... loading ...
اکتوبر 1917ء کے اشتراکی انقلاب سے قبل زار شاہی نے اپنی سرحدوں کی توسیع کی سامراجی پالیسی اپنا رکھی تھی ۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد وہی استعماری و سامراجی نظام و چلن الگ جا مہ و صورت کے ساتھ رائج رہا۔ ان کی نظریاتی تبلیغ کا دائرہ مؤثر اور وسیع تھا۔ افغانستان کی افسر شاہی، فوج اور تعلیمی اداروں میں بھی ان کا لٹریچر پہنچ چکا تھا ۔ ظاہر شاہ کے دور ہی میں ایک حلقہ ہمنوا بن گیا ۔ظاہر شاہ کا وزیر اعظم سردار دائود کے ابتدائی ایام میں کمیونسٹ نظریات سے تعارف ہو اور حلقہ یاراں میں شامل ہوگئے تھے۔ظاہر شاہ کو بے دخل کرکے خود ملک کے صدر بن گئے۔ چناں چہ سردار دائود کے خلاف روس کی کمیونسٹ اشرافیہ 27 اپریل1978ء میں افغانستان پر گروہی آمریت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پرانا دوست سردار دائود آڑے آیا تو اسے خاندان سمیت فنا کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس گروہی آمریت کی قیادت نور محمد ترہ کئی کررہے تھے۔ یہ دور روس میں ’’لیونڈ بر ژنیف‘‘ کی صدارت کا تھا۔ جس کی قیادت میں روس نے اتحادیوں کیساتھ ملکر کئی ممالک تک اپنا سایہ پھیلا رکھا تھا۔ افغانستان میں اس انقلاب کے خلاف افغانوں نے مزاحمت شروع کردی۔ اس کے علیٰ الرغم کمیونسٹ تخت کابل کے حصول کے لیے آپس ہی میں متصادم تھے۔اس انقلاب سے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران تحفظ کے خوف کا شکار ہوگئے۔ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں بادہشاہت کے خلاف انقلاب کامیاب ہوچکا تھا۔اس تازہ انقلاب کو اب کمیونسٹوں کا خوف دامنِ گیر تھا ۔جس کے پیش نظر ایران کی نئی حکومت نے بھی پیش بندی شروع کردی۔
پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی ڈیورنڈ لائن، پشتونستان تحریک جیسی پریشانیوں میں مبتلا تھا۔ پشتونستان تحریک ساٹھ کی دہائی میں افغانستان میں منظم کی گئی ۔خان عبدالغفار خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان کو تسلیم کرلیا تھا۔ البتہ پشتون صوبے کا نام اور مکمل صوبائی خود مختاری کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ بعد ازاں اس تلا مذہ کے چندپشتون علیحدگی کی راہ پر چل نکلے ۔ 60اور پھر70 کی دہائی میں پشتون رہنماء بھی کابل میں سکونت پذیر یا پناہ گزین بن گئے۔ ان کو کابل سرکار کی طرف سے زندگی کی تمام ضروریات و سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔ پشتونستان دن سرکاری سطح پر منایا جاتا۔ یہ رہنما اور دانشور ریڈیو کابل کے ذریعے تبلیغات بھی کرتے۔ ویسے بھی کابل ریڈیو سے پشتونستان اور پشتون ملت کی وحدت کے لیے باقاعدہ اور منظم طریقے سے ابلاغ ہوتی تھی۔ علیحدگی کے تصور کو عام کرنے کی خاطر وسیع لٹریچر پر کام ہوا۔ یہ لٹریچرپاکستان کے اندر بھی سیاسی کارکنوں، ادیبوں ، دانشوروں اور طلباء کے ہاتھوں تک پہنچ گیا۔1950-51ء میں ایک وفد اس وقت کے پاکستان کے سربراہ کی قیادت میں امریکا کے دورے پر گیا تو واشنگٹن میں ’’پشتونستان‘‘ کے حق میں مظاہرہ ہوا۔ امریکا میں آزاد پشتونستان انجمن کے نام سے تنظیم کام کررہی تھی۔ افغانستان میں کشت و خون کی بنیاد پر قائم ہونیوالی اس گروہی آمریت کے بعد جیسے پنڈورا باکس کھلا ۔ افغانستان تو تہہ و بالا ہو ہی گیا، بدیہی طور، بد امنی، تخریب اور دہشتگردی نے پا کستان کے گوشہ گوشہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس زمانے میں سندھ کے اندر علیحدگی کی ایک کمزور آواز تھی۔
بلوچستان میں مسلح مزاحمت نے کئی جلوے دکھائے ۔پانچویں مزاحمت پرویز مشرف کی آمریت میں جلوہ گر ہوئی ۔جس پر قابو پاتے پاتے ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ لگا۔ مزاحمتی گر وہوں کا قطعی قلع قمع نہ ہوسکا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہ نئی سوغات افغا نستان پراکتوبر2001ء کے امریکی حملے اورقبضے کے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے فاٹا میں گویا غیر اعلانیہ ریاست قائم کرلی ۔جہاں سے ملک بھر میں موجود مذہبی شدت پسند گروہوں کو منظم اور توانا کیاگیا۔ آپریشن ضرب عضب سے قبل ہی ان مسلح جتھوں کو افغانستان کے اندر بھارتی خفیہ ادارے راء کی چھتری میسر آگئی۔ ان گروہوں نے بلاشبہ پاکستان کو تباہی سے دوچار کئے رکھا ۔ آپریشن کی کامیابی کے بعد بھی پاکستان کا کوئی حصہ ان کی دہشتگردی اور سفاکانہ حملوں سے محفوظ نہ رہ سکا ہے۔گویا پاکستان کی افواج اب بھی حالت جنگ میں ہے۔غر ضیکہ پشتونستان تحریک کچل دی گئی ۔ ظاہر ہے کوئی جماعت اپنی خفیہ تحریک اور سیاسی عملیات کاعلانیہ اظہار نہیں کرتی۔ چونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماء کابل میں مقیم تھے اور ریڈیو کابل پر ان کے پروگرام مخفی نہ تھے ،جو اس امر کی غماز تھی کہ یہ جماعت افغانستان ، سویت یونین اور بھارت کی حمایت اور کمک سے پشتونستان کی تحریک چلارہی ہے۔ افغانستان میں جب تک ڈاکٹر نجیب کچھ نہ کچھ طاقت میں تھے تو ایک موہوم امید پھر بھی بندھی رہی ۔ وہ امیدیں بھی آخر کار دم توڑ گئیں۔ رہنمائوں نے بھی واپسی کی راہ لی، اورپاکستان کے اندر سیاسی عمل میں پھر سے حصہ لینا شروع کردیا۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد لاکھوں قبائلی عوام افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ آپریشن کے دوران ان آبادیوں اور بازاروں کو شدید نقصان سے دو چار ہونا پڑا ، عمارتیں نا قابل استعمال ہوگئیں ۔ ان علاقوں میں ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں اور ناکوں پر چیکنگ جیسے مسائل ابھرے۔یقینا بڑا زمانہ سکوت رہا ۔
فاٹا میں میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں اور دوسرے رفاعی اور فلاحی اداروں کے کارکنوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ بالآخر ان مسائل پر بولنا شروع ہوا۔یقینا وہاں کے باشندوں نے قانونی چارہ جوئی کی کوشش بھی کی ہوگی تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے نوجوانوں نے الگ جہت سے بولنا شروع کردیا ۔جن کی سربراہی جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والا محسود کا نوجوان منظور پشتین کررہا ہے۔ کراچی میں رائو انوار کے ہاتھوں نقیب محسود کے قتل کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کو عالمگیر شہرت مل گئی ۔کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کرچکی ہے ۔شمالی بلوچستان کے دیگر علاقوں اور کوئٹہ میں بھی عوامی جلسے ہوئے جس سے پشتونخواملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ ان تقاریر کے نتیجے میں ان پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے۔ پشتونخوامیپ کے رہنمائوں نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔عدالت نے تمام مقدمات کالعدم کر دیئے۔اور متعلقہ اتھارٹیز سے جواب طلب کیا۔ ہم ان سطور میں لکھ چکے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں، آئی ڈی پیز کی اپنے علاقوں میں آباد کاری اور چیک پوسٹوں پر عزت نفس کی پامالی او بارودی سرنگوں کی صفائی جیسے مطالبات درست اور جائز ہیں، جس سے کوئی شائد انکار بھی نہ کرے یقینا بشری حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ملک کے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں بلکہ ضرور کریں گی۔
مگر ملک مخالف رجحان اگر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس راہ و سفر میں منظور پشتین اور اس کے ساتھی تنہا ہوں گے۔ یقینی طور پر فاٹا کے عوام کے مسائل رفع ہونے کی بجائے کچھ اور ہی بھیانک صورتحال جنم لینے کا خدشہ اور امکان پیدا ہوسکتا ہے۔بلکہ مجھے تو اس کے ٓاثار بڑے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی ذات کی حد تک میں یہ کہنا قبل از وقت سمجھتا ہوں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو بھارتی خفیہ ایجنسی را ، افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس یا کسی کی تخریبی نیت اور سوچ کی حمایت حاصل ہے۔ مگر یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کے اندر کسی تنظیم کے مطالبات اور احتجاج پر بھارت اور افغانستان کی میڈیا کو ہمدردی اور پریشانی کا غم کیوں کھارہا ہے؟ منظور پشتین سر پر سرخ رنگ کی کشیدہ کاری کی ہوئی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتا ہے ۔ یہ ٹوپی پشتونوں کی پوشاک کا حصہ نہیں۔ البتہ افغانستان کے شمال کی اقوام ہزارہ، ازبک ، تاجک اور ترکمن ضرور استعمال کرتے ہیں۔ سرخ رنگ کی ٹوپی منظور کی تحریک میں شامل نوجوان بھی سروں پر رکھنا شروع ہوگئے۔ افغانستان کے ٹی وی چینلز پر ان ٹوپیوں کی خریدو فروخت پر متعدد رپورٹس نشر ہوئیں۔۔ٹوپیاں فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام کے ساتھ وہاں کی حکومت ظلم کررہی ہے اس وجہ سے افغانستان کے لوگوں نے بھی ان سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ ٹوپیاں خریدنا شروع کردی ہیں۔ یہی کچھ خریداروں سے بھی بلوایا جاتا ہے۔ ان کے جملوں میں ’’لر‘‘ا و’’ بر‘‘ ’’ یو افغان‘‘ یعنی پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے ایک ہی قوم اور ملت کا حصہ ہیں ۔ یہ وہی پچاس، ساٹھ اور ستر حتیٰ کہ اسی کی دہائی کے نعرے ہیں۔ جس کی پذیرائی افغان حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔(جاری ہے )