وجود

... loading ...

وجود

دہشت گردی کے پیچھے کون ہے؟

جمعه 20 اپریل 2018 دہشت گردی کے پیچھے کون ہے؟

(قسط نمبر:2)

پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں مسلسل آزادی اوراس نوع کی ریاست مخالف آوازیں بلند کی جاتی ہیں ۔ ’’یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘ ،’’یہ جو طالب گردی ہے اس پیچھے وردی ہے ‘‘، ’’ یہ جو مارا ماری ہے اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘ کے نعرے سُنائی دیتے ہیں ، اسٹیج سے بھی لگواائے جاتے ہیں۔ گیارہ مارچ کو کوئٹہ کے صادق شہید فٹبال گرائونڈ کے جلسہ عام میں ایک خاتون، جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان نعروں سے کیا۔ یہ خاتون ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں ، دو ہزار تیرہ میں کو ئٹہ سے قومی اسمبلی کاانتخاب بھی لڑچکی ہیں ۔ شنید ہے ان کے والد کی سیاسی رفاقت افغانستان کی ’’پرچم‘‘ پارٹی سے تھی ۔ جب افغان طالبان نے کابل فتح کیا تو اقوام متحدہ کے دفتر سے محصور سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کو نکال کر ناجائز اور ناروا پھانسی پر لٹکادیا۔ لاش کی بے حرمتی کی ۔ ان کی لاش گھنٹوں تک لٹکتی رہی ۔ امارت اسلامیہ کو ڈاکٹر نجیب کی پھانسی اور قتل کی بے حرمتی کا جواب دے دینا چاہیے کہ کیوں ایک نہتے، بے بس اور اسیر شخص کا بہیمانہ قتل کیا گیا یا اس قتل کے محرکات کیا تھے۔ چونکہ طالبان برسر اقتدار آگئے تھے توہو نا یہ چا ہئے تھا کہ ڈاکٹر نجیب پرعدالت قائم کی جاتی۔ صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جا تا۔ بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر نجیب کو اسلامی اور افغانی روایات کے تحت عزت و احترام سے ان کی مرضی کے کسی ملک بھیج دیا جاتا ۔ طالبان نے ڈاکٹر نجیب کا خاتمہ کرکے ان کے سینے میں پوشیدہ راز ، سچائیاں ، اپنوں کی بے وفائیوں کی داستان کو دفن کردیا۔ ڈاکٹر نجیب زندہ ہوتے تو وہ ضرور ان سیاہ چہروں کو بے نقاب کرتے جنہوں نے انقلاب اور افغانیت کے نام پر مکرو کھیل کھیلا ۔ ذات اور خاندانوں کو فائدہ پہنچایا ۔ ضرور ان عوامل اور سازش سے پردہ اٹھاتے کہ کس طرح وہ کابل سے باہر جانے نہیں د یئے گئے ۔اور اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لینے پرمجبور کیے گئے۔ اس عمل میں ڈاکٹر نجیب کے جماعتی اور نظریاتی دوست ہی شامل تھے۔ ہاں تو ڈاکٹر نجیب کو پھانسی اور موت کے گھاٹ اتارنے کا سن کر اس خاتون وکیل کے والد صدمے سے انتقال کر گئے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ دلبر داشتہ ہو کر خودکشی کرلی تھی،واللہ ا علم با لصواب۔

سوال ہے کہ پاکستان کے اندر سالوں سے ہونی والی دہشگردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ خصوصاً خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کے اندر ظلم ، دہشتگردی اور سفاکیت کی کونسی منصوبہ بندی ہے جو آزمائی نہ گئی ہو ۔ سینکڑوں ہزاروں آباد کار نسل اور زبان کی بنیاد پر قتل ہوئے۔ فرقہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد فنا کے گھاٹ اتارے گئے۔ خود ہزارہ قبیلے کی خواتین، بچے اور مرد بڑی سنگدلی اور وحشت کے ساتھ تہہ تیغ کیے جاتے رہے ہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس، لیویز ، ایف سی اور فوجی ٹارگٹ کیے جاچکے ہیں۔ رواں سال اب تک محض کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں کم و بیش چالیس افراد پیوند خاک کیے گئے ہیں۔ان میںپولیس، ایف سی ، لیویز اور ہزارہ و عیسائی برادری کے افراد شامل ہیں۔ یہ انسان کُشی کسی آسیب کی وجہ سے ہوئی نہیں ،بلکہ جنہوں نے اپنے ہاتھ بے گناہوں کے خون نا حق سے رنگے نے دھڑلے سے ذمہ داریاں بھی قبول کی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں ۔ انہیں تخریب کاری اور دہشتگردی پھیلانے کے تمام لوازمات دیئے جاتے ہیں۔ افسوس! کسی نے افغان حکومت ،وہاں بیٹھی بھارتی خفیہ اداروں کی طرف انگشت نہ اُٹھائی ۔ ان دہشتگردوں کو پالنے والوں کی وردی ان کو نظر نہیں آتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کے پیچھے یقینا وردی ہے یہ وردی افغان فورسز کی ہے، یہ بھارتی فوج کی ہے اور یہ وردی قابض امریکی افواج کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور خوف نہیں کہ فاٹا کے اندر ماورائے عدالت گرفتاریوں اور قتل کی تحقیقات ہونی چاہیے اور آئی ڈی پیز چاہے پاکستان کے اندر ہو یا وہ جو افغانستان کی طرف گئے ہیں کی عزت اور وقار کے ساتھ واپسی یقینی بنائی جائے۔ انسانی حقوق کی پامالی ہوگی تو اس سے ملک اور افواج کے لیے مصائب اور مشکلات کھڑے ہوں گے ۔8اپریل کو پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا ، نوجوان پرجوش تھے۔ خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی ۔ اس تحریک کو عالمی ذرائع ابلاغ پر زبردست کوریج ملی ہے ۔ بی بی سی ہو ، وائس آٖ امریکہ، نیویارک ٹائمز ہو یا الجزیرہ ٹی وی سب ہی نے نمایاں طور پر اسے پیش کیا ہے۔ پشاور کے اجتماع سے یکجہتی کی کی خاطر افغانستان، جرمنی اور واشنگٹن میں بھی بڑے منظم مظاہرے ہوئے۔

جرمنی اور وائٹ ہائوس کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں ان ممالک کے مختلف شہروں کے پاکستانی پشتون اور افغانستان کے پشتون و دوسری قوموں کے مرد و زن نے شرکت کی۔ ہر جگہ آزاد وطن یا ایک قوم و ملت کی تقریریں ہوئیں۔ منظور پشتین یہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف را یا این ڈی ایس سے روابط و تعلق کا اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کیا جائے۔ مگر منظور پشتین پاکستان سے باہر کے اس منظر نامے پر غور کرکے خود ہی اپنا احتساب کریں کہ ان کے احتجاج کی آڑ میں پاکستان کے خلاف کونسی گھنائونی بازی کھیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ حیرت ہے کہ افغان حکومت یا اس کی میڈیا بھی پاکستان کے پشتونوں پرظلم و زیادتی پر ٹسوے بہارہی ہے کہ جس کی آزادی ،خود مختاری عزت وناموس، غیرت اور سلامتی سب ہی امریکہ کے ہاں گروی ہے ۔ افغان عوام روز کٹ مررہے ہیں ان کی عزت و حرمت پامال ہورہی ہے۔تعجب ہے امریکہ کی غلامی ،ظلم و زیادتیوں پر مطمئن اور خوش افغان حکومت اور میڈیا کو پاکستان کے پشتون عوام کی حالت زار ستارہی ہے!۔ اب اس تضاد اور منافقت کو کیا نام دیا جائے!۔ پشتون عوام ساٹھ اور ستر کی دہائی کی طرح فریب کا شکار نہ ہوں۔ جس تماشے کی داغ بیل ڈالنے کی سعی ہورہی ہے وہ کسی طور پشتون عوام کے مفادات کے موافق نہیں ہے۔ اور جو شریک فساد ہوگا وہ قوم کا مجرم ہوگا ۔۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 12اپریل کو جی ایچ کیو میں تقریب سے خطاب میں اس جانب غیر مبہم اشارہ کیا ہے، جو معاملے کی حساسیت کی غمازی کرتا ہے۔افغانستان کی سرزمین پر ہونیوالی اس فتنہ کاری روکنے کی ضرورت ہے۔ان نوجوانوں کو دور کرنے کی بجائے قریب لانے حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ان کے جائز مطالبات در خور اعتنا نہ ہونے چاہئیں۔رائو انوار سے نقیب اللہ محسود کے قتل کا حساب لینا چاہئے۔

ہم بلوچستان میں غیر سنجیدہ رویے سالوں پر محیط تباہی پر منتج ہو تے دیکھ چکے ہیں ۔ اس مسلح مزاحمت کی حکومت ،قانون نافذ کرنے والے اداروں یہاں تک کہ خود بلوچ عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔فاٹا میں نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے والی اشتعال کی نئی لہر سے پیدا ہونے والی صورتحال ، ممکنہ غیر ملکی سازشوں کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ان جائز مطالبات کو تسلیم اور ان پر عملدرآمد کیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا پشتون تحفظ موومنٹ سے برأت کا اعلان دور اندیشی پر مبنی ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں اے این پی کے زاہد خان کو نجی ٹی وی چینل پر (9 اپریل )یہ کہتے ہوئے سنا کہ’’ ان کی جماعت پاکستان مخالف نعروں کی حمایت نہیں کرسکتی۔ آئین اور قانون سے ماورا کسی نعرے اور تحریک کی حمایت نہیں کرسکتے۔اور پاکستان کے صوبوں کا افغانستان سے الحاق کے کسی مطالبے کی عوامی نیشنل پارٹی حمایت نہیں کر تی ‘‘۔ اگر طالب گردی سے مراد پاکستانی طالبان ہیں تو اس کے خلاف پاکستان کی فوج اور ادارے بر سر جنگ ہیں۔اور اگر اشارہ افغان طالبان کی جانب ہے تو وہ خود امریکی دہشتگردی کا شکار ہیں وہ اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے خلاف سیاسی و اسلحی مزاحمت کررہے ہیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندر معصوم عوام کو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھانے والے دہشتگرد گروہوںکی پشت پر موجود وردی کو بے نقاب کرنے پر زبانیں گنگ کیوں ہیں۔(ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر