تنازعہ کشمیر کی حیثیت اور ہئیت کو تبدیل کیا جانا ممکن ہے۔ یہ ایک پاگل پن ہے، جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔لوگ اس مہم جوئی کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے اور پھر اس وقت حالات کو قابو کرنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوگا۔

ان لیڈروں نے خبردارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی دہشت گردی کا یہ کھیل جاری رہا اور تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو ایک جنگی حربے کے طور استعمال کرنے کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جن کے لیے کْلی طور پر حکومت ذمہ دار ہوگی۔

این آئی اے نے حوالہ کے ذریعہ مبینہ طور حریت لیڈروں کو ملنے والی رقومات اور انکے تصرف کا پتہ لگانے کے لیے سرینگر میں کم از کم چودہ مقامات پر بعض علیٰحدگی پسند لیڈروں اور نامور کاروباری شخصیات کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔

حال ہی میں بھارتی عدالت نے مکہ مسجد دھماکے کے تمام ہندو انتہا پسند ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر رہا کردیا ہے۔واقعے میں 9 افراد جاں بحق جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔واقعے کی ذمہ داری ہندو انتہا تنظیم آر ایس ایس سے منسلک ذیلی تنظیم ابھینو بھارت نے قبول کی تھی۔اس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپی، بعد ازاں اس کی تحقیقات بھارت کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے سپرد کی گئی۔این آئی اے نے تحقیقات کے دوران ملنے والے شواہد اور گواہان کے بیانات کی روشنی میں ابھینو بھارت سے تعلق رکھنے والے 10 ملزمان کو مقدمے میں نامزد کیا تھا۔ نامزد ملزمان میں ایک ہندو انتہا پسند رہنما سوامی اسیم آنند بھی تھا جو 2006 میں مالیگاؤں، 2007 میں اجمیر میں خواجہ غریب نواز کے مزار اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے کے واقعات میں بھی نامزد تھا تاہم اسے بری کردیا گیا تھا۔سوامی اسیم آنند نے دوران تفتیش اپنے اقبال جرم میں کہا تھا کہ ہندو انتہا پسندوں نے مکہ مسجد، درگاہ اجمیر شریف اور ملک کے دیگر حصوں میں دھماکے کیے ہیں تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے پھر گیا اور موقف اختیار کیا اس نے این آئی اے کے دباؤ میں آکر اس طرح کا بیان دیا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر