وجود

... loading ...

وجود

جوتے بازی ! عوام مکمل راضی ؟

منگل 10 اپریل 2018 جوتے بازی ! عوام مکمل راضی ؟

بڑے سیاستدانوں کی آپس کی گالم گلوچ ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اشتعال انگیز زبان استعمال کرنا حتیٰ کہ بد تمیزیاں تک کر ڈالناایسے افعال ہیں جن سے انتخابات سے بھی قبل لڑائی جھگڑے شروع ہونے ،آپس میں جوتم پیزار ہوجانے ،سیاہیاں پھینکنے جیسی بھیانک حرکتیں شروع ہو چکی ہیں گو جوتے بازی کا یہ عمل قطعاً ناپسندیدہ ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے جس پر روایتی طور پر مخالف گرو ہ مذمتی بیانات بھی دیتا رہتاہے تاکہ “سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ” مگر جوتا پھینکنے والے کے سیاسی سپورٹرز اور عام عوام خوب مزے مزے لیکر خوشیاں مناتے کہ وہ دیکھو آج فلاں لیڈر کو جوتے پڑگئے اور بعض مذمت بھی کرتے ہیں ۔

ویسے جوتے پھینکنے کی تاریخ پرانی ہے یہ بین الاقوامی خبر بنی جب ایک عراقی نے 2008میں امریکی صدر پر جوتا پھینکاجس نے عراق میں امریکی کاروائیوں کے خلاف احتجاجاً ایسا کیا،دوسرا جوتا عراقی بیواؤں اور یتیم بچوں کی طرف سے امریکی کاروائیوں کے خلاف تھا جس کی زبردست پذیرائی ہوئی حتیٰ کہ ایک سعودی باشندے نے ان جوڑوں کی قیمت1کروڑ ڈالر لگا دی تھی، بھٹو صاحب کے جلسہ عام میں لوگوں نے جوتے دکھائے تو انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے پتاہے کہ جوتے مہنگے ہو گئے ہیں آجکل عوام جو کہ مہنگائی بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر خو دکشیاں کرنے یا جل بھن کر مر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں ان کے لیے تو جوتا بازی سے بھی کوئی مزید بڑا ایکشن ان سبھی جغادری سیاستدانوں کے خلاف ہونے کے خواہشمند ہیں جو70سالوں سے ملک کے وسائل پر قابض ہو کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔

وہ تو ان سبھی لوٹا نما نام نہاد سیاستدانوں کو دریا برد ہی نہیں سمندر غرق ہو تا دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ کئی کی تو یہ رائے ہے کہ ان سبھی بھاری سرمایوں کے ذور پر ہمیشہ ہی منتخب ہو جانے والے کرپٹ وڈیروں ،ظالم جاگیرداروں ،نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں ،ناجائز منافع خور صعنتکاروں اور ایسے ہی دیگر ناجائز کمائیاں کرنے والوں کو پکڑ کر اگر سمندر میں وہیل مچھلیوں کی خوراک بننے کے لیے پھینک ڈالا جائے تو منوں مٹھائیاں تقسیم ہوں گی خواہ عوام کو بدستور اسی طرح راتوں کو بھوکوں سونا پڑے در اصل تو بڑی پاپو لر جماعت کو دیکھ کر مفاد پرست لوٹا سیاسی گروبھاگ کر اسی کی مڈھیڑ پر آ بیٹھتے ہیں اور جب اس کی ایسی تیسی ہونا شروع ہوتی ہے تو بھاگم بھاگ دوسرے مقتدر ہوجانے والے گروہ کے ساتھ مل جا تے ہیں عمران خان اچھا بھلا نوجوانوں بالخصوص سیاسی کارکنوں میں پاپولر ہوا تھا مگر جب اس نے اپنے دَر ان کے لیے واکردیے جو کہ ہمیشہ ہی میر جعفر و میر صادق کا کردار ادا کرتے ہوئے بھاگ کرچلتی اقتداری ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں تو اب عام آدمی ان میں و دیگر70سال سے اقتدار انجوائے کرنے والوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا۔مگر عوام کیا کریں ؟کہاں جائیں ؟آگے کھائی پیچھے دریا والا معاملہ در پیش ہے جب کسی لیڈر سے آس لگاتے ہیں تو وہ پھر انہی راندۂ درگاہ طبقات کوگلے لگا کر عوام پر دوبارہ سوار کر ڈالتا ہے کہ جن کی نفرت کی وجہ سے انہوں نے مخصوص لیڈر کو پسند کیا تھا سیاسی کارکن تو سخت مایوسی کے عالم میں ہیں کہ کدھر جائیں ؟ کس رو سیاہ کو رہبر مانیں ” نہ جائے ماندن نہ پائے ر فتن”پھر انتخاب تو اب صرف سرمایہ کی دوڑ کا نام رہ گیا ہے جو زیادہ مال لگائے گا وہی کامیاب ٹھہر سکے گا۔

