... loading ...
بڑے سیاستدانوں کی آپس کی گالم گلوچ ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اشتعال انگیز زبان استعمال کرنا حتیٰ کہ بد تمیزیاں تک کر ڈالناایسے افعال ہیں جن سے انتخابات سے بھی قبل لڑائی جھگڑے شروع ہونے ،آپس میں جوتم پیزار ہوجانے ،سیاہیاں پھینکنے جیسی بھیانک حرکتیں شروع ہو چکی ہیں گو جوتے بازی کا یہ عمل قطعاً ناپسندیدہ ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے جس پر روایتی طور پر مخالف گرو ہ مذمتی بیانات بھی دیتا رہتاہے تاکہ “سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ” مگر جوتا پھینکنے والے کے سیاسی سپورٹرز اور عام عوام خوب مزے مزے لیکر خوشیاں مناتے کہ وہ دیکھو آج فلاں لیڈر کو جوتے پڑگئے اور بعض مذمت بھی کرتے ہیں ۔
ویسے جوتے پھینکنے کی تاریخ پرانی ہے یہ بین الاقوامی خبر بنی جب ایک عراقی نے 2008میں امریکی صدر پر جوتا پھینکاجس نے عراق میں امریکی کاروائیوں کے خلاف احتجاجاً ایسا کیا،دوسرا جوتا عراقی بیواؤں اور یتیم بچوں کی طرف سے امریکی کاروائیوں کے خلاف تھا جس کی زبردست پذیرائی ہوئی حتیٰ کہ ایک سعودی باشندے نے ان جوڑوں کی قیمت1کروڑ ڈالر لگا دی تھی، بھٹو صاحب کے جلسہ عام میں لوگوں نے جوتے دکھائے تو انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے پتاہے کہ جوتے مہنگے ہو گئے ہیں آجکل عوام جو کہ مہنگائی بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے پانی میں ڈوب کر خو دکشیاں کرنے یا جل بھن کر مر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں ان کے لیے تو جوتا بازی سے بھی کوئی مزید بڑا ایکشن ان سبھی جغادری سیاستدانوں کے خلاف ہونے کے خواہشمند ہیں جو70سالوں سے ملک کے وسائل پر قابض ہو کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔
وہ تو ان سبھی لوٹا نما نام نہاد سیاستدانوں کو دریا برد ہی نہیں سمندر غرق ہو تا دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ کئی کی تو یہ رائے ہے کہ ان سبھی بھاری سرمایوں کے ذور پر ہمیشہ ہی منتخب ہو جانے والے کرپٹ وڈیروں ،ظالم جاگیرداروں ،نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں ،ناجائز منافع خور صعنتکاروں اور ایسے ہی دیگر ناجائز کمائیاں کرنے والوں کو پکڑ کر اگر سمندر میں وہیل مچھلیوں کی خوراک بننے کے لیے پھینک ڈالا جائے تو منوں مٹھائیاں تقسیم ہوں گی خواہ عوام کو بدستور اسی طرح راتوں کو بھوکوں سونا پڑے در اصل تو بڑی پاپو لر جماعت کو دیکھ کر مفاد پرست لوٹا سیاسی گروبھاگ کر اسی کی مڈھیڑ پر آ بیٹھتے ہیں اور جب اس کی ایسی تیسی ہونا شروع ہوتی ہے تو بھاگم بھاگ دوسرے مقتدر ہوجانے والے گروہ کے ساتھ مل جا تے ہیں عمران خان اچھا بھلا نوجوانوں بالخصوص سیاسی کارکنوں میں پاپولر ہوا تھا مگر جب اس نے اپنے دَر ان کے لیے واکردیے جو کہ ہمیشہ ہی میر جعفر و میر صادق کا کردار ادا کرتے ہوئے بھاگ کرچلتی اقتداری ٹرین میں سوار ہو جاتے ہیں تو اب عام آدمی ان میں و دیگر70سال سے اقتدار انجوائے کرنے والوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا۔مگر عوام کیا کریں ؟کہاں جائیں ؟آگے کھائی پیچھے دریا والا معاملہ در پیش ہے جب کسی لیڈر سے آس لگاتے ہیں تو وہ پھر انہی راندۂ درگاہ طبقات کوگلے لگا کر عوام پر دوبارہ سوار کر ڈالتا ہے کہ جن کی نفرت کی وجہ سے انہوں نے مخصوص لیڈر کو پسند کیا تھا سیاسی کارکن تو سخت مایوسی کے عالم میں ہیں کہ کدھر جائیں ؟ کس رو سیاہ کو رہبر مانیں ” نہ جائے ماندن نہ پائے ر فتن”پھر انتخاب تو اب صرف سرمایہ کی دوڑ کا نام رہ گیا ہے جو زیادہ مال لگائے گا وہی کامیاب ٹھہر سکے گا۔
جب کروڑوں اربوں خرچ کرکے یہی لوٹے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو پھر سرکاری خزانے کا حشر نشر پہلوں سے زیادہ کریں گے کہ انہوں نے الیکشن کے خرچے توپورے کرنے ہیں !حال تو” اس بازار” کی طرح ہو چکا کہ” وہ “اسی کی ہوتی ہے جو ڈھیروں مال نچھاور کرسکے ! شورش کا شمیری نے خوب کہا!
ہمارے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھ
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اب تو با کردار و بااصول افراد کا منتخب ہونے کا چانس بالکل ہی ختم ہو چلا کہ مال لگاؤ پھر کماؤ اور رفو چکر ہو جاؤ کا فارمولا چل رہا ہے سیاست کبھی کی کاروبار بن چکی اسی لیے تو متحارب گروپس اے ٹی ایم مشینوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں ،بھٹو صاحب کی پارٹی میں جب روایتی وڈیروں نے شامل ہو کر 1977کے انتخابات میں سبھی عہدے اور اسمبلی کی سیٹوں پر قبضہ کرلیا تو ا ن کی پھانسی پر ہمالہ کیا روتا؟ٹکٹ ہو لڈر اور عہدوں پرقابض لیڈر گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے کوئی موثر تحریک نہ چل سکی کارکن جو وڈیروں کے ہی ستائے ہوئے تھے وہ کیوں باہر نکلتے ؟بعدازاں 100%” صاحب” نے انقلابی پارٹی کے مکمل کفن دفن کا بخوبی انتظام کر ڈالادوسری طرف مذہبی پارٹیاں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں کہ1977کی نظام مصطفی کی تحریک کے بعد ضیاء الحقی کابینہ میں جا بیٹھنا انہیں ہمیشہ سے ہی عوام سے دور کر گیا کہ قربانیاں دینے اور شہادتیں قبول کرنے والوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہو گیا تھا کہ لیڈران فوجی ڈکٹیڑ کی کابینہ میں وزیر بن بیٹھے ۔
اب تو بھوکوں مرتے عوام اکٹھے ہو کر پاکیزہ ترین لفظ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک چلا کر اپنے جیسے مزدور کسان راہنماؤں کو مقتدر دیکھنا چا ہتے ہیں جس کے لیے وہ خدا کے حضور سر بسجود ہو کرگڑ گڑاتے ہو ئے دعائیں بھی کر رہے ہیں اور تمام فرقوں مسلکوں طبقوں علاقائی گروہوں اور قابل قبول مشترکہ نام اللہ اکبر کی تحریک کو ہی مقتدر کر ڈالنے کے خواہاں ہیں جس کی حکمرانی میں کوئی پرانا وڈیرہ وزیر سفیر شامل نہ ہو نئی قیادت سامنے آئے اور ملک سے غربت افلاس بیروزگاری مہنگائی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ملک کو فلاحی مملکت میں تبدیل کر ڈالے۔