... loading ...
(قسط نمبر:2)
پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں مسلسل آزادی اوراس نوع کی ریاست مخالف آوازیں بلند کی جاتی ہیں ۔ ’’یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘ ،’’یہ جو طالب گردی ہے اس پیچھے وردی ہے ‘‘، ’’ یہ جو مارا ماری ہے اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘ کے نعرے سُنائی دیتے ہیں ، اسٹیج سے بھی لگواائے جاتے ہیں۔ گیارہ مارچ کو کوئٹہ کے صادق شہید فٹبال گرائونڈ کے جلسہ عام میں ایک خاتون، جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ان نعروں سے کیا۔ یہ خاتون ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں ، دو ہزار تیرہ میں کو ئٹہ سے قومی اسمبلی کاانتخاب بھی لڑچکی ہیں ۔ شنید ہے ان کے والد کی سیاسی رفاقت افغانستان کی ’’پرچم‘‘ پارٹی سے تھی ۔ جب افغان طالبان نے کابل فتح کیا تو اقوام متحدہ کے دفتر سے محصور سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کو نکال کر ناجائز اور ناروا پھانسی پر لٹکادیا۔ لاش کی بے حرمتی کی ۔ ان کی لاش گھنٹوں تک لٹکتی رہی ۔ امارت اسلامیہ کو ڈاکٹر نجیب کی پھانسی اور قتل کی بے حرمتی کا جواب دے دینا چاہیے کہ کیوں ایک نہتے، بے بس اور اسیر شخص کا بہیمانہ قتل کیا گیا یا اس قتل کے محرکات کیا تھے۔ چونکہ طالبان برسر اقتدار آگئے تھے توہو نا یہ چا ہئے تھا کہ ڈاکٹر نجیب پرعدالت قائم کی جاتی۔ صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جا تا۔ بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر نجیب کو اسلامی اور افغانی روایات کے تحت عزت و احترام سے ان کی مرضی کے کسی ملک بھیج دیا جاتا ۔ طالبان نے ڈاکٹر نجیب کا خاتمہ کرکے ان کے سینے میں پوشیدہ راز ، سچائیاں ، اپنوں کی بے وفائیوں کی داستان کو دفن کردیا۔ ڈاکٹر نجیب زندہ ہوتے تو وہ ضرور ان سیاہ چہروں کو بے نقاب کرتے جنہوں نے انقلاب اور افغانیت کے نام پر مکرو کھیل کھیلا ۔ ذات اور خاندانوں کو فائدہ پہنچایا ۔ ضرور ان عوامل اور سازش سے پردہ اٹھاتے کہ کس طرح وہ کابل سے باہر جانے نہیں د یئے گئے ۔اور اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لینے پرمجبور کیے گئے۔ اس عمل میں ڈاکٹر نجیب کے جماعتی اور نظریاتی دوست ہی شامل تھے۔ ہاں تو ڈاکٹر نجیب کو پھانسی اور موت کے گھاٹ اتارنے کا سن کر اس خاتون وکیل کے والد صدمے سے انتقال کر گئے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ دلبر داشتہ ہو کر خودکشی کرلی تھی،واللہ ا علم با لصواب۔
سوال ہے کہ پاکستان کے اندر سالوں سے ہونی والی دہشگردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ خصوصاً خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کے اندر ظلم ، دہشتگردی اور سفاکیت کی کونسی منصوبہ بندی ہے جو آزمائی نہ گئی ہو ۔ سینکڑوں ہزاروں آباد کار نسل اور زبان کی بنیاد پر قتل ہوئے۔ فرقہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد فنا کے گھاٹ اتارے گئے۔ خود ہزارہ قبیلے کی خواتین، بچے اور مرد بڑی سنگدلی اور وحشت کے ساتھ تہہ تیغ کیے جاتے رہے ہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں پولیس، لیویز ، ایف سی اور فوجی ٹارگٹ کیے جاچکے ہیں۔ رواں سال اب تک محض کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں کم و بیش چالیس افراد پیوند خاک کیے گئے ہیں۔ان میںپولیس، ایف سی ، لیویز اور ہزارہ و عیسائی برادری کے افراد شامل ہیں۔ یہ انسان کُشی کسی آسیب کی وجہ سے ہوئی نہیں ،بلکہ جنہوں نے اپنے ہاتھ بے گناہوں کے خون نا حق سے رنگے نے دھڑلے سے ذمہ داریاں بھی قبول کی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں ۔ انہیں تخریب کاری اور دہشتگردی پھیلانے کے تمام لوازمات دیئے جاتے ہیں۔ افسوس! کسی نے افغان حکومت ،وہاں بیٹھی بھارتی خفیہ اداروں کی طرف انگشت نہ اُٹھائی ۔ ان دہشتگردوں کو پالنے والوں کی وردی ان کو نظر نہیں آتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کے پیچھے یقینا وردی ہے یہ وردی افغان فورسز کی ہے، یہ بھارتی فوج کی ہے اور یہ وردی قابض امریکی افواج کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور خوف نہیں کہ فاٹا کے اندر ماورائے عدالت گرفتاریوں اور قتل کی تحقیقات ہونی چاہیے اور آئی ڈی پیز چاہے پاکستان کے اندر ہو یا وہ جو افغانستان کی طرف گئے ہیں کی عزت اور وقار کے ساتھ واپسی یقینی بنائی جائے۔ انسانی حقوق کی پامالی ہوگی تو اس سے ملک اور افواج کے لیے مصائب اور مشکلات کھڑے ہوں گے ۔8اپریل کو پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیر اہتمام بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا ، نوجوان پرجوش تھے۔ خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی ۔ اس تحریک کو عالمی ذرائع ابلاغ پر زبردست کوریج ملی ہے ۔ بی بی سی ہو ، وائس آٖ امریکہ، نیویارک ٹائمز ہو یا الجزیرہ ٹی وی سب ہی نے نمایاں طور پر اسے پیش کیا ہے۔ پشاور کے اجتماع سے یکجہتی کی کی خاطر افغانستان، جرمنی اور واشنگٹن میں بھی بڑے منظم مظاہرے ہوئے۔
جرمنی اور وائٹ ہائوس کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں ان ممالک کے مختلف شہروں کے پاکستانی پشتون اور افغانستان کے پشتون و دوسری قوموں کے مرد و زن نے شرکت کی۔ ہر جگہ آزاد وطن یا ایک قوم و ملت کی تقریریں ہوئیں۔ منظور پشتین یہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف را یا این ڈی ایس سے روابط و تعلق کا اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کیا جائے۔ مگر منظور پشتین پاکستان سے باہر کے اس منظر نامے پر غور کرکے خود ہی اپنا احتساب کریں کہ ان کے احتجاج کی آڑ میں پاکستان کے خلاف کونسی گھنائونی بازی کھیلنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ حیرت ہے کہ افغان حکومت یا اس کی میڈیا بھی پاکستان کے پشتونوں پرظلم و زیادتی پر ٹسوے بہارہی ہے کہ جس کی آزادی ،خود مختاری عزت وناموس، غیرت اور سلامتی سب ہی امریکہ کے ہاں گروی ہے ۔ افغان عوام روز کٹ مررہے ہیں ان کی عزت و حرمت پامال ہورہی ہے۔تعجب ہے امریکہ کی غلامی ،ظلم و زیادتیوں پر مطمئن اور خوش افغان حکومت اور میڈیا کو پاکستان کے پشتون عوام کی حالت زار ستارہی ہے!۔ اب اس تضاد اور منافقت کو کیا نام دیا جائے!۔ پشتون عوام ساٹھ اور ستر کی دہائی کی طرح فریب کا شکار نہ ہوں۔ جس تماشے کی داغ بیل ڈالنے کی سعی ہورہی ہے وہ کسی طور پشتون عوام کے مفادات کے موافق نہیں ہے۔ اور جو شریک فساد ہوگا وہ قوم کا مجرم ہوگا ۔۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 12اپریل کو جی ایچ کیو میں تقریب سے خطاب میں اس جانب غیر مبہم اشارہ کیا ہے، جو معاملے کی حساسیت کی غمازی کرتا ہے۔افغانستان کی سرزمین پر ہونیوالی اس فتنہ کاری روکنے کی ضرورت ہے۔ان نوجوانوں کو دور کرنے کی بجائے قریب لانے حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ان کے جائز مطالبات در خور اعتنا نہ ہونے چاہئیں۔رائو انوار سے نقیب اللہ محسود کے قتل کا حساب لینا چاہئے۔
ہم بلوچستان میں غیر سنجیدہ رویے سالوں پر محیط تباہی پر منتج ہو تے دیکھ چکے ہیں ۔ اس مسلح مزاحمت کی حکومت ،قانون نافذ کرنے والے اداروں یہاں تک کہ خود بلوچ عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔فاٹا میں نا انصافیوں کے خلاف اٹھنے والی اشتعال کی نئی لہر سے پیدا ہونے والی صورتحال ، ممکنہ غیر ملکی سازشوں کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ان جائز مطالبات کو تسلیم اور ان پر عملدرآمد کیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا پشتون تحفظ موومنٹ سے برأت کا اعلان دور اندیشی پر مبنی ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں اے این پی کے زاہد خان کو نجی ٹی وی چینل پر (9 اپریل )یہ کہتے ہوئے سنا کہ’’ ان کی جماعت پاکستان مخالف نعروں کی حمایت نہیں کرسکتی۔ آئین اور قانون سے ماورا کسی نعرے اور تحریک کی حمایت نہیں کرسکتے۔اور پاکستان کے صوبوں کا افغانستان سے الحاق کے کسی مطالبے کی عوامی نیشنل پارٹی حمایت نہیں کر تی ‘‘۔ اگر طالب گردی سے مراد پاکستانی طالبان ہیں تو اس کے خلاف پاکستان کی فوج اور ادارے بر سر جنگ ہیں۔اور اگر اشارہ افغان طالبان کی جانب ہے تو وہ خود امریکی دہشتگردی کا شکار ہیں وہ اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے خلاف سیاسی و اسلحی مزاحمت کررہے ہیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندر معصوم عوام کو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھانے والے دہشتگرد گروہوںکی پشت پر موجود وردی کو بے نقاب کرنے پر زبانیں گنگ کیوں ہیں۔(ختم شد)