جب کروڑوں اربوں خرچ کرکے یہی لوٹے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو پھر سرکاری خزانے کا حشر نشر پہلوں سے زیادہ کریں گے کہ انہوں نے الیکشن کے خرچے توپورے کرنے ہیں !حال تو” اس بازار” کی طرح ہو چکا کہ” وہ “اسی کی ہوتی ہے جو ڈھیروں مال نچھاور کرسکے ! شورش کا شمیری نے خوب کہا!

ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھ
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

اب تو با کردار و بااصول افراد کا منتخب ہونے کا چانس بالکل ہی ختم ہو چلا کہ مال لگاؤ پھر کماؤ اور رفو چکر ہو جاؤ کا فارمولا چل رہا ہے سیاست کبھی کی کاروبار بن چکی اسی لیے تو متحارب گروپس اے ٹی ایم مشینوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں ،بھٹو صاحب کی پارٹی میں جب روایتی وڈیروں نے شامل ہو کر 1977کے انتخابات میں سبھی عہدے اور اسمبلی کی سیٹوں پر قبضہ کرلیا تو ا ن کی پھانسی پر ہمالہ کیا روتا؟ٹکٹ ہو لڈر اور عہدوں پرقابض لیڈر گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے کوئی موثر تحریک نہ چل سکی کارکن جو وڈیروں کے ہی ستائے ہوئے تھے وہ کیوں باہر نکلتے ؟بعدازاں 100%” صاحب” نے انقلابی پارٹی کے مکمل کفن دفن کا بخوبی انتظام کر ڈالادوسری طرف مذہبی پارٹیاں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں کہ1977کی نظام مصطفی کی تحریک کے بعد ضیاء الحقی کابینہ میں جا بیٹھنا انہیں ہمیشہ سے ہی عوام سے دور کر گیا کہ قربانیاں دینے اور شہادتیں قبول کرنے والوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہو گیا تھا کہ لیڈران فوجی ڈکٹیڑ کی کابینہ میں وزیر بن بیٹھے ۔

اب تو بھوکوں مرتے عوام اکٹھے ہو کر پاکیزہ ترین لفظ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک چلا کر اپنے جیسے مزدور کسان راہنماؤں کو مقتدر دیکھنا چا ہتے ہیں جس کے لیے وہ خدا کے حضور سر بسجود ہو کرگڑ گڑاتے ہو ئے دعائیں بھی کر رہے ہیں اور تمام فرقوں مسلکوں طبقوں علاقائی گروہوں اور قابل قبول مشترکہ نام اللہ اکبر کی تحریک کو ہی مقتدر کر ڈالنے کے خواہاں ہیں جس کی حکمرانی میں کوئی پرانا وڈیرہ وزیر سفیر شامل نہ ہو نئی قیادت سامنے آئے اور ملک سے غربت افلاس بیروزگاری مہنگائی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ملک کو فلاحی مملکت میں تبدیل کر ڈالے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر