... loading ...
اس آرٹیکل میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ “یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایسی کوئی بھی شہادت جو کہ ملزم کی Crpc 342 کے تحت شہادت ریکارڈ کرتے وقت اُس پر اُس شہادت کی بنیاد پر جرح نہ کی جائے تو ایسی شہادت کو ملزم کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ـ” CRPC 342 کے سیکشن کی بنیاد اِس مقولے پر ہے کہ کسی کو بھی بغیر سُنے سزا نہ دی جائے۔ اِس بات کو دو حصوں میں تقسیم کے جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ یہ کہ کہ عدالت کو اختیار حاصل ہے دوسرا حصہ کہ یہ کہ لازم ہے۔ پہلے حصہ کے مطابق عدالت ملزم سے ایسے سوالات کرسکتی ہے جس سے وہ کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ سکے۔دوسرا حصہ یہ ہے کہ ملزم سے لازمی طور پر سوالات پوچھے جائیں یعنی وہ الزمات جو شہادت کے دوران اِس کے خلاف آئے ہیں اُس بابت ملزم سے اُس کی صفائی مانگی جائے۔2002 MLD 1139 کے مطابق سیکشن 342(2) سی آر پی سی میں عدالت یہ بات پیشِ نظر رکھتی ہے کہ اصل سزا دینے سے پہلے ملزم جو سزا کاٹ چکا ہے وہ اُس اصل سزا کے اندر شمار کی جائے کیونکہ اُس قید کے عرصہ کے طویل ہوجانے کا ذمہ دار ملزم نہ ہے۔ 2005SCMR 364 کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اِس سیکشن کا مقصد یہ ہے کہ عدالت ملزم کو اُس کے خلاف پیش کی جانے والی شہادتوں کے حوالے سے خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن موقع دے۔اِس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدالت ملزم کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہتی ہے بلکہ یہ تو اِس سسٹم کا حصہ ہے کہ عدالت سچائی تک پہنچ سکے۔ اگر ملزم عدالت کو معطمن کر دئے تو یہ اُس کے حق میں بہتر ہوا ورنہ اُس کے خلاف جائے گا۔
2018-SCMR-344 کے مطابق سپریم کورٹ کے جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ لکھا ہے کہ امتیاز وغیرہ جو کہ درخواست گزاران ہیں کی مبینہ فائرنگ سے 16-06-2003 کو صبح ساڑھے پانچ بجے رستم علی کو قتل کردیا گیا یہ وقوعہ گائوں شرن پولیس اسٹیشن گوجرہ ضلع اوکاڑا میں ہوا۔جو وجوہات قتل کی بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ مقتول رستم علی قتل کے دو کیسوں کی پیروی کر رہا تھا اُن کیسو ں میں موجودہ کیس کے ملزمان بھی شامل تھے۔ اِس قتل کے الزام کی بناء پر متذکرہ بالا پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر نمبر 273 اُسی صبح درج کر لی گئی اور ریگولر ٹرائل میں چار ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ جبکہ موجودہ درخواست دہندہ امتیاز المعروف تاج اور اُسکے ساتھی امتیاز ولد رمضان کو سزائیں دی گئیں۔پی پی سی سیکشن تین سو دو سب سیکشن بی بمعہ پی پی سی سیکشن چونتیس پر امتیاز المعروف تاج کو سزائے موت کی سزا سُنائی گئی اور جرمانہ بھی کیا گیا۔ جبکہ اِسکے ساتھی ملزم امتیاز ولد رمضان کو عمر قید کی سزا اور جرمانہ کی سزا سُنائی گئی۔
موجودہ درخواست دہندہ اور اُس کے ساتھی ملزم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو کہ ہائی کورٹ نے مسترد کر دی گئی۔ ہائی کورٹ نے موجودہ درخواست دہندہ کی سزائے موت کو کنفرم کر دیا گیا۔عدالت کو یہ بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار کے ساتھی ملزم امتیاز ولد رمضان نے بار بار جیل سپرئیڈنٹ سے التجاء کی کہ سپریم کورٹ میں اسِ سزا کے خلاف پٹیشن دائر کی جائے لیکن پٹیشن دائر نہ کی گئی۔تاہم درخواست گزار نے کریمنل پٹیشن نمبر 162-L/2009 اِس سزا کے خلاف اِس عدالت میں دائر کی۔2009 کو اِس سزا کے خلاف سماعت کیے جانے کی بابت منظوری دئے دی گئی۔اِس درخواست کی سماعت کی اجازت اِس بناء پر دی گئی کہ عدالت اِس کیس کی شہادتوں کا جائزہ لے سکے اور فریقین وکلاء کا نقطہ نظر سن سکے۔اِس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہے کہ رستم علی پر حملے کے چار ملزمان کو ٹرائل میں بری کر دیا گیا ہے۔یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ موقع پر موجود چشم دید گواہ اگر کچھ ملزمان کو موردِ الزام نہیں مانتا تب وہی چشم دے گواہ کسی اور ملزم کو موردِ الزام نہیں ٹھرا سکتا جب تک اُس ملزم کے رول کے حوالے سے چشم دید گواہ پر علیحیدہ سے جرح نہ کر لی جائے۔ جیسا کہ غلام محمد بنام ممتا زخان PLD1985SC-11 کیس میں ہوچکا ہے۔ اِس کیس میں پراسکیوشن کی جانب سے پیش کردہ دو چشم دید گواہوں پر علیحیدہ سے جرح نہیں کی گئی۔ جہاں پر وقوعہ ہوا وہ ایک کھلا علاقہ ہے۔ جہاں آبادی نہ ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے وقوعہ ہوا۔ لیکن میڈیکل رپورٹ کے مطابق آدھی رات کے وقت ہوا تھا۔ دونوں چشم دید گواہان محمود خان اور محمد اکرم مقتول رستم علی کے نہ صر ف سگے بھائی تھے بلکہ موقع پر موجود گواہ بھی تھے۔ دونوں چشم دید یہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ جس وقت وقوعہ ہوا وہ دونوں اُس وقت اپنے بھائی کے پاس کیا کر رہے تھے۔
اِس مقدمہ قتل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقتول رستم علی وقوعہ کے بعد خود رول ہیلتھ سنٹر پہنچا۔رول ہیلتھ سنٹر وقوعہ سے سترہ کلو میٹر فاصلہ پر ہے ۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اور میڈیکل رپورٹ یہ ثابت کرتی ہے کہ مقتول خود اپنے طبی معائنے کے لیے پیش ہوا۔ لیکن میڈیکل رپورٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتی ہے کہ مقتول کے دو بھائی بھی اُس کے ساتھ طبی معائنے کے وقت موجود تھے۔ گولی مقتول کے پیچھے سے نکلی اِس انداز میں گولی لگنے سے انسان اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ سترہ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل چل کر اپنا طبی معائنہ خود کروائے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور قتل اور پوسٹ مارٹم کا درمیانی وقت ،جو کہ ساڑھے پانچ بجے صبح کے بجائے آدھی رات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ پراسیکیوشین کے مطابق ملزم کے قبضہ سے آتشیں اسلحہ برآمد کیا گیا۔ لیکن اِس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ درخواست گزار کا بیان جو 342 Crpc کے تحت لیا گیا اُس وقت یہ سوال نہ کیے گئے۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایسی کوئی بھی شہادت جو کہ ملزم کی Crpc 42 کے وقت جو statement ریکارڈ کرتے وقت اُس پر اُس شہادت کی بنیاد پر جرح نہ کی جائے تو ایسی شہادت کو ملزم کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ پراسکیوشن کی جانب سے جو Motive بیان کیا گیا کہ وہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے سے درست طور پر نہیں سمجھا گیا ہے۔ اور ہائی کورٹ بھی اِس بات کو نہ سمجھ سکا کہ جو Motive پراسیکیوشن نے بیان کیا ہے وہ درست نہ ہے۔ایف آئی آر جو اِس وقوعہ کی درج ہے وہ یہ ثابت نہیں کرتی کہ درخواست گزار کا براہ راست اِس قتل سے تعلق ہے۔پس درخواست گزار کے خلاف Motive ثابت نہیں ہوتا۔عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ میڈیکل کی شہادت کے محرکات پراسیکیوشن کے گواہان کے الزامات کی تائید نہیں کرتے۔ درخواست دہندہ سے منسوب زخم جو مقتول کو لگایا گیابقول ڈاکٹر مہلک نہ ہے۔
مندرجہ بالا جو بحث کی گئی ہے اِس کا حاصل یہ ہے کہ پراسیکیوشن امتیاز عرف تاج پر کیس ثابت نہ کر سکا ہے۔ اِس لیے عدالت اپیل منظور کرتے ہوئے درخواست گزار کو دی جانے والی سزا معطل کرتی ہے اور ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری ہونے کا حکم دیتی ہے۔ اگر یہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہے تو اِسے رہا کردیا جائے۔ عدالت کو یہ بتایا گیا ہے کہ ساتھی مجرم امتیاز ولد رمضان جسکا 342 (b)بمعہ 34PPC لئے تحت ٹرائل ہوااور اِسے عمر قید کی سزا ہوئی اور ہائیکورٹ نے اِس کی سزا برقرار رکھی۔ عدالت کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ امتیاز ولد رمضان کی جانب سے جیل سپرئیڈنٹ کو مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اِس عدالت میں اِس کے لیے پٹیشن دائر کی جائے۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ فرانزک رپورٹ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ا متیاز ولد رمضان کا اسِ قتل سے کوئی تعلق نہ ہے۔ امتیاز ولد رمضان کا کیس تو بری ہونے کا بنتا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ ملزم تو موقعہ پر موجود تھا اور اِس نے کوئی فائر نہ کیا تھا اور اِس نے مقتول کوکوئی زخم نہ لگایا تھا۔اِس عدالت کے فیصلے 2011SCMR 1142 کے مطابق درخواست دہندہ کو دیا جانے والا شک کا فائدہ اُسکے ساتھی ملزم تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ امتیاز ولد رمضان کو عدالت سے دی جانے والی سزا ختم کی جاتی ہے اور اُس کو بھی شک کا فائدہ دے کر بری کیا جاتا ہے اِسے بھی جیل سے رہا کردیا جائے اگر یہ کسی اور کیس میں مطلوب نہ ہے۔